Thursday, February 18, 2021

فلسطین میں انتخابات اور شکوک و شبہات

فلسطین میں انتخابات  اور  شکوک و شبہات

متحارب فلسطینی گروہ مئی میں پارلیمانی اور جولائی میں صدارتی انتخابات پر رضامند ہوگئے۔ ان انتخابات میں حماس، اسلامی جہاد اور تنظیم آزادی فلسطین (PLO)سمیت درجن بھر تنظیموں نے حصہ لینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔

انتخابات پر گفتگو سے پہلے جدید فلسطین کی تاریخ پر چند سطور جو دراصل ظلمِ عظیم کی ایک داستان ہے۔ اختصار کیلئے ہم یہ ذکر ارض مقدس پر تاج برطانیہ کے دورِ نامسعود سے شروع کرتے ہیں۔ 

انتیس (29) ستمبر 1947کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد برطانیہ نے دوقومی نظرئے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا۔تقسیم میں ویسا ہی 'انصاف' کیا گیا جو تاجِ  برطانیہ کا طرہ امتیاز ہے۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ بیت المقدس کی آبادی ایک لاکھ تھی جہاں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عملدرآمد اور اسکے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔ لیکن یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اسطرح اداکی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا اور اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ مسلح اسرائیلیوں کے حملے میں ہرہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادکے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی لیکن برطانوی فوجیوں نے مارچ سے ہی اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ عربوں نے الزام لگایا کہ جاتے ہوئے برطانوی فوجی اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیاتھا۔

عربوں کے اس شبہے کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی حالانکہ معاہدے کے تحت مشترکہ اثاثہ ہونے کی بنا پر بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو چھری بھی لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں انکے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھدیا۔مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا اور وہ بھی اسطرح کے بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس  عظیم الشان جیل خانے میں  12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectaresاراضی  چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہوتا ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔فلسطینیوں کی انکے گھروں سے جبری بے دخلی کے بعد 1967 اور 1973کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے  مزید عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

محرومیوں کے باوجود فلسطینیوں نے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔ ابتدا میں تنظیم آزادی فلسطین (PLO)فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم تھی جسکا سیاسی وعسکری دھڑا الفتح کے نام سے سرگرم تھا۔ جناب یاسرعرفات تنظیم کے بانی اور سربراہ تھے جنھیں پوری قوم کی حمائت حاصل تھی۔ جب 1979میں مصری صدر انوارالسادات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد فلسطینیوں کو ہتھیار رکھ کر مذاکرات کی میز پر آنے کا مشورہ دیا تو عام فلسطینیوں نے اسے اپنے پشت میں خنجر زنی سمجھا اوراکثریت نے صدر سادات کے مشورے کو رد کردیا۔ اس دوران اسرائیل کی فوجی کاروائیوں سے فلسطینیوں کو شدید نقصان پہنچا اورجنگجو عناصر میں یہ خیال عام ہوا کہ یاسر عرفات بھی اب مسلح مزاحمت کے بجائے سفارتکاری کا ہتھیار استعمال کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ 1987 میں مشہور عالم دین اور روحانی شخصیت شیخ احمد یاسین نے حماس کی بنیاد رکھدی۔ حماس کے بانی امام حسن البنا کی فکر سے متاثر تھے۔ یاسرعرفات خود بھی شیخ یاسین کے عقیدتمند تھے اور انھوں نے کہا کہ میں الفتح کا قائد اور حماس کا کارکن ہوں۔ 

فلسطین کے پہلے عام انتخابات منعقدہ 1996 میں جناب یاسرعرفات 90 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے جبکہ انکی حریف بائیں بازو کی محترمہ سمیحہ خلیل المعروف ام خلیل نے10 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمانی انتخابات میں الفتح نے المجلس التشریعی الفسطین (قومی اسمبلی) کی 88 میں سے 50 نشستیں جیت لیں اور 35 نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔ ان انتخابات میں حماس غیر جانبدار رہی لیکن شیخ یاسین کی ہمدردیاں یاسرعرفات کے ساتھ تھیں۔ شدید بیماری کے بعد نومبر 2004 میں یاسرعرفات انتقال کرگئے اور 2005 کے صدارتی انتخابات میں محمود عباس 67 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے۔ جانب محمود عباس اپنی کنیت ابومازن کے نام سے مشہور ہیں۔

یہاں آخری آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔اس طرز انتخاب میں لوگ براہ راست سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں اور ہر جماعت کے حاصل کردہ مجموعی ووٹوں کے تناسب سے انھیں نشستیں عطا کردی جاتی ہیں۔ ہر انتخابی حلقے میں آزاد امیدوار کا نام بھی بیلٹ پر درج ہوتا ہے یعنی جماعت کے بجائے آزاد امیدوار کے حق میں بھی رائے دی جاسکتی ہے۔گزشتہ انتخابات میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 76 فیصد سے زیادہ رہا۔

