رسی جل گئی بل نہیں گئے
امریکہ کے وزیردفاع جنرل لائڈ آسٹن نے فرمایا ہے کہ امریکہ جلد بازی میں افغانستان سے نہیں نکلے گا۔طالبان کو پر تشدد کاروائیوں میں کمی لانی ہوگی۔
موصوف 2003 کے اختتام پر امریکہ کے پہاڑی ڈویژن کے سربراہ بنائے گئے تو جذبہ شجاعت سے جھوم اٹھے۔یہ وہ دور تھا جب طالبان نے اپنے چھاپہ مار حملوں کا دائرہ سارے افغانستان تک وسیع کردیا تھا اور امریکی ہوئی اڈوں پر قومی پرچم میں لپٹے تابوتوں کا تانتا بندھ گیا۔ عام امریکیوں کیلئے اس سے زیادہ عبرتناک صورتحال وہ تھی جب سینکڑوں معذور جوانِ رعنا بیساکھیوں پر گھسٹتے نظر آئے۔
جنرل آسٹن نے صدر بش کو بتایا کہ افغانستان بمباری کیلیے مناسب جگہ نہیں۔ ملاوں نے پہاڑی دروں میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں۔ اگر انھیں اپنا پہاڑی ڈویژن لے جانے دیا جائے تو وہ اپنے ٹینکوں اور bunker busterتوپ کے گولوں سے ان دروں کو طالبان کا قبرستان بنا سکتے ہیں۔اجازت ملنے پرجنرل صاحب پوری قوت قاہرہ کیساتھ افغانستان آئے۔ خوفناک گولہ باری سے چٹانوں کے پر خچے اڑ گئے، لیکن آہنی عزم والے سخت جان ملا یہ وار بھی سہہ گئے۔کچھ عرصے بعد ناکام جنرل صاحب کو ترقی دیکر مرکزی کمان کی سربراہی سونپ دی گئی اور جنرل آسٹن شوق کشور کشائی کی تسکین کیلئے عراق چلے گئے
صدر بائیڈن کے سابق باس صدر بارک اوباما نے جب جنوری 2009 میں اقتدار سنبھالا تو موصوف پر امریکہ کے تاریخی صدر بننے کا بھوت سوا ر تھا چنانچہ سب سے پہلے انھوں نے نوبل امن انعام اپنے نام کرالیا ۔اسکے بعد اوباما صاحب نے افغانستان میں فیصلہ کن فتح کی ٹھانی۔جنرل آسٹن اسوقت تک مزید ترقی کرکے غالبا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بن چکے تھے۔ احساس شکست کے مارے جنرل آسٹن نے خیال ظاہر کیا کہ اگر اضافی نفری افغانستان بھیج دی جائے تو ملاوں کو کچلا جاسکتا ہے چنانچہ فوج کی تعداد سوا لاکھ تک بڑھادی گئی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔ اب تو اجڈ ملاوں کا نشانہ زیادہ پختہ اور مہلک ہوچکا تھا چنانچہ کچھ ہی عرصے بعد اضافی نفری واپس بلالی گئی
صدر ٹرمپ کے ابتدائی دنوں میں انکے وزیر دفاع جنرل جیمز میٹس نے ملاوں سے ایک بار پھر دودو ہاتھ کرنےکی خواہش ظاہر کی۔ جنرل میٹس غصے کے بہت تیز ہیں اسلئے صدر ٹرمپ پیار سے انکو mad dog Mattisکہتے تھے
اضافی نفری اور بے پناہ بمباری سے ہزاروں افغان شہری مارے گئے لیکن زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ آب حیات پئے ملا ، ویسے کے ویسے سر سبزو شاداب رہے
جسکے بعد مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا اور گزشتہ برس امن معاہدہ ہوگیا
اب شکست خوردہ صدر اوباما کی بی ٹیم اقتدار میں ہے چنانچہ ایک نئی مہم جوئی کی بات شروع ہوگئی ہےجسکے پیچھے جنرل آسٹن کااحساسِ شکست نمایاں ہے
صدر ٹرمپ کو جرنیلوں پر زیادہ اعتماد نہ تھا۔اضافی نفری کیلئے جنرل میٹس کی فرمائش پوری کرکے انھوں نے اتمام حجت بھی کردی تھی۔ لیکن اپنے سابق باس کی طرح صدر بائیڈن اپنے جرنیلوں کو شجیع و دلاور سمجھتے ہیں
جرنیلوں کی اناپرستی نے ساری دنیا کو عذاب میں مبتلا کرررکھا ہے۔سات پہروں کے حصار میں رہنے والے یہ سورما بے آسرا شہریوں اور اپنے سپاہیوں کے خون سے کرخت جرنیلی چہروں کو گلنار رکھنا چاہتے ہیں
No comments:
Post a Comment