ایران کیلئے ایک متوازن سفارتکار کا انتخاب
صدر جو بائیڈن نے جناب رابرٹ ملّے کو ایران کیلئے امریکہ کا خصوصی نمائندہ نامزد کیا ہے۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ کا تعلق ڈیموکریٹک کے ترقی پسند دھڑے سے ہے جو خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کہتے ہیں۔ اس دھڑے کے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں لیکن اسکی شناخت امریکی ایوان نمائندگان کی 'چارلڑکیاں' یعنی الحان عمر، رشیدہ طلیب، الیکزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔اس 'چار کے ٹولے' کو صدر ٹرمپ 'اسکواڈ' کہتے تھے۔حالیہ انتخابات کے بعد اس 'ٹولے' میں ایک لڑکی کوری بُش اور ایک سرپھرے لڑکے جمال بومن کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کیلی فورنیا کے رو کھنہ کے علاوہ تین دوسرے ارکان کے ساتھ ایوان نمائندگان میں جسٹس ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم اب 10 ہے۔
رابرٹ کے والد سائمن ملے نسلاً شامی نژاد مصری، مذہباً یہودی اورسیاسی اعتبار سے بائیں بازو کے سرگرم کارکن و صحافی تھے۔ نظریاتی ہم آہنگی کی بنا پر مصری صدر جمال ناصر سے انکی دوستی تھی اور وہ سرکاری اخبار الجمہوریہ سے وابستہ ہوگئے۔ اخوان المسلمون کے خلاف کاروائیوں کی انھوں نے مخالفت کی جسکی بنا پر جمال ناصر سے انکے تعلقات کشیدہ ہوئے اور اس سے پہلے کہ حالات زیادہ خراب ہوتے وہ نیویارک آگئے۔ جمال ناصر نے بھی دیرینہ دوستی کا پاس رکھتے ہوئے انھیں نیویارک میں الجمہویہ کا نمائندہ نامزد کردیا۔ یہاں سائمن کی ملاقات ایک امریکی خاتون صحافی باربرا سلوراسٹائن سے ہوئی جو الجزائر کی آزادی کیلئے سرگرم سیاسی جماعت نیشنل لبریشن فرنٹ (FLN) کی کارکن اور اقوام متحدہ میں FLNمبصرین وفد کی رکن تھیں۔ جلد ہی دونوں سے شادی کرلی۔
رابرٹ ملے کی پیدائش نیویارک میں ہوئی۔ انکے والد اور والدہ کی انقلابی سرگرمیوں پر امریکی ایف بی ائی کو تشویش تھی چنانچہ والد صاحب اہلیہ اور چھ سالہ رابرٹ کو لے کر فرانس چلے گئے جہاں انھوں نے Afrique Asiaکے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ کمیونسٹ خیالات کا حامل یہ جریدہ فلسطین سمیت افریقہ اور ایشیا میں آزادی کی تحریکوں کا زبردست حامی تھا۔ انقلابی سرگرمیوں کے سبب 1980 میں انھیں فرانس سے بھی نکال دیا گیا اور یہ خاندان واپس نیویارک آگیا۔
نیویارک واپس آکر رابرٹ نے جامعہ ییل (YALE) سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی جسکے بعد جامعہ ہارورڈ سے وکالت کا امتحان (JD)پاس کیا۔ تعلیم کے دوران اسرائیل فلسطین تنازعے پر رابرٹ کے کئی مقالے شایع ہوئے۔ انکے دور طالب علمی میں سابق امریکی صدر اوباما بھی ہارورڈ کے طالب علم تھے۔اپنی والدہ کی وجہ سے انھیں الجزایر کی سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ جب الجزائر میں اسلام پسندوں کی انتخابی کامیابی کو فوجی بوٹ سے کچلا گیا تو رابرٹ نے اس ظلم کے خلاف مضامین لکھے۔ سابق صدر بل کلنٹن نے انھیں قومی سلامتی کونسل میں نمائندہ برائے جمہوریت و انسانی حقوق تعینات کیا۔ 2008 کی انتخابی مہم میں انھوں نے صدراوباما کے کارکن کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا لیکن جلد ہی خود اوباما نے انھیں کان پکڑ کر صرف اسلئے نکال دیا کہ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ رابرٹ ملے حماس سے رابطے میں ہیں۔ رابرٹ کا کہنا تھا کہ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کی تمام سیاسی قوتوں سے رابطے میں رہتے ہیں لیکن انکی ایک نہ سنی گئی۔
