دنیا کا دہرامعیار
فوجی بغاوت کی مذمت لیکن مسلمانوں کی نسل کشی پر مکمل خاموشی
یکم فروری کو برما المعروف میانمار میں حکومت کا تختہ الٹ دیاگیا۔ تتماداو (فوج) کے سربراہ جنرل من آنگ ہلینگ (Min Aung Hlaing)نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ نومبر کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ ان انتخابات میں آنگ سان سوچی (Aung San Suu Kyi)کی برسراقتدار قومی لیگ برائے جمہوریت (NLD) نے 80 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔ فوجی کاروائی سے پہلے، سربراہِ حکومت آنگ سان سوچی ہی تھیں۔ موصوفہ نےایک غیر ملکی سے شادی کی تھی جن سے انکے بچے بھی ہیں۔ برمی قانون کے تحت ایسے فرد کو سربراہ حکومت نہیں بنایا جاسکتا، چنانچہ انکے لئے State Counselorکا منصب تراشا گیا۔
جنرل ہلینگ نے ملک میں ہنگامی حالت کا اعلان کرتے ہوئے عوام کو یقین دلایا کہ عوامی مینڈیٹ چرانے والوں کا احتساب کیا جائیگا۔اسی کیساتھ سربراہ حکومت آنگ سان سوچی اور صدر ون مینت (Win Myint) سمیت این ایل ڈی کی قیادت کو گرفتار کرلیا گیا۔سرکاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ جنرل ہلینگ ملک کے عبوری سربراہ اور فوج کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل سو ون (Soe Win)ریاستی امو ر میں انکی نیابت کرینگے۔ساتھ ہی 11 رکنی عبوری کابینہ نے بھی حلف اٹھالیا۔اعلامئے کے مطابق اس عبوری بندوبست کا دورانیہ ایک سال ہے۔
اپنی آزادی کے بعد سے برما فوجی آمریت کا شکار رہا۔ آخری بار جمہوریت کی امید 1990 میں پیدا ہوئی جب فوجی جرنیل انتخابات پر رضامند ہوگئے۔ اُس سال 27 مئی کو ہونے والے انتخابات میں سان سوچی کی پارٹی نے 492 کے ایوان میں 392 نشستیں جیت لیں، لیکن فوجی جنتا نے اقتدار منتقل کرنے کے بجائےنتائج کو منسوخ کرکے مارشل لا لگادیا۔ برمی فوج کی اس سکھا شاہی پر مغرب کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا اور برما دنیا میں تنہا رہ گیا۔ قارئین کو یاد ہوگا کچھ ایسا ہی معاملہ ایک سال بعد الجزائر میں بھی پیش آیا جب عوام کی امنگوں کو فوجی بوٹ تلے کچل دیا گیااور وردی والوں نے دسمبر 1991 میں ہونے والے انتخابات کو کالعدم قراردیکر فاتح اسلامک فرنٹ کے دس لاکھ کارکنوں کو ذبح کردیا۔ مغرب نے پابندی تو درکناراس ظلم عظیم کی زبانی مذمت تک نہ کی بلکہ بنیادپرستی اور انتہا پسندی کے خلاف جرات مندانہ قدم اٹھانے پر الجزائری فوج کو مبارک دی گئی ۔
برما میں 1990 کے بعد 8نومبر 2015 کو کثیرالجماعتی انتخابات منعقد ہوئے۔ جس سے پہلے صدر تھین سین نے اقوام متحدہ کے نام خط میں یقین دلایا کہ انتخابات آزادانہ، منصفانہ و شفاف ہونگے اور سب سے بڑھکر یہ ضمانت کہ فوج نتائج کو غیر مشروط طور پر تسلیم کریگی۔ان انتخابات کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ چناو کے نظام کو مسلمانوں سے پوری طرح 'پاک' رکھا گیا۔
