بائیڈن انتظامیہ اور مشرقِ وسطیٰ
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ ابھی تک تشکیل کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔امریکہ میں اٹارنی جنرل اور سی آئی ائے کے ڈائریکٹر جنرل سمیت وفاقی کابینہ اور تمام کلیدی آسامیوں پر تقرریوں کیلئے سینیٹ سے توثیق ضروری ہے۔ صدر بائیڈن کے نامزد کردہ وزرا آجکل سینیٹ کی متعلقہ مجالس قائمہ کے روبرو پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ کمیٹی کے پلِ صراط سے گزرنے کے بعد سینیٹ میں رائے شماری کا مرحلہ آتا ہے۔ توثیق میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ سنییٹ کی دوسری مصروفیتیں ہیں۔کرونا سے جو معاشی تباہی آئی ہے اس میں امریکی عوام کو وقتی راحت پہنچانے کیلئے ایک امدادی بل (Stimulus Package)کے علاوہ سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے پر سینیٹ کے ارکان باہمی مشوروں میں مصروف ہیں۔
حکمران جماعت کو ایوان بالا پر تکنیکی برتری حاصل ہے کہ ووٹ برابر ہونے کی صورت میں سینیٹ کی سربراہ کی حیثیت سے اپنا فیصلہ کن ووٹ سرکار کے حق میں ڈال کر نائب صدر صاحبہ مسودہ قانون یا قرارداد منظور کرواسکتی ہیں لیکن 100 رکنی سینیٹ میں دونوں جماعتیں پچاس پچاس سے برابر ہیں۔ یعنی حکمراں پارٹی کے کسی ایک رکن کی بھی رائے تبدیل ہوئی تو شکست یقینی ہے۔ اسی وجہ سے صدر بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی پھونک پھونک کر قدم رکھنے پر مجبور ہے اور غیر معمولی احتیاط و سوچ وبچار سے قانون سازی میں بھی تاخیر ہورہی ہے۔ تادم تحریر صرف وزیرخزانہ، وزیردفاع، وزیرخارجہ اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجینس کی سینیٹ سے توثیق ہوسکی ہے۔
توثیق میں تاخیر سے بائیڈن انتظامیہ کو مشکل تو ہے لیکن امریکی صدر اپنی ٹیم کا انتخاب کرچکے ہیں اور مستقبل کی صورت گری کا کام بھرپور انداز میں جاری ہے۔ بلاشبہہ ساری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی کرونا عوام و حکمراں سب کے اعصاب پر چھایاہوا ہے۔ ہلاکت و تباہ کاری کے اعتبار سے اس جرثومے نے امریکہ کواپنا بنیادی ہدف بنا رکھا ہے اور اوسطاً ہر روز چار ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔چنانچہ بین الاقوامی معاملات پر پیشرفت کسی حد تک سست ہے۔ گزشتہ نشست میں ہم نے بائیڈن انتظامیہ کی متوقع افغان پالیسی کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ آج کچھ سطور بائیڈن انتطامیہ کی مشرق وسطیٰ حکمت عملی پر۔
مشرق وسطیٰ کو بنیادی طور پر دو بڑے تنازعات کا سامنا ہے اور ان دونوں تنازعات کے ڈانڈے باہم ملے ہوئے ہیں۔ پہلا تنازعہ یعنی مسئلہ فلسطین، ایک بدترین انسانی المیہ بن چکا ہے۔ یہ دراصل انسانی ضمیر کا امتحان ہے۔'مہذب دنیا'کئی دہائیوں سےفلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش تماشی بنی ہوئی ہے۔غزہ اور غرب اردن کھلی چھت کے جیل خانے ہیں بلکہ انھیں وسیع و عریض عقوبت کدے کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جیل میں بند قیدیوں کو غذا، لباس اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ نظربند قیدیوں کو نظامِ انصاف تک رسائی حاصل ہوتی ہے جبکہ پنجرےمیں بند فلسطینی بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔جہاں تک مسئلہ فلسطین کے حل کا تعلق ہے تو اسکے لئے نہ کسی کمیشن کی ضرورت ہے اور نہ اضافی مذاکرات کی۔ اگر اقوام متحدہ کی قرارادادوں پر اسکی روح کے مطابق عمل ہوجاے تو یہ مسئلہ چٹکی بجاتے حل ہوسکتا ہے۔
