آذربائیجان سے پاکستان کو تیل کی فراہمی
شنید ہے کہ اب پاکستان آذربائیجان سے تیل خریدے گا تاہم خلیجی ممالک سے بھی تیل کی خریداری جاری رہیگی۔ آذربائیجان میں تیل کے تین بڑے میدانوں کو آذری، چراغ اور غناشلی کا نام گیا ہے جو آذری ساحل سے 120 کلومیٹر دوربحر خزر (Caspian)میں واقع ہیں جہاں پانی کی گہرائی 110 میٹر ہے۔ یہ تینوں میٖدان متصل ہیں اور انھیں Azeri-Chirag-Gunashli Deepwater Complexیا ACGکا نام دیا گیا ہے۔ احباب کو یقیناً حیرت ہوگی کہ 110 میٹر کو deep کیوں کہا جارہا ہے تو صاحبو بحیرہ خزر کی اوسط گہرائ صرف 6 میٹر ہے۔ آذری چراغ میدان کو 2010 میں آذربائیجان انٹرنیشنل آپریٹنگ کمپنی نے ترقی و تعمیر سے ہمکنار کیا تھا۔ اس مشارکے قیادت BPکے ہاتھ میں ہے جبکہ آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی SOCAR، امریکہ کی شیورون اور ایکسون، جاپان کی INPEX، ناروے کی STATOIL اور ترکی کی TPAOبڑے شراکت دار ہیں۔ ہندوستان کی او این جی سی ودیش اور جاپان کی Itochu نے بھی یہاں حصہ ڈال رکھا ہے۔ تخمینے کے مطابق ان ذخائر میں 6 ارب بیرل تیل موجود ہے۔ ان میدانوں کی تعمیر و ترقی میں پاکستانی ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ بیکر ہیوزپاکستان کے کئی مہندسین نے ابتدائی دنوں میں یہاں گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔
آذربائیجان میں تیل کی پیداوار تقریباً 9 لاکھ بیرل یومیہ ہے جس میں سے تقریباً 7 لاکھ بیرل برآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان کی ضرورت تقریباً چار لاکھ اور مقامی پیدوار تقریباً 90 ہزار بیرل ہے، یعنی معیشت کا پہییہ چالو رکھنے کیلئے تین لاکھ بیرل سے زیادہ تیل روزانہ درآمد کیا جاتا ہے۔ آذربائیجان ترکی اور جارجیا کو بھی تیل فراہم کرتا ہے اسلئے پاکستان کی ساری ضرورت پوری کرنا اسکے لئے ممکن نہیں۔ ایک اور وجہ فاصلہ بھی ہے۔بحیرہ خزر سے نکالا جانے والا تیل 1100 مbtc pipe lineیل لمبی باکو۔تلبسی۔جیحان یاBTCپائپ لائن کے ذریعے بحر روم کی ترک بندرگاہ جیحان آتا ہے (نقشہ)۔ یہاں سے پاکستان کیلئے تیل بردار جہاز نہرسوئرسے گزرکر بحر احمر اور پھر وہاں سے بحر عرب کے راستے کراچی پہنچیں گے۔ جبکہ سعودی تیل خلیج عرب (فارس) کی راس تنورہ بندرگاہ سے لادا جاتا ہے، اسلئے باربرداری کا خرچ اور وقت دونوں کی بچت ہے۔
اس موقع پر آذربائیجان کامختصر تعارف
بحیرہ خزر کے کنارے مشرقی روس اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع اس چھوٹے سے ملک کی آبادی ایک کروڑ سے بھی کم ہے روسی انقلاب (1920)کے بعد سرخ فوجوں نے آذربائیجان کو سوویت یونین کا حصہ بنالیا۔ اسوقت کے کمیونسٹ بڑے سادہ ہوتے تھے چنانچہ جب لینن سے پوچھا گیا کہ انھوں نے آذربائیجان پر قبضہ کیوں کیا تو موصوف نے معصومیت سے فرمایا کہ"باکو سے نکلنے والے تیل کے بغیر روسی ریاست کا بقا ناممکن ہے " روسی تسلط سے آزادی کے بعد یہ ترکی النسل ریاست ایک آزاد خیال اور سیکیولر مسلمان ملک کی حیثیت سے سامنے آئی تاہم اسلامی کانفرنس کی رکنیت اسکی مذہبی شناخت کو ظاہر کرتی ہے۔ یہاں آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ننانوے فیصد سے زائد ہے جو سب کے سب خواندہ ہی٘ں۔ آذری مسلمانوں کی اکثریت شیعہ مسلک سے وابستہ ہے لیکن یہاں فرقہ وارانہ تعصب نام کو بھی نہیں اور ترکی کے سنی علماء کو عوام الناس میں پزیرائی حاصل ہے۔ آذریوں کو مطالٰعے کا بہت شوق ہے۔ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور قصبوں میں بھی کتب خانے قائم ہیں۔مسا جد نماز اور مذہبی امور کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات اوردوسری سماجی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال ہو تی ہیں، ہر مسجد کے ساتھ مکتب اور دارالمطالعے ہیں ۔ ایک عمدہ بات یہ کہ مساجد کی لایبریریوں میں ہر مسلک کی مستند کتابیں موجود ہیں اور مذہبی رجحان رکھنے والے افراد تمام مکا تب فکر کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دیندار آذری مسلمانوں میں رواداری اور برداشت بہت زیادہ ہے اور پاکستان کی طرح یہاں فتوے بازی اور مسلکی تعصب نہیں پایا جاتا۔
آذربائیجان میں رواداری و برداشت کا ایک شاندار مظاہرہ اسوقت ہوا جب 2011 میں عوامی مقامات پر حجاب پر بحث شروع ہوئی۔ صدر الحان علیوف کی ایما پر حکمراں جماعت کے کچھ ارکانِ پارلیمان نے اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون لانے کا عندیہ بھی دیا۔اس موقع پر مذہبی عناصر کے ساتھ خاتونِ اول مہر بانو علیوف پابندیوں کے خلاف کھل کر سامنے آئیں۔ دلچسپ بات کہ خاتون اول کا اپنالباس مغرب کے مٰعیار سے بھی قابل اعتراض قراردیا جاتا ہےلیکن آذری معاشرے میں رواداری اور برداشت کی بنا پر مہر بانو خواتین کے سروں سے زبردستی اسکارف اتارنے کے خلاف تھیں۔ انکا کہناتھا کہ لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ حکومت کا کام نہیں۔ چھپن سالہ حسین وجمیل مہر بانو آذری عوام میں بہت مقبول ہیں۔ وہ ملک کے سب سے بڑے رفاحی ادارے حیدر علیوف فاونڈیشن کی سربراہ ہیں جسکا سارے ملک میں بے حد احترام کیا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ترکی اور روس میں بھی خدمات انجام دے رہاہے۔ خاتونِ اول کی شدید مخالفت کی بنا پر انسداد حجاب کی سرکاری تحریک روک دی گئی۔اسکولوں میں لڑکیوں کے ڈوپٹہ اوڑھنے پر پابندی لگی لیکن خاتون اول کے اصرار پر حکمنامے میں یہ وضاحت کردی گئی کہ پابندی صرف کلاس کیلئے ہے، وقفے کے دوران طالبات اسکارف اوڑھ سکتی ہیں۔ان پابندیوں کا اطلاق استانیوں اور غیر تدریسی عملے پر بھی نہیں ہوگا۔ فروری 2017 میں جب خاتون اول ملک کی اول نائب صدر مقرر ہوئیں تو خواتین کے 'حق حجاب' سے یکجہتی کیلئے وہ خود بھی کئی باراسکارف سرپرڈالے سرکاری تقریبات میں شریک ہوئیں
No comments:
Post a Comment