Monday, February 1, 2021

برما! انسانی حقوق کونسل (UNHRC)کی رپورٹ

برما! انسانی حقوق کونسل (UNHRC)کی رپورٹ

برما میں  چین کے تعاون سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا جو سفاک کھیل کھیلا گیا وہ منظم  Islamphobiaاور تعصب کے باوجود دنیا سے پوشیدہ نہ رہ سکا اور اب ساری دنیاکے باضمیر لوگ اس ظلم کے خلاف ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ مارچ 2017 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل UN Human Rights Council(UNHRC) نے حقایق کی تلاش کیلئے UN Independent International Fact-Finding Mission on Myanmar کے عنوان سے ایک 3 رکنی کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن کے سربراہ انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوقی دارسمان تھے۔ سری لنکا کی محترمہ رادھیکاکومراسوامیRadhika Coomaraswamyاور انسانی حقوق کے آسٹریلیوی چمپین مسٹر  کرسٹوفر سیڈوٹیChristopher Sidoti مشن کے ارکان نامزد کئے گئے تھے۔

حسب توقع اقوام متحدہ کے اس مشن کو صورتحال کے مشاہدے کیلئے برما جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور  برمی فوج اور شہری اداروں کے اہلکاروں نے معلومات و وضاحت کیلئے کمیشن کے ارکان کے فون اور خطوط کا جواب بھی نہیں دیا۔ اسکے باوجود کمیشن نے مشاہدہ جاری رکھا اور 875  متاثرین سے تفصیلی انٹرویو کئے۔

مشن کی ایک رکن محترمہ رادھیکا  اس قسم کی تحقیقات کی ماہر ہیں۔ انھوں نے امریکہ سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ انکی وجہِ شہرت بچوں اور خواتین کے خلاف جنسی تشدد کی تحقیق ہے۔ وہ انسانی حقوق کمیشن سری لنکا کی سربراہ رہ چکی ہیں اور تامل خانہ جنگی کے دوران انھوں نے کئی بار انتہائی جرات کے ساتھ سری لنکا کی فوج کی جانب سے ظلم وزیادتی کے اقدامات کی نشاندہی کی۔ یہ خاتون 1994 سے جنگوں کے دوران بچوں سے زیادتی کے امور کی تحقیقات کررہی ہیں۔ 2012میں  اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے رادھیکا کو بچیوں سے بدسلوکی، عصمت دری اور خواتین کے خلاف تشدد کے معاملات کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیاتھا۔ بے لاگ و غیر جانبدارانہ تحقیقات پر امریکن بار ایسوسی ایشن اور امریکہ کی کئی جامعات انھیں اعزاز سے نواز چکی ہیں۔ میدان جنگ اور عسکری کشیدگی کے دوران بچوں سے ناروا سلوک کی چشم کشا لیکن مبنی بر انصاف تحقیقات کی بنا پر انھیں 2000میں انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے وکلا کی بین الااقوامی انجمن International Human right Law Groupنے عالمی ایوارڈ سے نوازا۔ اپنے طویل تجربے کی بنا پر ان متاثرین سے محترمہ نے خود بات کی۔ کومراسوامی کو ہندی اور بنگلہ پر بھی مکمل عبور ہے اسلئے انھیں بات کرتے ہوئے مترجمین کی ضرورت بھی پیش نہ آئی جس کی وجہ سے ظلم و ستم کی ماری ان بچیوں اور کم سن خواتین نے بلاجھجھک داستانِ الم کو کھل کر بیان کیا۔

کمیشن کے برما جانے پر پابندی تھی لیکن زمینی صورتحال کا جائزہ لینے لئےمصنوعی سیاروں سے حاصل کی گئی تصویروں (satellite imagery) کی مدد سے برمی فوج کی حرکات، گھروں کی  آتشزنی اور تباہی کا مشاہدہ کیاگیا۔ کمیشن نے بنگلہ دیش کے علاوہ ملایشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور برطانیہ جاکر وہاں موجود متاثرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران دنیا بھر میں موجود ان برمی فوجی افسران سے بھی بات کی گئی جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر معلومات فراہم کیں۔کمیشن نے لاکھوں تصاویر اور فلموں کا معائنہ کیا۔سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی یوٹیوب رپورٹس اور پیغامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ متاثرین کی گفتگو، سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا سے حاصل کئے جانیوالے مواد کی تصدیق و تجزئے کیلئے دنیا بھر کے ماہرین نفسیات، ذریع ابلاغ کے علما اور قانون دانوں سے مدد لی گئی۔ جہاں کہیں ہلکا سا بھی شک محسوس ہوا اس شہادت کو حذف کردیا گیا اور رپورٹ کی تیاری میں صرف ان  مشاہدات کو شامل کیا گیا ہے جس کی صحت پر ہلکا سا بھی شائبہ نہیں۔

شہادت اور مصدقہ مواد جمع کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا جسکے بعد کئی ماہ رپورٹ کی تیاری پر صرف ہوئے اور  کمیشن نے اپنی رپورٹ 27 اگست کو کونسل کے سامنے جمع کرادی ۔ اٹھارہ  ستمبر کو یہ رپورٹ اشاعتِ عام کیلئے جاری کردی گئی۔ اس موقع  جنیوا میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کمیشن کے ارکان نے اپنے مشاہدات کے چیدہ چیدہ نکات پیش کئے:

  • رپورٹ کے مطابق کمیشن نے راخین (روہنگیا) کے علاوہ شمالی برما کی ریاست کاچن (Kachin) اور ریاست شان (Shan)کا بھی  جائزہ لیاگیا۔ ان دوریاستوں میں آباد مسیحیوں کو بھی نسل پرست بودھوں کے حملوں کا سامنا ہے۔
  • روہنگیا آبادی کو جن مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے ان میں قتل عام، گھروں کی آتشزدگی، بچوں کا قتل، کم سن بچیوں کی عصمت دری، بردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت، بچوں سے بیگار اور بدترین تشدد شامل ہیں۔
  • روہنگیا آبادی ختم ہونے یا نسل کشی کے خطرے سے دوچار ہے۔
  • فوج کی جانب نے نہتے عوام کا قتل عام، اجتماعی عصمت دری اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز تو دور کی بات عسکری حکمت عملی کے اعتبار سے بھی اس وحشت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
  • میانمار میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے وہ انسانی ضمير کو ہلا دینے والے ہیں۔
  • ایک سال کی تفتیش سے یہ مستند شواہد سامنے آئے ہیں کہ میانمار کی فوج نے جن جرائم کا ارتکاب کیاہے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتہائی سنگین جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔
  • پہلے سے طئے شدہ منظم منصوبے کے تحت عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ روہنگیا آبادی کے مکانات کو نذر اتش کیاگیا اورانکے مال اسباب لوٹ لئے گئے۔
  • اس قتل عام میں تتما داو (میانمار سرکاری فوج) کے ساتھ دوسری ملیشیا اور مسلح جتھے ملوث ہیں۔
  • قتل و غارت گری اور آبروریزی تتماداو  کی جانب سے روہنگیا آبادی پر  دانستہ حملہ تھا۔
  • اگست 2017 میں پھوٹنے والے تشدد کے نتیجے میں روہنگیا کے دس لاکھ پناہ گزینوں میں سے تین چوتھائی بنگلہ دیش چلے گئےہیں۔
  • جن مظالم نے روہنگیا کو  اپنے گھر بار سے بھاگنے پر مجبور کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہیں اور یہ کہ پناہ گزینوں کے لیے واپس جانا محفوظ نہیں ہے۔
  • تتماداو کے رویوں سے اندازہ ہوا کہ یہ خود کو انسانی حقوق اور بین لاقوامی قوانین حتیٰ کہ برمی دستور کا بھی پابند نہیں سمجھتے اور انکے سامنے انسانی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں۔
  • روہنگیا آبادی کے خلاف تشدد کا ارتکاب محض وقتی اشتعال کا نتیجہ نہٰں تھا بلکہ زمینی حقائق اور  شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروائی منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل عام بلکہ نسل کشی کے ارادے سے کی گئی ہے۔
  • تفصیلی شوہد کے بعد کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ تتما داو انسانیت کے خلاف جرایم کی مرتکب ہوئی ہے اور برما کی عسکری قیادت کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہئے۔
  • روہنگیا آبادی کے خلاف جن مظالم کا ارتکاب ہوا وہ نسل کشی کی تعریف میں آتے ہیں۔تشدد پر اکسانے کیلئے منظم انداز میں مذہبی و لسانی تعصب پھیلایا گیا۔ برمی قائدین کی جانب سے نفرت انگیز خطابات، ریاستی پالیسی کے تحت روہنگیا آبادی کو ملکی سیاست سے الگ تھلگ رکھنے اور تعصب کی ریاستی سرپرستی سے کمیشن کے اس شبہے کو تقویت ملتی ہے۔
  • تحقیق، مشاہدے اور متاثرین سے تفصیلی انٹرویو کے بعد کمیشن نے ان سنگین جرائم کے متوقع ذمہ داروں کی فہرست بھی تیار کی ہے اور کمیشن سفارش کرتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کرکے عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ فوجی افسران میں تتماداو کے سربراہ جنرل من اونگ ہیناگ (Min Aung Hiang)،نائب کمانڈر سو ون (Soe Win)،اسپیشل اپریشن کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل آنگ کیا زاو(Aung Kyaw Zaw)، ٓمغربی کور کے سربراہ جنرل موانگ موانگ سو (Maung Maung Soe)،ہلکے توپخانہ کے 33 ویں ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈئر جنرل آآنگ آنگ (Aung Aung)، ہلکے توپخانہ کے 99 ویں ڈویژن کے سربراہ بریگیڈئر جنرل تھن او (Than Oo)کے نام اس رپورٹ میں درج ہیں جبکہ کمیشن نے جرائم کے مرتکب باقی افسران کی فہرست اقوام متحدہ کے ہائی کیشن برائے انسانی حقوق کو پیش کردی ہے
  • سویلین قیادت  بظاہر تتماداو کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن یہ لوگ بھی مجرمانہ غفلت اور ظلم و ستم کی خاموش حوصلہ افزائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہیمانہ تشدد رکوانے اور برما کی اسٹیٹ کونسلر  یا سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں اداکرنے میں محترمہ آنگ سان سوچی نے Aung San Suu Kyi بری طرح ناکام رہیں۔ 
  • برما کے آئین اورعدالتی نظام نے تتماداو کو لامحدود اختیارات دے رکھے ہیں۔ مسلح افواج اپنے کسی بھی عمل کیلئے عدالت یا ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں اورمتاثرین کئی دہائیوں سے انصاف سے محروم ہیں۔ چنانچہ (انصاف کی فراہمی کیلئے) عالمی برادری کو احتساب کا موثر نظام وضع کرنا چاہئیے۔
  • مشن برما کا معاملہ  انٹرنیشنل کریمنل کورٹ لے جانےکی سفارش کرتے ہوئے فوری طور پر ایک بنچ تشکیل دینے کی درخواست کرتا ہے۔
  • اسی کے ساتھ جن افراد کو اس رپورٹ میں  انسانیت کش سنگین جرائم کا ذمہ دار ٹہرایا ہے ان سب کے خلاف  تادیبی پابندی کی سفارش کی جاتی ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کے لیے برما کے سفیر کیاؤ مو تن نے مشن کی رپورٹ کو یک طرفہ،جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے اسے راخین تنازعے کے پائیدار حل تلاش کرنے کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیاہے۔ سفیر موصوف نے فرمایا کہ  حکومت کو بے گھر ہونے والوں خصوصاً عورتوں اور بچیوں سے دلی ہمددردی ہے اور جو کوئی بھی واپس آنا چاہتا ہو حکومت دوبارہ آبادکاری میں اسکی مدد کو  تیار ہے۔