برمی مسلمانوں کو روہنگیا کہا جاتا ہے جو دراصل ایک لسانی اکائی ہے۔ مسلمانوں کا علاقے کا نام اراکان ہے اور اس اعتبار سے برمی مسلمانوں کیلئے اراکانی (برمی تلفظ راخین) کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ 2012 کے فوجی آپریشن سے پہلےروہنگیا مسلمانوں کی تعداد پچیس لاکھ کے قریب تھی۔فوجی کاروائی کیساتھ پانچ لاکھ آراکانی بنگلہ دیش ہجرت کرگئے۔ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے حکم پر چارلاکھ روہنگیا ریاض، جدہ، دمام اور دوسرے سعودی شہروں میں بسائے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق دولاکھ کے قریب برمی مسلمان پاکستان چلے گئے۔ انتخابات سے پہلے جب برما کی فوجی جنتا نے مردم شماری کا انعقاد کیا تو روہنگیا مسلمانوں کو بنگالی تارکین وطن کی حیثیت سے شمار کیا گیا اور انتخابی فہرست بناتے ہوئے روہنگیا آبادیوں کو مقامی مہاجرین یا IDPsقرار دیکر انکا انتخابی فہرستوں میں اندراج نہیں کیا گیا۔ نوبل انعام جیتنے والی انسانی حقوق کی چمپین اورNLDکی سربراہ سان سوچی نے بھی برمی مسلمانوں کی انتخابی فہرستوں میں اندراج کی شدید مخالفت کی۔ اسلام کے بارے میں دنیا بھر کے سیکیولر ایک ہی سوچ اور اپروچ رکھتے ہیں۔
سان سوچی نے اراکانیوں کو بنگالی قراردیاہے۔ یہ بات وہ خاتون کہہ رہی ہیں جنکے آنجہانی شوہر مائیکل ایرس ایک معروف مورخ تھے۔ مائیکل ایرس اور انکے جڑواں بھائی انتھونی ایرس نے بھوٹان، تبت اور ہمالیہ تہذیب پر کئی گرانقدر مقالے لکھے ہیں۔ راخین کا معاملہ سان سوچی کے مفروضے سے الٹ ہے یعنی اراکان میں اسلام بنگال سے پہلے پہنچا تھا اور برمی مبلغین کی کوششوں سے چاٹگام توحید کے نور سے منور ہوا۔ استنبول کے عجائب گھر میں وہ سکے موجود ہیں جو 1450میں اراکان کی اسلامی سلطنت نے جاری کئے تھے۔ بلند و بالا کوہِ ارکان کا دامن بے حد زرخیز ہے جہاں چاول کاشت کیا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سارے بنگال (مغربی بنگال اور بنگلہ دیش) کی چاول کی ضرورت یہی علاقہ پوری کیا کرتا تھا جسکی بنا پر چاٹگام اورا سکے قرب و جوار کے لوگ بڑی تعداد میں اراکان منتقل ہوگئے لیکن روہنگیا کو من حیث القوم بنگالی قراردے دینا سراسرہٹ دھرمی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کو دیس نکالا دینے کی اصل وجہ اراکان کی زرخیز زمین، محل وقوع، کٹا پھٹا ساحل، کنارے تک آیاگہرا سمندر اور اسکی تہہ میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر ہیں۔ اراکان چاٹگام کے جنوب میں خلیج بنگال کے مغربی ساحل پر ایک تنگ سی پٹی ہے جسکا کل رقبہ 14 ہزار مربع میل سے کچھ زیادہ ہے۔کوہ اراکان کی چوٹیوں سے پھوٹنے والے چشمے دریائےناف، دریائےکالادان، دریائے لیمرو اور دریائے مایو کی شکل میں سارے برما کو سیراب کرتے ہیں۔ پورے ملک میں اراکان ہی وہ واحد علاقہ ہے جہاں بجلی کی کمی نہیں کہ ملک کے زیادہ تر ڈیم یہیں واقع ہیں۔ اراکان کا ساحل پاکستانی مکران کی طرح کٹا پھٹا ہے اور کیوک پھیو کے مقام پر گہرا سمندر ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ چین کی مدد سے گوادر کی طرح یہاں بھی ایک بندرگاہ تعمیر کی گئی ہے۔ گہرے سمندر کی وجہ سے بھاری جہاز کنارے تک آسکتے ہیں اور اسکے لئے جیٹی کھودنے کی ضرورت نہیں۔ کٹے پھٹے ساحل نے گودیوں کی تعمیرکا کام بھی بے حد آسان کردیا ہے۔ساحل کے قریب زمین اور سمندر کے تہہ میں تیل اور گیس کے ذخائر پائے جاتے ہیں جنکی تلاش وترقی کا ٹھیکہ چینی کمپنیوں کے پاس ہے۔
رقبے کے اعتبار سے چین ایک وسیع و عریض ملک ہے لیکن سمندر تک رسائی صرف مشرقی جانب سے ہے۔ چین دنیا میں تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور مشر ق سطیٰ سے آنے والا تیل مشرقی چین کی بندرگاہوں پر اتارکر ٹینکروں اور پائپ لائنوں کے ذریعے سارے ملک میں تقسیم کیا جاتا ہے۔کیوک پھیو بندرگاہ کی شکل میں اسے اب جنوب میں بھی ایک بندرگاہ میسر آگئی ہے۔ یہاں سے ایک 38 انچ قطر کی پائپ لائن چین کے یونان(Yunnan)صوبے تک بچھائی گئی ہے جسکی گنجائش 2لاکھ 40ہزار بیرل تیل روزانہ ہے. اسکے متوازی ایک گیس پائپ لائن بھی موجود ہے جسکے ذریعے برما کی 3 کروڑ اٹھائیس لاکھ مکعب میٹر گیس روزانہ (32.8mmcmd)یونان پہنچائی جارہی ہے۔ بندرگاہ، پائپ لائن اور دوسری تعمیرات کیلئے اراکانیوں کی زمینیں ہتھیائی گئی ہیں اور اب باقی ماندہ علاقوں پر چین اور برما کی مشترکہ فوجی چھاونیاں تعمیر کی جارہی ہیں۔گویا اراکان کی ہنستی بستی آبادی چین کے Road and Belt Initiativeیا RBIکی نذر ہوگئی۔قدرتی دولت اور محل وقوع ہی روہنگیا مسلمانوں کو دیس نکالا دینے کی اصل وجہ ہے۔
انتخابی قوانین کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں کی پچیس پچیس فیصد نشستیں فوج کیلئے وقف کردی گئیں جسے ملٹری بلاک کہاجاتا ہے۔ ان دونکات کی موجودگی میں ان انتخابات کو آزادانہ اور جمہوری کیسے کہا جاسکتا تھا لیکن مغربی میڈیانے ان انتخابات کو سان سوچی کی جرات مندانہ جدوجہد کا ثمر قراردیتے ہوئے مسلمانوں سے امتیازی سلوک کو یکسر نظر انداز کردیا۔
انتخابات میں سان سوچی کی این ایل ڈی نے 330 میں سے 255 نشستیں جیت لیں۔ 110 نشستیں ملٹری بلاک کیلئے وقف تھیں جبکہ 30 نشستوں پر فوج نواز USDPکامیاب رہی۔ ایوان بالا میں بھی این ایل ڈی نے بھاری اکثریت حاصل کرلی۔ حسب توقع ملٹری بلاک کی مدد سے فوج نے مداخلت جاری رکھی لیکن اس وقت اولین ترجیح اراکانی مسلمانوں کی برما سے بیدخلی تھی اسلئے دوسرے اختلافات ابھر کر سامنے نہ آئے اور سان سوچی کی حکومت فوج کیساتھ مل کر راخین مسلمانوں کی بیخ کنی کرتی رہی۔ پندرہ لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا اور گزشتہ سال کے وسط تک صرف 4 لاکھ اراکانی برما میں رہ گئے۔
اس مشن کی کامیابی سے تکمیل کے بعد اختیارات کیلئے فوج اور سان سوچی کے درمیان رسی کشی کا آغاز ہوا۔ فوجی حلقوں کا خیال تھا کہ سان سوچی 2020 میں کامیابی کے بعد آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان میں فوج کیلئے مختص نشستیں ختم کروانے کا ارداہ رکھتی ہیں۔ سوچی صاحبہ کے امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے اچھے مراسم ہیں۔ سابق امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن انکی دوستوں کیں شمار ہوتی ہیں جنھوں نے 2011 میں سان سوچی کو امریکی کانگریس کے خصوصی خطاب کی دعوت دی تھی۔ تین نومبر کو امریکہ میں جو بائیڈن کی کامیابی سے سان سوچی کا حوصلہ آسمان پر پہنچ گیا جسکے 5 دن بعد برما میں دوسرے انتخابات ہونے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری جلسے میں اس صدی کی تیسری دہائی کو برما میں 'مکمل جمہوریت' کاعہد قراردے دیا۔
آٹھ نومبر کے انتخابات میں سان سوچی کی این ایل ڈی نے 80 فیصد ووٹ لیکرایوان زیریں کی 258 نشستیں جیت لیں جو ترمیم کیلئے ناکافی تھیں کہ ایوان کا مجموعی حجم 440 ہے جس میں سے 110 نشستیں عسکری بلاک کیلئے مختص ہیں۔ نتائج کا اعلان ہوتے ہی فوج کی ایما پر حزب اختلاف کی USDP نےانتخابات میں دھاندلی کا الزام لگادیا۔ اس دوران امریکہ میں غیر یقینی صورتحال تھی۔ صدر ٹرمپ تاثر دے رہے تھے کہ انتخاب وہ جیتے ہیں اور ڈانلڈ ٹرمپ ہی دوسری مدت کا حلف اٹھائینگے۔ تیسری دنیا کی سیاسی اور عسکری قیادت قصرِ مرمریں کے اشاروں کوبہت اہمت دیتی ہے چنانچہ دونوں جانب سے معاملہ بیان بازی تک محدود رہا۔صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھاتے ہی سان سوچی کا لہجہ سخت ہوگیا۔ انھوں نے دھاندلی کاالزام مسترد کرتے ہوئے جرنیلوں کو عوامی فیصلہ قبول کرنیکی تلقین کی اور ساتھ این ایل ڈی نے مکمل جمہوریت پراصرار شروع کردیا۔ دوسری طرف فوج کو بھی این ایل ڈی کے عزائم کااندازہو گیا تھا چنانچہ یکم فروری کو جنرل ہلینگ سے فیصلہ کن قدم اٹھالیا۔
حسب توقع دنیا کے جمہوری ممالک نے فوجی انقلاب پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ برمی فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ، آنگ سان سوچی اور دوسرے رہنماوں کی گرفتاری اور ہنگامی حالت کا اعلان ملک کے سفرِ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر براہ راست حملہ ہے۔ برما کے عوام سالوں سے منصفانہ انتخابات، سویلین حکومت اور پر امن انتقال اقتدار کیلئے جرات مندانہ جدوجہد کرہے ہیں جسکی امریکہ مکمل حمائت کرتا ہے۔ امریکی صدر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جہاں بھی جمہوریت پر حملہ ہوا، امریکہ دفاع میں پیش پیش ہوگا۔ایسا ہی ردعمل آسڑیلیا۔ جاپان، کینیڈا اور یورپی یونین کا بھی تھا۔
کیا جو بائیڈن اور جمہوری دنیا کے دوسرے زعما اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ 2015 میں پہلے انتخابات کے دوران انتخابی فہرستوں سے مسلمانوں کے نام ایک سرکاری اعلان کے تحت حذف کردئے گئے تھے۔یہ حکمنامہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے والے انھیں جنرل ہیلیناگ نے جاری کیا تھا اور محترمہ سان سوچی نے اسکی مکمل حمائت کی تھی۔ انتخابات جیتنے کے بعد چینی فوج کے تعاون سے مسلمانوں کے قتل عام اور انھیں بنگلہ دیش دھکیلنے کی مہم کو بھی محترمہ کی حمائت حاصل تھی۔اس بار بھی جنرل ہیلینگ کو چین کی حمائت حاصل ہے۔ نظام میں سب کی شمولیت یا Inclusiveکا وظیفہ پڑھنے والے جو بائیڈن کو ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں ایک لفط کہنے کی ہمت نہیں ہوئی جنہیں پہلے انتخابی عمل سے اسکے بعد دنیا اور باقی ماندہ کو برماسے نکال دیا گیا۔ اسوقت جو بائیڈن امریکہ کے نائب صدر تھے۔