اسرائیل نے ان انتخابات میں حماس کی شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم سمجھتا ہے۔ یہی نقطہ نظر اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم یہود اولمرٹ نے اس معاملے پر براہ راست امریکی صدرسے بھی بات کی لیکن جارج بش نے موقف اختیار کیاکہ انتخابات میں حصہ لینے سے حماس کا رویہ نرم و متوازن ہوجائیگا۔ امریکی سی آئی اے کا خیال تھا کہ حماس صرف غزہ میں مقبول ہے اور وہاں بھی اسے واضح اکثریت نہیں مل سکے گی۔ اسرائیلی اخبارات کے سارے جائزوں میں کہا جارہا تھا کہ انتخابات میں ابو مازن (محمود عباس) کی الفتح جیتے گی۔ حماس کے پاس انتخابی مہم چلانے کیلئے نہ مالی وسائل ہیں اور نہ یہ جنگجو مولوی پڑھے لکھے فلسطینیوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی فوج حماس رہنماوں کا تعاقب کرتی رہی۔ اسکے ایک ہزار سے زیادہ کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ اسرائیلی حکومت نے انتخابی جلسوں پر پابندی لگادی تھی جبکہ سرکاری ٹیلی ویژن اور اخبارات پر صرف الفتح کو اشتہار کی اجازت تھی۔ اسوقت سوشل میڈیااتنا موثر نہ تھا۔ سڑکوں پر بینر بھی غیر قانونی قراردے دئے گئے۔ بلدیہ بیت المقدس کی حدود میں حماس کا داخلہ ممنوع تھا۔ حماس کی ساری انتخابی مہم گھر گھر دستک، گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات اور مساجد میں نمازوں کے بعد تعارفی نشستوں تک محدود تھی۔ ان پابندیوں کی بنا پراسرائیلی حکومت اور الفتح کو حماس کی قوت کا اندازہ ہی نہ ہوسکا کہ ہر طرف الفتح کے پھریرے لہرا رہے تھے۔ حماس کی نوجوان خواتین نے گھرگھر جاکر ایک خاموش انقلاب برپا کردیا۔ انتخابی جائزوں کے برعکس حماس نے ان انتخابات میں زبردست کامیابی حاصل کی اورقومی اسمبلی کی 132 میں سے 74 نشستیں جیت کر اسرائیل کو حیران کردیا۔  الفتح نے 45 اور عرب قوم پرست پاپولر فرنٹ نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ تین دوسری جماعتوں  اور آزاد امیدواروں نے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

انتخابات کے بعد مارچ 2006 میں اسماعیل ہانیہ وزیراعظم بنائے گئے۔ جناب ہانیہ نے مشترکہ قومی حکومت بنانے کیلئے الفتح کو دعوت دی۔ حماس وزارت عظمیٰ الفتح کو دینے پر راضی تھی لیکن الفتح کے مرکزی رہنما صائب عریقات  نے صاف صاف کہا کہ حماس کیساتھ مخلوط حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حماس ذرایع کا خیال ہے کہ اسرائیل اور مصر کے کہنے پر محمود عباس نے حماس سے علیحدہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ فلسطینیوں میں اخوان کی مقبولیت پر اسرائیل اور خلیجی ممالک کو شدید تشویش تھی۔ پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ حماس 'جنونی جہادیوں' کا گروہ ہے اور ان انتہا پسندوں کو عوام میں پزیرائی حاصل نہیں۔ تاہم انتخابی نتائج نے اسرائیل، مصر اور خلیجی ممالک کیساتھ فلسطینی سیکیولر عناصر کو بھی اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا کردیاتھا۔ حماس نے غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن میں بھی کامیابی حاصل کی تھی حتی کہ ، یروشلم، بیت الحم، رام اللہ اور غزہ کے مسیحی علاقوں میں بھی حماس کی کارکردگی اچھی رہی۔

الفتح کی جانب سے صاف انکار کے بعد حماس نے انتہائی متوازن کابینہ تشکیل دی جنکی اکثریت دوریاستی فارمولے اور آزادفلسطین کے عوض اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی تھی۔ لیکن فلسطینیوں کی نئی انتطامیہ کو اسرائیل اور امریکہ نے تسلیم نہیں کیا۔ مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو بھی حماس کے بارے میں شدید تحفظات تھے۔