اتنی صاف اور واضح رپورٹ کے بعد اب تک تو جنگی جرائم ٹریبیونل قائم ہوجانا چاہٗے تھا لیکن 3 ہفتے گزرجانے کے باوجود اسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا اور ڈر ہے کہ یہ لرزہ خیز دستاویز عملاً ردی کی ٹوکری کی نظر ہوجائے گی۔ مشن کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے سلامتی کونسل کی آشیر واد ضروری ہے اور چین صاٖ ف صاٖف کہہ چکا ہے کہ وہ برما کے خلاف کسی بھی قرارداد کو ویٹو کردیگا۔ اراکان برما سے چین کے اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ اراکان کا ساحل ہمارے مکران کی طرح کٹا پھٹا ہے اور کیوک پھیو کے مقام پر گہرا سمندر ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ چین گوادر کی طرح کیوک پھیو میں بھی ایک بندرگاہ تعمیر کی رہا ہے۔ گہرے سمندر کی وجہ سے بھاری جہاز کنارے تک آسکیں گے اور اسکے لئے جیٹی کھودنے کی ضرورت نہیں۔ ٹیڑھے  میڑھے  ساحل نے گودیوں کی تعمیرکا کام  بھی بے حد آسان کردیا ہے۔ساحل کے قریب زمین اور سمندر کے تہہ میں تیل و گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جنکی ترقی کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کے پاس ہے۔

رقبے کے اعتبار سے چین ایک وسیع و عریض ملک ہے لیکن سمندر تک رسائی صرف مشرق کی جانب سے ہے۔ چین دنیا میں تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور مشر ق سطیٰ سے آنے والا تیل مشرقی چین کی بندرگاہوں پر اتارکر ٹینکروں اور پائپ لائنوں کے ذریعے سارے ملک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔کیوک پھیو بندرگاہ کی شکل میں اسے اب جنوب میں بھی ایک بندرگاہ میسر آگئی ہے۔ یہاں سے ایک 38 انچ قطر کی پائپ لائن چین کے یونان(Yunnan)صوبے تک بچھائی جارہی ہے جسکی گنجائش 2لاکھ 40ہزار بیرل تیل روزانہ ہے. اسکے متوازی ایک گیس پائپ لائن پہلے سے موجود ہے جسکے ذریعے برما کی 12 ملین مکعب میٹر گیس روزانہ یونان پہنچائی جارہی ہے۔ بندرگاہ، پائپ لائن اور دوسری تعمیرات کیلئے ارکان کی جائیداد ہتھیالی گئی ہے اور اب  باقی ماندہ علاقوں پر چین اور برما کی مشترکہ فوجی  چھاونیاں تعمیر کی جارہی ہیں۔گویا اراکان کی ہنستی بستی آبادی چین کے Road and Belt Initiativeیا RBIکی نذر ہوگئی اور چین اراکان سے متعلق کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل سفیر محترمہ نکی ہیلی نے Fact Findingمشن کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس چشم کشا ور روح فرسا رپورٹ کے بعد بھی OIC کی خاموشی افسوسناک ہے۔


 

No comments:

Post a Comment