Thursday, September 21, 2023

مراکش کا زلزلہ ۔۔۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟؟ پراسرار نیلی روشنی؟؟؟

 

مراکش کا زلزلہ

8 ستمبرکو مراکش میں آنے والے  زلزلے سے جاں بحق ہونے  والوں کی تعداد 3000 سے تجاوز کرچکی ہے۔ پانچ ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہیں ۔ مراکش  شہر کے جنوب میں  صوبہ الحورز اور سوس ماسۃ کے کوہستانی علاقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے  ہیں۔ اسکے علاوہ کیسابلانکا،  ورزازات (Ouarzazate) اورشيشاوہ سے بھی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ امریکی مساحت ارضی (USGS)کے مطابق زلزلے  کی شدت  6.8اور اسکا مرکز یعنی epicenter مراکش شہر  سے 70 کلومیٹر جنوب میں ایغیل کے قریب 18.5کلومیٹر گہرائی پرتھا۔ مراکش کے مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco) کاکہنا ہے کہ زلزلے کی شدت 7.2، گہرائی 11 کلومیٹر اور تھرتھراہٹ کا دورانیہ 20 سیکنڈ تھا۔حیات و اسبابِ حیات کیساتھ دوتاریخی مساجد،  جامع الفناء اور جامع الکتیبہ کو بھی  زلزلے سے نقصان پہنچا۔ 1147ء  میں تعمیر کی جانیوالی جامع الکتیبہ کے چٹانوں کو تراش کر بنائے جانیوالے مینار چٹخ گئے

آج کی نشست میں ہم اس قدرتی آفت کے ارضیاتی پہلو کا جائزہ لیں گے۔ احباب کو یاد ہوگا ترکی و شام میں آنے والے زلزلے پر بھی ہم نے اسی نوعیت کی گفتگو کی تھی۔ زلزلے کیوں آتے ہیں اسے سمجھنے کیلئے کرہ ارض کے سطحی پہلو کا جائزہ ضروری ہے۔یہ نکات  آپ ترک و شام زلزلے کے حوالے سے بھی دیکھ چکے ہیں چنانچہ تکرار سے پہنچنے والی کوفت پر پیشگی معذرت۔

زمین کی بیرونی سطح جس  پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہیں جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یاTectonic Plates کہا جاتاہے۔ یہ سلیں  یا پلیٹیں حرکت کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی  ہیں کہ ہمیں اسکااندازہ ہی نہیں ہوتا ، جیسے زمین،  سوج کے گرد  1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا۔ حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر ڈھلنے اوررات چھاجانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کا ہرروز مشاہدہ کرتے ہیں۔

زمین کی پلیٹیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموا ٹکّر سے ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ ٰجو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے وسط پر ہیں وہاں پلیٹوں کے ٹکراو سے لگنے والے جھٹکے محسوس نہیں ہوتے لیکن کنارے پر آباد لوگ ان جھٹکوں سے  کبھی کبھار لرز جاتے  ہیں۔

بعض اوقات پلیٹیں  آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ روک لیتی ہیں یا یوں کہئے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسالیتی ہیں۔شائد اسی بنیاد پر قدیم ہندووں کا خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا  رکھا ہےاور جب دیوتا جی تھک جاتے ہیں تو بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیتے ہیں اور سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔

ماہرین ارضیات کا خٰیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رُک جاتی ہے لیکن  پشت سے آنے والا دھکابرقرار رہتا ہے۔ دباو بڑھ جائے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دباو دونوں جانب سے برقرار رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال طور پر اگر آپ ایک موٹےکاغذ کو ہموار سطح پر رکھ اپنے ہاتھ کاغذ کے دونوں کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) ہوجائیگا۔کوہِ ہمالیہ سمیت دنیا بھر کے پہاڑ وں کو ایسے ہی عوامل نے جنم دیا ہے۔

اگر دباو برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں  پھسل کرایک دوسرے کے راستے سے ہٹنے  لگتی ہیں۔ انشقاق کے  اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح  میں ruptureکہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے ملی ہوتی ہیں اسے ماہرین ارضیات نے خط دراڑ یا fault lineکا نام دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں  اوپر نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں  سمت  پھسل سکتی ہیں۔اگر پرتیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بجائے ساتھ ساتھ ہم آہنگ ہوکر حرکت کریں تو چٹانیں آڑی ترچھی سمت بھی پھسل سکتی ہیں۔مراکش کے زلزلے میں کچھ ایسا ہی ہوا۔  پلیٹوں کے پھسلنے سے  سطح  زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے کے پہلا جھٹکا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے کا سبب بن سکتی ہے۔

پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے ساتھ وہ  توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں پلیٹوں  کی حرکت رک جانے کے باوجود پیچھے سے آنے والے دھکے کے نتیجے میں  جمع ہورہی تھی۔اسے یوں سمجھئے کہ  اگر آپ نے گاڑی کو بریک پر سختی سے پیر رکھا ہوا ہو،  پیچھے سے کئی تنو مند نوجوان گاڑی کو دھکا لگارہے ہوں اور اگر آپ اچانک بریک سے پاوں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیداہونے تھرتھراہٹ Vibrations زلزلے کے مقام سے سینکڑوں میل دور تک کی زمین کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو رادفات یا  after shocksکا سبب ہے۔ رادفہ کی اصطلاح ہم نے قرآن سے لی ہے۔ تتبعھا الرادفۃ، سورہ  79، النازعات آئت 7

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا،  انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا ہے وہیں زبردست  Seismicتوانائی بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں  نقطہ آغاز یا Hypocenter  سےچہار جانب ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔

زلزلے کے حوالے سے ترکی اور شام کے مقابلے میں لیبیا پرسکون و بے ضرر  علاقہ ہے کہ ملک کا  چھوٹاسا حصہ یعنی شمالی مغربی مراکش افریقی اور یوریشیائی (Eurasian)پلیٹ کے سنگم پر ہے۔ افریقی پرت کو نوبین (Nubian)پلیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین ارضیات کاخیال ے کہ 6 کروڑ سال پہلے یوریشیائی اور افریقی پیلٹوں کے درمیان تصادم سے سارا کرہ ارض خوفناک زلزے کا شکار ہوا۔ کرہ ارض پر عظیم الشان عالمگیر سمندر  جسے  سائنسدانوں نے بحر Tethysکانام دیا تھاکئی سمندروں میں تقسیم ہوگیا۔پلیٹوں کے ٹکراو  سےیورپ میں الپس Alps ایران و عراق کے قریب کوہ زاغرس Zagrosاور ہمارے علاقے میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے وجود میں آئے۔ افریقی اور یوریشین پرتوں کی دھینگا مشتی نے  مراکش، تیونس اور الجزائر تک پھیلے 2500 کلومیٹڑ طویل کوہِ اطلس کو جنم  دیا ہے۔ ارضیات کے علما کا ٓخٰیال ہے کہ گزشہ کئی ہزار سال سے  افریقی  پرت کی حرکت بہت خفیف  یعنی ایک ملی میٹر  سالانہ ہے۔

تاہم کوہِ اطلس کی ایک انوکھی ارضیاتی خصوصیت  یہ ہے کہ اسکی بیرونی  سخت پرت یا lithosphereمعمول سے زیادہ پتلی ہے اور نیچے کی سخت ٖ غلافی چٹانوں (mantle rocks) کے اوپر کی سمت مسلسل حرکت کی وجہ سے کوہ اطلس کی  ارضیاتی ساخت بہت زہادہ مستحکم نہیں۔ غلاف (Mental) کا قصہ یہ ہے کہ کرہ ارض کا اندرونی مرکز یا کور (core)ایک دہکتی ہوئی گیند ہے جسکی ماہیت انسان کو اب تک ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن Seismic تجزئے کے مطابق  لوہے اور نکل Nickelکے دھاتی مرکب سے بنی اس تہہ کا درجہ حرارت 9800Fسے زیادہ ہے۔ قدرت نے  بکمال مہربانی ہماری زمین کے دہکتے مرکز کو سلیکیٹ (Silicate)کی  2900 کلومیٹر موٹی غیر مسامدار سخت چٹانوں سے گھیر دیا ہے جو غلاف یا مینٹل کہلاتا ہے۔

یوریشین اور افریقی پرتوں کی حرکت اگرچہ کہ خفیف ہے لیکن  کوہ  اطلس کی  اوپری نرم اور نیچے کی  غلافی سخت چٹانوں کے مابین رگڑ یا Faultingکا سلسلہ جاری رہتاہے۔ ارضیاتی ساخت کی یہ خرابیاں اس زلزلے کی ممکنہ وجہ ہیں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ نقائص ایک طویل عرصے سے فعال ہیں۔دوہفتہ پہلے آنے والے زلزلے کے بارے میں ماہرین طبعیائی ارضیات (Geophysicists)  اور زیر زمین تھرتھراہٹ پر نظر رکھنے والے  علما (Seismologists) کا کہنا ہے  کہ  افریقی پرت اور یوریشیائی پرت کی حرکت ایک سمت  کو تھی اور  اس 'ہم آہنگی' یا   Convergenceکی وجہ سے   500 کلومیٹڑ دور کوہ اطلس کی گہرائی میں کمزور اور متغیر چٹانیں ایک دوسرے سے آگے نکل گئیں۔دونوں  پرتوں کی حرکت ایک ہی  سمت میں تھی اسلئےٹوٹ پھوٹ و  انشقاق یا Ruptureکے نتیجے میں  چٹانیں اوپر نیچے  اور دائیں بائیں کے بجائے آڑی ترچھی  پھسلیں  یا ارضیات کی اصطلاح میں Oblique Thrust Faultingکا حادثہ پیش آیا اور 6.8شدت کے جھٹکے سے خارج ہونے والی 9 درجے کی خوفناک  بھونچالی یا  Seismicلہروں نے   قیامت برپا کردی۔

