کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب ۔ آج تم یاد بے
حساب آئے
آج جبکہ ترک ملت سلطانی جمہور پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز
ہے ان شہدا کی جدائی کے زخم تازہ ہوگئے ہیں جنکے گرم لہو نے سیکیولر ازم کے اندھیروں میں ایمان و یقین کے دیپ روشن کئے۔
بے خدا سیکیولر سے نجات میں نجم الدین اربکان مرحوم کی بصیرت اور طیب ایردوان کی
ہمت و انتھک محنت کا بڑا ہاتھ ہے لیکن قصرجمہوریت کی بنیاد کو وزیراعظم عدنان
میندریس، وزیر خارجہ فطین رستم اور وزیرخزانہ حسن ارسلان کا پاک و مبارک لہونے
معطر کررکھا ہے۔
جب 1950میں پہلی بار
آزادانہ انتخابات ہوئے تو عدنان میندریس کی ڈیموکریٹک پارٹی نے 487 کے ایوان میں 408
نشستیں جیت کر سیکیولر قوتوں کو حیران کردیا۔ چار سال بعد 1954کے انتخابات نے اتاترک کی ریپبلکن پارٹی کا بالکل ہی صفایا ہوگیا
اور عدنان میندریس نے 541 میں سے 503 نشستیں جیت لیں۔ 1957 میں ڈیمو کریٹک پارٹی
نے ایک بار پھر دو تہائی نشستیں جیت کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی۔ اپنے عہد
اقتدار میں میندریس سرکار نے سارے ترکی
میں صنعتوں کا جال بچھا دیا، ترکی نے مغرب سے قریبی تعلقات قائم کئے اور نیٹو کی
رکنیت حاصل کی۔ایک آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت کو پارلیمینٹ کے سامنے جوابدہ کیا
گیا۔ شہری آزادیوں کو بحال کیا گیا۔ مدارس میں عربی تعلیم کی اجازت دی گئی، مساجد
سے عربی میں اذان بحال کی گئی جبکہ اسکارف لینے والی خواتین کے پبلک پارکوں میں
داخلے پر پابندی ختم کردی گئی۔
جناب میندریس کے ان اقدامات کی حزب اختلاف نے سخت مخالفت
کی۔ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو نے جب ان سے طنزیہ پوچھا کہ وہ شریعت
نافذ کرکے خلافت کب بحال کر رہے ہیں تو جناب میندریس نے بے دھڑک جواب دیا کہ اگر
پارلیمنٹ چاہے تو مکمل شریعت بھی نافذ ہوسکتی ہے۔ اس پر انکے وزیرخارجہ فطین رستم
نے پر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا اور وزیر خزانہ حسن
ارسلان بےاختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔
پارلیمان کی یہ گفتگو ان تینوں کیلئے موت کا پیغام لائی۔ 27
مئی 1960 کو حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سرسری سماعت کے دوران استغاثہ نے جو فرد
جرم عائد کی اسکے مطابق بعد عربی مدارس کی بحالی،
بند مساجد کا اجرا ، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کے سر ڈھانکنے
کی اجازت ریاست کے خلاف گھناونا جرم اور سیکیولر ازم سے صریح انحراف تھا۔ ان
'سنگین' الزامات کے ساتھ پارلیمینٹ کے اجلاس میں خلافت بحال کرنے کا عزم ناقابل
معافی ٹہرا۔ عدنان میندریس اور انکے دونوں ساتھیوں کو سزائے موت سنادی گئی اور
اپیل و نظر ثانی کے تکلف میں پڑے بغیر 17ستمبرکو یہ تینوں تختہ دار پر لٹکا دئے
گئے۔
یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا اسکا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد
فیاض کے بیان سے ہوتا ہے جو انھوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق ترکی
کے صدر جمال گرسل نے جناب میندریس اور انکے ساتھیوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے
سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ھوئے۔ صدر نے
موت کے حکم نامے کو مسترد کرتے ہوئے تحریر کیا کہ آئین کے مطابق غداری کا مقدمہ
صرف کھلی عدالت میں چلایا جاسکتا ہے جبکہ اس انتہائی اھم مقدمے کی سماعت چند
نوجوان فوجی افسروں نے بحر مرمارا کے ایک تنگ و تاریک جزیرے پر کی اورصدر و وزیراعظم کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے
ہوئے انکو دوساتھیوں سمیت تختہ دار پر کھینچ دیا گیا۔
جناب میندریس کے آھنی اعصاب کا مظاھرہ اسوقت ہوا جب پھانسی کی صبح رات کے تیسرے پہر جلاد، جیل کے سپر انٹنڈنٹ کے ھمراہ انکے سیل میں داخل ہوا۔ ٘موصوف کے خراٹوں سے سارا سیل گونج رھا تھا اور وہ اتنی گہری نیند میں تھے کہ بیدار کرنے کیلئے انکے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے پڑے۔ جلاد کا کہنا ہے کہ اس نے پوری زندگی میں سزائے موت پانے والے فرد کو ایسا پرسکون نہیں دیکھا۔ انکی موت کے بیس سال بعد ایک آئینی عدالت نے جناب میندریس کی پھانسی کو وحشیانہ قتل قرار دیا اور انھیں جدید ترکی کا معمار قرار دیتے ہوئے انکے لئے عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا انکے دونوں سزا یافتہ ساتھی بھی اسی مقبرے میں انکے ساتھ آسودہِ خاک ہیں۔ انکی آبائی شہر ازمیر کے ھوائی اڈے اور مرکزی جامعہ کو بھی جناب میندریس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ ؏ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔
No comments:
Post a Comment