علاقے کا دوسرابڑا مسئلہ ایران کی مبینہ جوہری امنگ اور اس حوالے سے خلیجی ممالک اور اسرائیل کی تشویش ہے۔ایران سے متعلق تنازعات و شکوک و شبہات کا جائزہ لیا جائے تواسے تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
· امریکہ اور یورپ کو ایران کے جوہری پروگرام پر تشویش ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ وہ جوہری توانائی کو ترقی اور پرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن مغربی دنیا کو تہران کی یقینی دہانی پر اعتماد نہیں۔امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی جس سطح پر کررہا ہے، پرامن مقاصد کیلئے اسکی ضرورت نہیں اور سرگرمیوں سے جوہری ہتھیار کے لئے ایران کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ تل ابیب کا خیال ہے کہ اگر ایران نے جوہری ہتھیار بنالئے تو اسکا ہدف اسرائیل ہوگا
· اسرائیل کو ایران سے اسکے جوہری پروگرام کے علاوہ ایک شکائت یہ بھی ہے کہ تہران حزب اللہ اور شامی حکومت کو فوجی امداد فراہم کررہا ہے ۔ تل ابیب ان دونوں کو دشمن نمبر ایک اور اپنی سلامتی کیلئے خطرہ قراردیتا ہے۔
· خلیجی عرب ممالک کا خیال ہے کہ ایران ان ملکوں کی شیعہ آبادی کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اکسا رہا ہے۔ اس سلسلے میں یمن کی مثال دی جاتی کہ جہاں ایران نے مبینہ طور پر حوثی باغیوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو عملاً مفلوج کردیا ہے۔اتفاق کی بات کہ سعودی عرب، بحرین، کوئت اور متحدہ عرب امارات چاروں کے خلیجی ساحل پر شیعہ آباد ہیں۔ دوسری طرف ایران کو شکوہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ایران کی سنی آبادی کوحکومت کے خلاف بھڑکا رہے ہیں۔تہران کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف ایران تک محدود نہیں بلکہ سعودی عرب، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں بھی شیعوں کے خلاف نفرت پھیلا رہا ہے اور تہران کے مطابق پاکستانی بلوچستان خاص طور سے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے خلاف پرتشدد کاروائیوں میں سعودی حکومت براہ راست ملوث ہے۔
ایران عرب تنازعے کی بہت ہی بھاری قیمت یمن کے بےگناہ اداکررہے ہیں جو خلیجی بمباری اور متحارب گروہوں کی گولہ باریوں سے کھنڈر بن چکا ہے۔ آبپاشی و آبنوشی کے وسائل تباہ ہوچکے ہیں جسکی وجہ زرعی زمینوں پر دھول اڑ رہی ہے اور لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ مویشی یاتو بھوک سے ہلاک ہوگئے یا انکے مالکان نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ذبح کرڈالے۔ اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق غذا کی کمی نے نصف سے زیادہ یمنی بچوں کو معذور کردیا۔ اس رپورٹ کو پڑھنا ہی اتنا مشکل ہے، ہم اسے یہاں نقل کیسے کریں۔
صدر جو بائیڈن نے وزارت خارجہ، سی آئی ائے اور قومی سلامتی کیلئے جن افراد کا انتخاب کیا ہے انکے سرسری جائزے سے ایسا لگتا ہے کہ عالمی افق، خاص طور سے مشرق وسطیٰ کے بارے میں بائیڈن انتظامیہ کی حکمت عملی اوباما پالیسی کی شرطیہ نئی کاپی ہوگی۔جناب بائیڈن نے وزارت خارجہ کیلئے 58 سالہ انٹونی بلیکنکن کا انتخاب کیا ہے۔ راسخ العقیدہ یہودی جناب بلینکن بارسوخ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں انکے والد ہنگری اور چچا بیلجیم میں امریکہ کے سفیرتھے۔ اسرائیل کی تشکیل میں انکی دادی جان نے بہت اہم کردار تھا۔ محترمہ نے اسرائیلی ریاست کی اقتصادی امکان پزیری (Economic Feasibility)کا جائزہ لینے کیلئے ماہرین معاشیات کا ایک کیمشن قائم کیا تھا۔دوسری طرف اسرائیل اور فلسطینیوں کے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے محترمہ نے امریکی فلسطین انسٹیٹیوٹ کی بنیاد بھی رکھی۔جناب بلینکن پر ایوان اقتدار کا دروازہ 2009 میں کھلا جب نائب صدر جو بائیڈن نے انھیں قومی سلامتی کیلئے اپنا مشیر مقرر کیا۔ تین سال بعد صدراوباما نے جناب بلیکن کو اپنانائب مشیر برائے قومی سلامتی بنالیا اور انکا خالی ہونے والا منصب جیک سولیون کو عطا ہوا جو اب صدر بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی ہیں۔
صدر اوباما کے نائب مشیرِ سلامتی کی حیثیت سے بلینکن صاحب کوافغان حکمت عملی ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انکے مشورے پر ڈرون حملوں نے افغانستان اور شمالی وزیرستان میں جو تباہی مچائی وہ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اس خونریزی کے باوجود طالبان کی کمر نہ توڑی جاسکی اور دو سال بعد انکی جگہ سرغراسانی کی ماہر محترمہ ایورل ہینزکا تقرر کرکے بلینکن صاحب نائب وزیرخارجہ بنادیے گئے۔اکاون برس کی محترمہ ہینز بھی ایک راسخ العقیدہ یہودی ہیں جنھیں نئی انتظامیہ میں ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجینس تعینات کیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن کے وزیرخارجہ اور قومی سلامتی کےمشیر کی طرح سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر ولیم برنس بھی 3 سال تک صدر اوباما کی کابینہ میں نائب وزیرخارجہ تھے۔ جناب برنس ایک منجھے ہوئے سفارتکار ہیں جو روس اور اردن میں امریکہ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ ولیم برنس اور انتونی بلینکن دونوں کئی برسوں سے جو بائیڈن کے بہت قریب ہیں اور صدراوباما کے دور میں انھیں خاصہ عروج ملا۔
خارجہ امور، قومی سلامتی اور بین الاقوامی سراغرسانی کیلئے جن لوگوں کا جناب بائیڈن نے انتخاب کیا ہے وہ سب کے سب اسرائیل کے دل وجان سے حامی ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران ڈیموکریٹک پارٹی میں انصاف و اعتدال کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ اس دھڑےنے خود کو جسٹس ڈیموکریٹس کے نام سے منظم کرلیا ہے جسکے قائد و سرپرست تو سینیٹر برنی سینڈرز ہیں لیکن اسکی روحِ رواں امریکی ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی)کی 'چارلڑکیاں' یعنی الحان عمر، رشیدہ طلیب، الیکزینڈریا کورٹیز المعروف AOC اور ایانا پریسلے ہیں۔اس 'چار کے ٹولے' کو صدر ٹرمپ 'اسکواڈ' کہتے تھے۔حالیہ انتخابات کے بعد اس 'ٹولے' میں ایک 'لڑکی' کوری بُش اور ایک 'سرپھرے لڑکے' جمال بومن کا اضافہ ہوگیا ہے۔کیلی فورنیا کے رو کھنہ کے علاوہ تین دوسرے ارکان کے ساتھ ایوان نمائندگان میں جسٹس ڈیموکریٹس کا پارلیمانی حجم اب 10 ہے۔جسٹس ڈیموکریٹس کی بڑھتی ہوئی قوت کا جو بائیڈن کو اندازہ ہے اور اسی دباو کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے انتخابی منشور میں مشرق وسطیٰ کیلئے دوریاستی حل، یمن جنگ کا غیر جانبدارانہ جائزہ، جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات اور ایران کے جوہری پروگرام کے پرامن تصفیے کا وعدہ کیا۔