یہ تو تھا اس حادثے کا تیکنیکی تجزیہ۔ لیکن اس بار ہلاکت خیز  جھٹکے سے چند لمحہ پہلے  افق پر کوند جانیوالی نیلی روشنی کا بھی خاصہ شورہے۔ اس پراسرار چمک کی کوئی حتمی سائنسی منطق سامنے نہیں آئی اور ابتدا میں ماہر ین نے اسے تخیلاتی نظر بندی قراردیا یعنی یہ چودہ طبق روشن ہوجانے والی بات تھی۔ لیکن کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن پر محفوظ کئے جانیوالے مناظر میں نیلی روشنی کی پراسرار چمک بہت واضح ہے۔ یہ مناظر متاثرہ علاقے کے کئی مقامات پر ریکاڑد کئے گئے جسکی وجہ سے اسے خواب و خیال کہہ کر نظر انداز کردینا ممکن نہیں اور اس چمک کو نورِ زلزلہ (Earthquake Light)یا  EQLکا نام دیا جارہا ہے۔

امریکی مساحت ارضی کے ایک ریٹائرڈ ماہر ِطبعیاتی ارضیات جان ڈر John Derrکا کہنا ہے  کہ نورِ زلزلہ محض تخیل نہیں تاہم   اسکا مشاہدہ وقت، مقام اور وہاں چھائی تاریکی سے مشروط ہے۔  بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ اور شام میں آنے والے زلزلے سے پہلے بھی افق پر یہ روشنی دیکھی گئی حالانکہ وہاں یہ قیامت دوپہر ڈیڑھ بجے ٹوٹی تھی۔اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مورخیں نے نورِ زلزلہ کا ذکر   89 قبل مسیح  آنے والے زلزلوں کی روداد بیان کرتے ہوئے بھی کیا ہے۔ دورِ جدید میں نورِ زلزلہ 1965 کے  بھونچالِ جاپان سے پہلے دیکھا گیا۔ اسکے علاوہ 2008ء میں چین، 2009 میں اٹلی اور آخری بار  2017 میں زلزلہِ میکسیکو سے پہلے بھی روشنیاں نظر آئیں۔

جناب جان ڈر کا کہنا ہے کہ نورِ زلزلہ 5 یا اس سے شدت کے زلزلوں میں ظاہر ہوتا ہے اور یہ زلزلے کے مقام (Epicenter) سے 600 کلومیٹر  تک کے علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ روشنی کس نوعیت کی ہے اسکے بارے میں بھی کوئی بات حتمی نہیں۔چند ماہرین کے خیال میں یہ روشنیاں عام طور پر تیرتے ہوئے آسمانی اجسام کی شکل میں ہوتی ہیں جبکہ  کچھ کے خیال میں  یہ بادل جیسی لکیریں ہیں، جن میں سے اکثر کا رنگ سبز ہے۔بعض علمائے ارضیات کے کا کہنا ہے کہ  یہ نور زلزلہ اسمانی بجلی کی شکل میں کوندتا ہے۔امریکہ  ادارے NASAکے ایک ماہر  فریڈمن فرنڈ Friedemann Freund کے مطابق جب ساختماتی  پرتوں یا Tectonic Platesکے ٹکراو اور رگڑ سے چٹانیں ٹوٹتی ہیں تو ذرات میں ملفوف آکسیجن روشنی کی صورت فضا میں بکھر جاتی ہے

ایک اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زلزلے کے مرکز کے قریب شدید ٹیکٹونک دباؤ کی وجہ سے چٹانوں میں موجود Radon کا اخراج روشنی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تاہم  اس نظرئے کو زیادہ پزیرائی نہیں ملی کہ ریڈان ایک تابکاری مادہ ہے اور اگر ریڈان  اس روشنی کا ماخذ ہے تو اس سے  محض چمک نہیں بلکہ  شعلہ جوالہ جنم لینا چاہئے۔

سائنسدانوں کی اکثریت کیلئے نورِزلزلہ اب تک ایک تخلیاتی مشاہدہ ہے لیکن اس پر سنجیدہ گفتگو کا اغاز ہوچکا ہے۔ کیا عجب کہ یہ روشنی اس قدرتی آفت کی پیشنگوئی  کا روشن سنگ میل  بن جائے۔

حوالہ:

  • امریکی مساحت ارضٰی USGS
  • مراکشی مرکز برائے طبعی ارضیات (Geophysical Center of Morocco)
  • مڈل ایست آئی Middle East Eye
  • ڈاکٹر سلوین باربٹ Sylvain Barbot جامعہ جنوبی کیلی فورنیا(USC)
  • پروفیسر ہوزے پیلیز (José A. Peláez) ، مراکش
  • العربیہ ٹیلی ویژن سعودی عرب

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 22 ستمبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 22 ستمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 22 ستمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 ستمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment