صدر بائیڈن اور چینی صدر کے درمیان پہلا مواصلاتی رابطہ ۔ ویغور مسلمانوں سے بدسلوکی پر تشویش کا اظہار
عالمی رہنماوں سے رابطے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بدھ کی رات (پاکستان میں جمعرات کی صبح ) امریکی صدر نے اپنے چینی ہم منصب ژی جن پنگ سے فون پر بات کی۔ صدر بائیڈن نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ فون کا مقصد صدر ژی کو چین کے نئے سال کی مبارکباد دینی تھی۔ چین کا نیا قمری سال 12 فروری سے شروع ہورہا ہے۔ چینی اپنے سالوں کو قمری زایچوں کے مطابق نام دیتے ہیں اور یہ بیل کا سال یا Year of Oxہے۔
امریکی صدر کے ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بات چیت کے دوران انھوں نے بیجنک کی اقتصادی پالیسی، چین میں انسانی حقوق کی پامالی اور تائیوان کو ہراساں کرنے کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا
قصر مرمریں سے جاری ہونے والے اعلامئے کے مطابق گفتگو کے دوران صدر بائیڈن نے چین کے "غیر منصفانہ" تجارتی معاملات، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامیوں کے خلاف کاروائی اور ویغور مسلم اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی پر صدر ژی کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔صدر بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب کو بتایا کہ امریکہ چین سے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے وہ صدر ژی کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں لیکن امریکی عوام کے مفادات اور انسانی حقوق کی پامالی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے 'سی سی ٹی وی' نے اعلیٰ سطحی رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گفتگو کے دوران دونوں رہنماوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان کئی امور پر اختلافات موجود ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔سی سی ٹی وی کے مطابق صدر ژی نے باہمی تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ صدر ژی جن پنگ اپنے امریکی ہم منصب کو متنبہ کیا کہ تائیوان، ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں اقلیتوں کے امور چین کے اندرونی معاملات ہیں اورامریکہ کو چین کے مفادات کا احترام کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
چند روز پہلے امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے بھی چینی کمیونسٹ پولٹ بیورو (مجلس عاملہ) کے سینئر رکن یانگ جیچی Yang Jiechiسے فون پر بات کرتے ہوئے ویغور مسلمانوں کی حالت زار پر گہری تشویش کااظہار کیا تھا۔امریکی وزیرخارجہ نے بھی اسی موقف کا اظہار کیا تھا کہ واشنگٹن کیلئے چین سے تعلقات بہت اہم ہیں لیکن سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکہ خاموش نہیں رہےگا۔واشنگٹن ذرائع کا کہنا ہے کہ خواتین کی عصمت دری اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے بارے میں بی بی سی نےحال ہی میں جو رپورٹ شائع کی ہے اسے دیکھ کر صدر بائیڈن سخت مضطرب ہیں۔واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ صدر بائیڈن کی بات چیت سے پہلے امریکی وزیرخاجہ کی گفتگوکا مقصد چین کو خارجہ پالیسی کے باب میں امریکہ کی نئی ترجیحات سے آگاہ کرنا تھا۔
صدر ٹرمپ نے 'سب سے پہلے امریکہ' کو چین سمیت ساری دنیا سے تعلقات کی بنیادی شرط قراردیا تھا اور انکے دور میں تجارت و کاروبار کو سفارتکاری کی بنیاد بنایا گیا۔ اسرائیل کو تسلیم کرانے کی مہم کے پیچھے بھی اسلحے کی فروخت اور امریکہ کیلئے مالی منفعت کا حصول انکی ترجیح تھی۔ متحدہ عرب امارات کو انھوں نے F-35طیارے فروخت کئے اور بحرین نے امریکہ سے میزائل شکن نظام پیٹریاٹ خریدا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے پر دہشت گردممالک کی فہرست سے نکالنے کے عوض انھوں نے سوڈان سے دہشت گردی متاثرین کی اعانت کیلے 34 کروڑ ڈالر وصول کئے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے پر متنازعہ مغربی صحارا مراکش کو'بخش ' کر ایک ارب ڈالر کا امریکی اسلحہ فروخت کیا۔
گزشتہ چالیس سال کے دوران صدر ٹرمپ پہلے امریکی صدر تھے جنکے دور میں پینٹاگون نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی ۔افغانستان، شام اور عراق سے فوجیں کا جزوی انخلا ہوا، صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کی قیادت سے براہ راست ملاقاتیں کیں اور علاقے میں کشیدگی کم کرنے کیلئے جزیرہ نمائے کوریا میں جاپان اور جنوبی کوریا کیساتھ مشترکہ ششماہی فوج مشقوں سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انکے دور میں نیٹو اتحاد بھی نقاہت کا شکار رہا۔
چین کے حوالے سے سابق امریکی صدر بیجنگ کی تجارتی پالیسی کو غیر منصفانہ سمجھتے تھے چنانچہ انھوں نے چینی مصنوعات پر بھاری درآمدی محصولات عائد کردئے جسکی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کشیدگی کا شکارہیں۔
اسکے مقابلے میں صدر بائیڈن دنیا بھر میں چودھراہٹ قائم رکھنے والی روائتی امریکی پالیسی واپس لارہے ہیں جسکے لئے امریکہ کے مراکز دانش نے'قائدانہ کردار' کی اصطلاح وضع کی ہے۔ چین کی عسکری قوت پر نظر رکھنے کیلئے صدر بائیڈن نے امریکی وزارت دفاع میں ایک اعلیٰ اختیاراتی ٹاسک فورس قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ وزارت خارجہ، قومی سلامتی اور سی آئی اے کے نمائندے بھی اس ٹاسک فورس کا حصہ ہونگے۔
چین کے حوالے سے چند دن پہلے جوبائیڈن اور وزیراعظم نریندرا مودی کے درمیان گفتگو بھی بہت اہم ہے جب دونوں رہنماوں نے عالمی پانیوں میں آزادانہ نقل و حرکت کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ امریکہ کو جنوبی بحرالکاہل میں چینی بحریہ کے مسلح گشت اور بحر جنوبی چین میں مصنوعی جزیرے قائم کرکے وہاں پیپلز لبریش آرمی کے اڈے قائم کرنے پر سخت اعتراض ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے ان اڈوں سے بحری شاہراہ غیر محفوظ ہوگئی ہے۔امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستانی بحریہ آبنائے ملاکا کے دہانے سے خلیج بنگال تک مشترکہ گشت کرکے چین سے آنے والے بحری ٹریفک پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہند ناو سینا (بحریہ) اس مشن کی قیادت کرے۔
ویغور مسلمانوں کی حالت زار پر نئی امریکی انتظامیہ کی تشویش خوش آئند ہے لیکن بحرالکاہل میں امریکی بحریہ کے غیر معمولی گشت اور آبنائے ملاکا کی نگرانی سے لگتا ہے کہ چین کا گھیراواور اسکی معیشت کو غیر مستحکم کرنا بائیڈن انتظامیہ کی ترجیح ہے ۔ اس تناظر میں اہل سنکیانک سے امریکہ بہادر کے اخلاص پر شبہہ غیر منطقی نہیں، یعنی امریکہ کی سیاسی اصطلاح میں ویغوروں سے صدر بائیڈن کو اتنی ہی ہمدردی ہے جتنی (کے ایف سی کے بانی ) کرنل سینڈرز کو اپنی مرغیوں سے۔
No comments:
Post a Comment