حکومت کی تشکیل کے صرف تین ماہ بعد غزہ کے قریب فلسطینیوں کے ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا اور اس دوران مظاہرین نے ایک اسرائیل فوجی کو اغوا کرلیا۔اپنے سپاہی کی بازیابی کیلئے اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملہ کردیا اور خوفناک بمباری کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔حماس کے کئی ارکان اسمبلی اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلئے۔ کچھ دن بعد اسرائیلی فوج دریائے اردن کے مغربی کنارے پر چڑھ دوڑی اور رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین کے سیکریٹیریٹ سے وزرا، ارکان اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کو اٹھا کر لے گئی۔

اسرائیل نے وزیراعظم ہانیہ سمیت ارکان قومی اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کی نقل و حرکت محدود کردی۔ اسی کیساتھ بزعمِ خود فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کیلئے قائم کئے جانے والے چار فریقی ادارے Quartetنے بھی فلسطینی حکومت پر غیر قانونی قرار دے دیا۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس پر مشتمل Quartetجو ایک غیر جانبدار ادارہ تھا، حماس حکومت ختم کرنے کیلئے یکسو ہوگیا۔ اس سے شہہ پاکر اسرائیل نے فلسطینی حکومت کے وزرا اور اہلکاروں پر غزہ، بیت المقدس اور غزر اردن کے درمیان سفر پر پابندی لگادی۔اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت بحر روم کی اشددو بندرگاہ سے حاصل ہونے والا محصول اسرائیل اور مقتدرہ فلسطین میں تقسیم ہوتا ہے۔ وزیراعظم یہود المرٹ نے ایک حکم کے تحت محصولات سے فلسطینیوں کا حصہ معطل کردیا۔ دوسری طرف الفتح کا سیکیولر طبقہ اسرائیل اور امریکہ کے جذبات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حماس کو ہمیشہ کیلئے کچل دینا چاہتا تھا۔حماس نے صورتحال بھانپتے ہوئے ماہرین (ٹیکنوکریٹس) کی کل جماعتی حکومت کی تجویز پیش کی جسے الفتح نے ترنت مسترد کردیا۔اسرائیل کی جانب سے محصولات کے انجماد نے فلسطینی حکومت سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پیسہ نہ رہا۔ الفتح ان ملازمین کو سڑکوں پر لے آئی۔ جلد ہی سیاسی مظاہرے حماس اور الفتح کے درمیان فوجی تصادم میں تبدیل ہوگئے۔

ترکی اور قطر کی کوششوں سے  فروری 2007 میں الفتح اور حماس ہتھیار رکھ کر مخلوط حکومت بنانے پر راضی ہوگئے۔ فلسطینیوں کو امید تھی کہ اسکے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ پابندیاں ختم کردینگے اوراشدود بندرگاہ سے آمدنی میں فلسطینیوں کا حصہ  ملنا شروع ہوجائیگا لیکن الفتح نئے وزیراعظم کی نامزدگی ٹالتی رہی اور اور 15 جون 2007 کو صدر محمود عباس نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل کو برطرف کرکے سلام فیاض کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ حماس نے اس پر احتجاج کیا لیکن اسرائیل نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل اور حماس کو غزہ تک محدود کردیا۔اسرائیل اور مصرنے غزہ کی ناکہ بندی کردی۔ فلسطین عملاًدوحصوں میں تقسیم ہوگیا یعنی حماس کے زیرانتظام غزہ اور الفتح کے زیر اثر ٖغرب اردن۔

فلسطین کی اس تقسیم کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ خوفناک بمباری، آہنی باڑھ کی دوسری جانب سے مہلک گولہ باری روزمرہ کا معمول ہے۔ اسکے علاوہ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ بھی فلسطیی ماہی گیروں اور ساحل پر کھیلتے بچوں پر نشانے بازی کی مشق کرتی ہے۔

ترکی اور قطر ایک عرصے سے الفتح اور حماس کے مابین مصالحت کی کوششیں کررہے ہیں لیکن اسرائیل اور اسکے خلیجی اتحادیوں نے ان تمام کوششیں کو کامیابی سے ناکام بنادیا۔ گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات اور بحرین پھر سوڈان اور مراکش نے جب اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرلئے تو فلسطینیوں نے خود کو دیوارسے لگا محسوس کیا اور قیادت پر مصالحت کیلئے عوامی دباو بڑھا۔ ترک صدرایردوان نے نومبر میں الفتح اور حماس کیساتھ دوسری فلسطینی تنظیموں کوانقرہ مدعو کیا۔ اس ملاقات پر اسرائیل نے اقوام متحدہ جانے کی دھمکی دی۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ نے حماس کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ دہشت گرد رہنماوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور ترک حکومت کی جانب سے میزبانی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن تل ابیب کی اس شکائت کو پزیرائی نہ مل سکی۔