انتخابی وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے امریکی حکومت نے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت معطل کردی۔صد ٹرمپ نے اسرائیل تسلیم کرنے کے انعام کے طور پر متحدہ عرب امارات کو 23 ارب ڈالرکے عوض پچاس F-35طیاروں فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے بعد متحدہ عرب امارات دوسرا ملک ہے جسے F-35طیارے فروخت کئے جارہے ہیں۔ ضابطے کے تحت F-35جیسے کلیدی نوعیت کے اسلحے کی کسی دوسرے ملک کو فروخت سے پہلے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے دفاع سے توثیق ضروری ہے لیکن سابق امریکی صدر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سینیٹ سے بالا بالا فروخت کی منظوری دیدی تھی۔صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ اسلحے کی فروخت سے امریکہ میں ملازمتوں کو ہزاروں نئے مواقع پیدا ہونگے۔
اسی کیساتھ سعودی عرب کو جدید ترین اسمارٹ بموں کی فروخت بھی معطل کردی گئی ہے۔ بوئنگ کمپنی کے تیار کردہ 8 انچ سے بھی پتلے یہ بم زیرزمین مورچوں، بنکروں اور کنکریٹ سے بنی عمارتوں کے پرخچے اڑا سکتے ہیں۔ سعودی عرب نے 3000 اسمارٹ بم خریدنے کا معاہدہ کیا تھاجسکی مجموعی قیمت 30 کروڑ ڈالرہے۔سینیٹر برنی سینڈرز اور رکن کانگریس محترمہ رشیدہ طلیب نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ان بموں کے یمن میں استمال سے شہری ہلاکتوں میں اضافہ ہوگا۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ نئی انتظامیہ حال ہی میں کئے جانیوالے دفاعی سودوں کا جائزہ لے رہی ہے اور جب تک نظر ثانی مکمل نہ ہوجائے معاہدے پر عملدرآمد کو معطل کیا جارہاہے۔ اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے وزیرخارجہ انتھونی بلینکن نے کہا کہ اسلحے کی فروخت سے پہلے بائیڈن انتطامیہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ سودا علاقے اور دنیا میں امن و استحکام کے حوالے سے امریکہ کی حکمت عملی اور اسکی ترجٰیحات کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ وزارت خارجہ معاہدوں کا جائزہ لے رہی ہے اور کام مکمل ہونے تک اسلحے کی فراہمی شروع نہیں ہوگی۔
انتخابی مہم کے دوران صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یمن میں خونریزی روکنے کیلئے امریکہ کو ذمہ دارانہ کردار اداکرنا چاہئے۔ انکا کہنا تھا کہ شہری آبادی پر بمباری کیلئے امریکی اسلحہ استعمال ہورہا ہے اور وہ برسراقتدرا آکر خلیجی ممالک کو ہتھیاروں کی فروخت پر نظر ثانی کرینگے۔ گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی نے سعودی عرب کو بموں کی فراہمی روکنے کیلئے سینیٹ میں قرارداد بھی پیش کی تھی لیکن ریپبلکن پارٹی نے ان کوششوں کو ناکام بنادیا۔
اس ضمن میں ایک اور چشم کشاپیشرفت امریکی وزارت خارجہ کا وہ اعلان ہے جسکے تحت یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کیلئے ہٹالیا گیا ہے۔ امریکہ نے ایران نواز حوثیوں کے 'طرزعمل' کا دوبارہ جائزہ لینے کا عندیہ دیا ہے نظرثانی کے دوران حوثیوں کے خلاف دہشت گردی کا 'فتویٰ' معطل رہیگا۔ امریکی وزارت خزانہ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکی ادارے امدادی سامان کی نقل و حمل کیلئے 26فروری تک حوثیوں سے محدود لین دین کرسکتے ہیں۔ تاہم نامزد دہشت گردرہنماوں سے کسی قسم کے معاملے کی اجازت نہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران نواز حوثیوں کو دہشت گرد قرار دیکر ان سے کسی بھی قسم کے لین دین اور رابطے کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