صدر اوباما کے دوسرے عہد صدارت میں 2012 کے وسط تک ایران کا جوہری تنازعہ سنگین ہوگیا۔ اسرائیلی ترغیب کاروں (Lobbyists)نے اس خطرے کو اتنا بڑا بنا کر پیش کیا کہ ایرانی تنصیبات پر فوجی حملے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ امریکہ اسرائیل سیاسی مجلس عمل یا IAPACنے زبردست مہم شروع کردی۔ اسوقت صدر اوباما نے رابرٹ ملے کو خلیج فارس پالیسی گروپ کا رکن نامزد کیا۔ مارچ 2014 میں جناب ملے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امور پر صدر اوباما کے خصوصی مشیر مقرر ہوئے۔ اس تقرری سے جہاں اسرائیل اور انکے خلیجی اتحادیوں خاص طور سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شدید تشویش میں مبتلا ہوئے تو وہیں امریکہ کے ان یورپی اتحادیوں کو تقویت پہنچی جو ایرانی جوہری تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے تھے۔ رابرٹ ملے کے آنے سےخود ایران کی جانب سے ہیجان میں کمی ہوئی۔
رابرٹ ملے نے ایران سے رابطوں کا آغاز کیااور آخر کار جولائی 2015 میں وہ تاریخی جوہری معاہدہ ہوگیا جسے ایرانی برنامیج کہتے ہیں۔ انگریز ی میں اسکا مخٖفف JCPOAہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پابندیاں ختم کردینے کے عوض یورینیم کی افزودگی کو منجمد کردینے پر راضی ہوگیا۔ دوسرے مرحلے میں افزودگی کو اس سطح سے کم رکھا جانا ہے کہ جہاں یورینیم جوہری ہتھیار بنانے کیلئے استعمال نہ ہوسکے۔معاہدے پر سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان کے علاوہ جرمنی نے بھی دستخط کئے ہیں۔اسی لئے JCPOAکو 5پلس 1 معاہدہ بھی کہا جاتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے ایک سال بعد 2018 میں صدر ٹرمپ نے امریکہ کو JCPOA سے علیحدہ کرکے ایران پر دوبار پابندیا عائد کردی تھیں۔
رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائےایران تقرری کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے، یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کیلئے ہٹانے، اسرائیل فلسطین دو قومی ریاست پر بائیڈن انتظامیہ کے اصرار اور جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امر یکی حکومت کے طرز عمل میں ایک 'موہوم و مبہم' سی مثبت تبدیل کے آثار نظر آرہے ہیں۔
جناب رابرٹ ملے مشرق وسطیٰ امن کے حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطین میں حماس اور علاقے میں اخوان المسلمون بہت بڑی سیاسی قوت ہیں جنھیں غریبوں میں زبردست پزیرئی حاصل ہے۔ انکا خیال ہے کہ اخوان کے بارے میں دہشت گرد وانتہاپسند ہونے کا تاثر غیر حقیقی ہے اور ساتھ ملا کر اخوانیوں کے روئیے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے علاقے میں قیام امن اور خوشحالی کیلئےمصر میں اسوقت کی اخوانی حکومت کیساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
رابرٹ ملے کا تقرر ہے تو خوش آئند لیکن انھیں امریکہ کی اسرائیل نواز سیاسی قوتوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا جنکی جڑیں بہت گہری اور پہنچ بہت دور تک ہے۔
No comments:
Post a Comment