کچھ عرصہ پہلے محمود عباس نے مصر سے مصالحت و ثالثی کی درخواست کی تھی۔ غزہ سے نکلنے کا راستہ صحرائے سینا میں کھلنے والا باب رفح ہے اور اسرائیلی پابندیوں کے باعث حماس کیئے انقرہ کے مقابلے میں قاہرہ جانازیادہ آسان ہے۔ گزشتہ ہفتے قاہرہ مذاکرات میں الفتح، الجہاد، حماس اور فلسطین کی تمام تنظیموں نے  انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے  تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سازی میں مکمل تعاون کا عہد کیا۔

بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ عوامی دباو کی بنا پر فلسطینی آپس کے اختلافات ختم کرکے آزادانہ انتخابات کے ذریعے ایک نمائندہ حکومت کے قیام پر رضامند ہوگئے ہیں۔ ایسا ہی اتفاق 2006 میں بھی ہوا تھا لیکن اسرائیل نے حماس کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا اور اب بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر آنے والے انتخابات میں حماس  دوبارہ کامیاب ہوگئی تو کیا ہوگا۔ اسماعیل ہانیہ کہتے ہیں کہ حماس کا ہدف فلسطین کی آزادی ہے اور انھیں حکومت و اقتدار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر انتخابات میں انکی جماعت نے واضح اکثریت حاصل کرلی تب بھی مخلوط قومی حکومت حماس کی ترجیح ہوگی۔

بدقسمتی سے اس دنیا نے اسلامی جماعتوں کی انتخابی کامیابیوں کوکبھی  تسلیم نہیں کیا۔ الجزائر میں پہلی بار آزادانہ بلدیاتی انتخابات جون 1990میں منعقد ہوئے جس میں اسلامک سالویشن فرنٹ نے 54 فیصد ووٹ لیکر ملک کی 48 میں 31 بلدیات جیتیں اورپھر دیانت دارانہ خدمت سے عوام کے دل جیت لئے۔ دوسال بعد جب دسمبر 1991میں عام انتخابات ہوئے تو قومی اسمبلی کی 430 میں سے 232 نشستوں پر فرنٹ کے امیدوار کامیاب ہوئے اور بقیہ 198 نشستوں پر فرنٹ پہلے یا دوسرے نمبر پر تھی لیکن چونکہ کسی امیدوار نے مطلوبہ 50 فیصد ووٹ نہیں لئے تھے اسلئے ان نشستوں پرپہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والوں کے درمیان دوسرے مرحلے کے انتخابات ہونے تھے جنھیں run-off کہا جاتا ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر فوج نے مداخلت کی۔انتخابات منسوخ کرکے اسلامک سالویشن فرنٹ کے خلاف خوفناک فوجی کاروائی کا آغاز ہوا۔ فروری 2002 تک جاری رہنے والے آپریشن میں اسلامک فرنٹ کے 3 لاکھ کارکن ذبح کردئے گئے۔ فرنٹ کیخلاف کاروائی کیلئے فرانس، تیونس، جنوبی افریقہ اور مصر نے اپنے فوجی دستے بھیجے

کچھ ایسا ہی معاملہ مصر میں  پیش آیا جب پارلیمانی انتخاب جیتنے کے بعد اخوان سے وابستہ حریت و انصاف پارٹی کے ڈاکٹر محمد مورسی 2012کے انتخاب میں 52 فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب کو مصر کی تاریخ کا پہلا منتخب صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن حکومت سبنھالنے کے صرف ایک سال بعد نوزائیدہ جمہوریت کو فوجی بوٹوں سے پامال کردیا گیا۔ فوج کی وحشیانہ فائرنگ سے ہزاروں کارکن جاں بحق ہوئے، درجنوں پھانسی چڑھے اور اخوان المسلمون کے مرشدِ عام (امیر) سمیت ہزاروں رہنما آج تک عقوبت کدوں کی زینت ہیں۔ ڈاکٹر مورسی دوران حراست ہی انتقال کرگئے۔

اس تایخی پس منظر اوراسرائیل کے روئے کو دیکھ کر اس بات کی امید بہت کم ہے کہ آنے والے انتخابات فلسطینیوں کیلئے مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہوسکیں گے۔

ہفت روزی فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 فروری 2021

ہفت روزی دعوت دہلی 19 فروری 2021

روزنامہ امت کراچی 19 فروری 2021

ہفت روزہ رہبر سرینکر 21 فروری




2021

 

No comments:

Post a Comment