ایران کے حوالے ایک اور اہم قدم ممتاز سفارتکار جناب رابرٹ ملّے (Robert Malley)کی بطور خصوصی نمائندہ برائے ایران نامزدگی ہے۔ اٹھاون سالہ مصری نژاد رابرٹ کا تعلق بھی جسٹس ڈیموکریٹس دھڑے سے ہے۔جناب ملے کو صدر اوباما نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور خلیجی امورکیلئے اہنا خصوصی مشیر مقررکیا تھا۔ جولائی 2015 میں ایران جوہری معاہدہ 'برنامیج' یا JCPOA جناب ملے کی کامیاب سفارتکاری کا کمال قراردیا جاتا ہے۔ دو سال قبل صدر ٹرمپ نے اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہہ کر نکال لیا تھا کہ JCPOA ناکافی اور کمزور معاہدہ ہے۔ جسکے بعد انھوں نے ایران پر پابندیوں کی تجدید کردی۔ ردعمل میں ایران نے یورینیم کی افزودگی دوباہ شروع کردی ہے۔ جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ جوہری معاہدے سے یک طرفہ نکل آنے کے نتیجے میں باہمی تناؤ کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا اور 2015 کے مقابلے میں ایران آج جوہری ہتھیار تیار کرنے کے زیادہ قریب ہے۔امریکی صدر نے عندیہ دیا ہے کہ کہ اگر ایران JCPOAکی شرائط پر مخلصانہ عمدرآمد کی یقین دہانی کروادے تو امریکہ معاہدے میں واپس آ جائے گا۔
رابرٹ ملے مشرق وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مشرق وسطیٰ امن کے حوالے سے کھل کر کہہ چکے ہیں کہ فلسطین میں حماس اور علاقے میں اخوان المسلمون بہت بڑی سیاسی قوت ہیں جنھیں غریبوں میں زبردست پزیرئی حاصل ہے۔ انکا خیال ہے کہ اخوان کے بارے میں دہشت گرد وانتہاپسند ہونے کا تاثر غیر حقیقی ہے اور ساتھ ملا کر اخوانیوں کے روئیے کو مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن کا حوالہ دیا جس میں محترمہ نے علاقے میں قیام امن اور خوشحالی کیلئےمصر میں اسوقت کی اخوانی حکومت کیساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
صدر جو بائیڈن کے ان اقدامات کا کیا نتیجہ نکلے گا اسکے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن رابرٹ ملے کی بطور خصوصی نمائندہ برائےایران تقرری کی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو امریکی اسلحے کی فراہمی معطل کرنے، یمنی حوثیوں کا نام دہشت گردوں کی فہرست سے محدود مدت کیلئے ہٹانے، اسرائیل فلسطین دو قومی ریاست پر بائیڈن انتظامیہ کے اصرار اور جمال خاشقجی قتل کی تحقیقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ کے حوالے سے امر یکی حکومت کے طرز عمل میں ایک 'موہوم و مبہم' سی مثبت تبدیل کے آثار نظر آرہے ہیں لیکن یہاں اسرائیل نواز سیاسی قوتوں کی جڑیں بہت گہری اور پہنچ بہت دور تک ہے۔
جو بائیڈن خود بھی اسرائیل کے پرجوش حامی ہیں۔ امریکی صدر فلسطینی اراضی پر صیہونی بستیوں کی تعمیر کے مخالف تو ہیں لیکن وہ اسکے لئے 'قبضے' کا لفظ استعمال نہیں کرتے نہ ہی وہ امریکہ کے اس سرکاری بیانئے میں تبدیلی کیلئے تیار ہیں جسکے مطابق 'اسرائیلی نوآبادیاں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں' دوسری طرف جسٹس ڈیموکریٹس فلسطینیوں کے حقوق اور ایران جوہری تنازعے کے پرامن حل کے لیے پر عزم نظر آرہے ہیں۔سینیٹر برنی سینڈرز نے کہا ہے کہ وہ فلسطین کے معاملے میں صدر بائیڈن سے ایک مبنی بر انصاف حکمت عملی کی توقع رکھتے ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 5 فروری 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 5 فراوری 2021
روزنامہ امت کراچی 5 فرو ری 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 7 فروری
2021
No comments:
Post a Comment