گوانتانامو کا عقوبت کدہ جہاں 780انسان جیتے جی مرگئے
امریکی صدر جو بائیڈن نے کیوبا کے امریکی اڈے گوانتا نامو میں قائم جیل خانے کو بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بندش مرحلہ وار ہوگی۔صدراتی ترجمان محترمہ جین ساکی کے مطابق جو بائیڈن اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے اس جیل خانے کو تالہ لگانا چاہتے ہیں۔ صدر اوباما نے 2008کی انتخابی مہم کے دوران گٹمو کے عقوبت خانے کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن جھوٹے لوگ جھوٹے وعدے۔ انکے بعد آنے والے صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے انسانیت کے ماتھے پرکلنگ کےاس ٹیکے کو غیر معینہ مدتک کیلئے دوام بخش دیا۔
بحر غرب الہند یاکریبین Caribbean میں واقع اس جزیرے پر امریکی عملداری کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ امریکہ نے 1898میں پورٹوریکو، فلپائن، گوام اور کیوبا پر قبضہ کرلیا جن میں سے اول الذکر تین علاقوں کو دو کروڑ ڈالر کے عوض اسپین سےخرید لیا گیا جبکہ کیوبا امریکہ کے قبضے میں رہا جسے 1902میں آزادی دیدی گئی۔اسکے ایک سال بعد 1903میں امریکہ کے صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یکطرفہ معاہدے کے تحت خلیج گوانٹامو میں واقع 45مربع کلومیٹر کا جزیرہ دوہزار ڈالر سالانہ کرائے پر لے کر یہاں امریکی بحریہ کا اڈہ قائم کردیا۔ کیوبا کے لوگوں کو اس معاہدے پر سخت اعتراض تھا مگر وہ امریکہ کے ہاتھوں ہسپانیوں کی شکست کے عبرت انگیز مناظر دیکھ چکے تھے لہٰذا انھوں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔ کیوبا کا وزیراعظم بنتے ہی 1959 میں فیڈل کاسترو نے اس لیزکے خاتمے کا اعلان کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر 1903کے معاہدے کو جائر قرار دیدیا جائے تب بھی قانون کرایہ داری کے تحت واشنگٹن اپنے حق سے محروم ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ چھپن سال سےکرایہ ادا نہیں کیااور اسکے ساتھ ہی جزیرے کو تازہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی۔ امریکہ نے کاسترو کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کرائے کا چیک باقاعدگی سے ہوانا (کیوبا کادارلحکومت) روانہ کیا جارہا ہے یہ اور بات کہ کیوبا کی حکومت نے امریکی حکومت کا کوئی چیک اب تک بھنایانہیں ۔ میٹھے پانی کیلئے امریکہ بحریہ نے جزیرے پر کنویں کھود لئے۔
اکتوبر 2001میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے قیدیوں کو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ قیدیوں کو امریکہ لانےکی صورت میں یہ لوگ امریکی سول عدالتوں سے رجوع کرسکتے تھے اور بش انتظامیہ کو خوف تھا کہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اکثر قیدیوں کو امریکی عدالت ضمانت پر رہاکردیگی۔چنانچہ انھیں جنگی قیدی قرار دیکر انکے کیلئے گوانتا نامو میں قیدخانہ تعمیر کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اسے قید خانے سے زیادہ عقوبت خانہ قراردیتے ہیں جہاں قیدیوں پردن رات انسانیت سوز تشددکیا جاتاہے اور اسکے نتیجے میں قیدیوں پر جو گزرتی ہے وہ تو اپنی جگہ یہاں مامور سپاہی، مشقتی اور محافظین کی بڑی تعداد بھی یہ مناظر دیکھ کر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔
امریکہ اور یورپ میں انسانی حقوق کے ادارے ایک عرصے سے اس قیدخانے کو بند کرنے اور یہاں نظربند افراد پر امریکی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن سابق امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا خیال تھا کہ کسی بھی ملزم کے خلاف ایسا مواد موجود نہیں جسکے مطابق فردجرم تیار کی جاسکے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود کسی بھی قیدی سے ایسی معلومات نہ حاصل ہوسکیں جو عدالت میں پیش کرنے کے قابل ہو۔ اٹارنی جنرل کا خیال تھاکہ اگر عدالت میں پیشی کے دوران ان ملزمان نے ظلم و تشدد کی روح فرسا داستان سنانی شروع کردی تو الٹا لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ خالد شیخ محمد، ابو زبیدہ اور چند دوسرے لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کی اجازت دی گئ لیکن انکے خلاف بھی تادم تحریر فرد جرم تک مرتب نہ ہوسکی
سالوں کی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ ایک ڈیڑھ درجن قیدیوں کے علاوہ تمام گرفتار لوگ یا تو طالبان اور القاعدہ کے ہمدرد تھے یا وہ طلبہ جو افغان اور پاکستانی مدارس میں تعلیم کیلئے آئے تھے۔ ان میں سےکوئی بھی دہشت گرد کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔جنگ کے دوران ان لوگوں کی اکثریت بھاگ کر پاکستان آگئی جنھیں پرویز مشرف نے دہشت گرد قرار دیکر پانچ سے دس ہزار ڈالر کے عوض سی آئی اے کو فروخت کردیا۔ بے پناہ تشد کے بعد بھی ان پر دہشت گردی کا الزام ثابت نہ ہوسکا۔ بہت سے افغان قیدی چار پانچ سالوں میں رہا کردئے گئے۔ جن میں پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف شامل ہیں۔
یہاں مجموعی طور پر 780 قیدی لائے گئے، جن میں سے 731 دوسرے ملکوں کے حوالے کردئے گئے، 9 دوران حراست اللہ کو پیارے ہوئے اور 40 بدنصیب امریکہ کے گلے کی چھچھوندر بنے ہوئے ہیں کہ نہ تو انکے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ ان پر مقدمہ چلایا جائے تو دوسری طرف انکے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی دیومالائی کہانیاں گھڑ کر پھیلادی گئیں ہیں کہ کوئی ملک انھیں پناہ دینے پر راضی نہیں۔ پھر سب سے بڑھ کر زخموں سے چور ان لوگوں کے سینوں میں ایسے ایسے چشم کشا اسرارورموز پوشیدہ ہیں کہ جن کے منظرعام پر آنے سے امریکی سی آئی اے، ایف بی آئی اور واشنگٹن کی سیاسی قیادت کو شدید شرمندگی کا سامنا ہوگا۔
سیاستدانوں کی پریشانیاں اپنی جگہ لیکن کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ سانحہ نائن الیون کی کسی غیرجانبدار بین الاقوامی ادارے سے تحقیقات کرائی جائے تاکہ ان پردہ نشینوں کو بے نقاب کیا جاسکے جنھوں نے ایک طرف تو چارجہازوں پر سوار بےگناہ مسافروں، ٹاورز میں موجود لوگوں، نیویارک فائر ڈپارٹمنٹ کے فرض شناس اہلکاروں سمیت ہزاروں لوگوں کو قتل کیا تو دوسری طرف دہشت کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔
قیدیوں کی باعزت رہائی ایک درست قدم ہے لیکن ازالہ حیثیت عرفی کی کوئی سبیل بھی ضروری ہے۔ کم ازکم اقوام متحدہ کو انکی توقیر کی بحالی کیلئے معذرت کی ایک قرارداد منظور کرنی چاھئے۔ بدقسمتی سے گٹمو پہنچنے والے زیادہ تر معصوم پاکستان سے گرفتار کئے گئے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف پرعزم پاکستانیوں کیلئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان بیچاروں کی ذلت و بے توقیری کا سفر پاک سرزمین سے ہی شروع ہواتھا۔
No comments:
Post a Comment