برما میں چین کے تعاون سے روہنگیا مسلمانوں کی منظم نسل کشی کا جو سفاک کھیل کھیلا گیا اسکی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل UN Human Rights Council(UNHRC) نے بھی تصدیق کی ہے۔ حقایق کی تلاش کیلئے UN Independent International Fact-Finding Mission on Myanmar کے عنوان سے ایک 3 رکنی کمیشن قائم کیا گیاتھا۔انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مرزوقی دارسمان اس کمیشن کے سربراہ تھے۔سری لنکا کی محترمہ رادھیکاکومراسوامیRadhika Coomaraswamyاور انسانی حقوق کے آسٹریلیوی چمپین مسٹر کرسٹوفر سیڈوٹیChristopher Sidoti مشن کے ارکان نامزد کئے گئے تھے۔
کمیشن کے برما جانے پر پابندی تھی لیکن زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کےلئےمصنوعی سیاروں سے حاصل کی گئی تصویروں (satellite imagery) کی مدد سے برمی فوج کی حرکات، گھروں کی آتشزنی اور تباہی کا مشاہدہ کیاگیا۔ کمیشن نے بنگلہ دیش کے علاوہ ملایشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور برطانیہ جاکر وہاں موجود متاثرین سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس دوران دنیا بھر میں موجود ان برمی فوجی افسران سے بھی بات کی گئی جنھوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر معلومات فراہم کیں۔کمیشن نے لاکھوں تصاویر اور فلموں کا معائنہ کیا۔سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی یوٹیوب رپورٹس اور پیغامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ متاثرین کی گفتگو، سیٹلائٹ تصاویر اور سوشل میڈیا سے حاصل کئے جانیوالے مواد کی تصدیق و تجزئے کیلئے دنیا بھر کے ماہرین نفسیات، ذریع ابلاغ کے علما اور قانون دانوں سے مدد لی گئی۔جہاں کہیں ہلکا سا بھی شک محسوس ہوا اس شہادت کو حذف کردیا گیا اور رپورٹ کی تیاری میں صرف ان مشاہدات کو شامل کیا گیا ہے جس کی صحت پر ہلکا سا بھی شبہہ نہیں۔
شہادت اور مصدقہ مواد جمع کرنے میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ لگا جسکے بعد کئی ماہ رپورٹ کی تیاری پر صرف ہوئے اور کمیشن نے اپنی رپورٹ 27 اگست 2018کو کونسل کے سامنے جمع کرادی۔ اٹھارہ ستمبر کو یہ رپورٹ اشاعتِ عام کیلئے جاری کردی گئی۔ اس موقع جنیوا میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کمیشن کے ارکان نے اپنے مشاہدات بیان کئے جسکے مطابق برما میں اراکان کے علاوہ شمالی برما کی ریاست کاچن (Kachin) اور ریاست شان (Shan)میں آباد مسیحیوں کو بھی نسل پرست بودھوں کے حملوں کا سامنا ہے۔روہنگیا آبادی کو جن مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے ان میں قتل عام، گھروں کی آتشزدگی، بچوں کا قتل، کم سن بچیوں کی عصمت دری، بردہ فروشوں کے ہاتھوں فروخت، بچوں سے بیگار اور بدترین تشدد شامل ہیں۔ میانمار میں جن جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے وہ انسانی ضمير کو ہلا دینے والے ہیں۔ اس قتل عام میں نہ صرف فوج ملوث ہے بلکہ قتل و غارت گری اور آبروریزی فوج کی جانب سے روہنگیا آبادی پر دانستہ حملہ تھا۔ ایک سال کی تفتیش سے یہ مستند شواہد سامنے آئے ہیں کہ میانمار کی فوج نے جن جرائم کا ارتکاب کیاہے وہ بین الاقوامی قانون کے تحت انتہائی سنگین جنگی جرائم شمار ہوتے ہیں۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ روہنگیا آبادی کے خلاف تشدد کا ارتکاب محض وقتی اشتعال کا نتیجہ نہٰں تھا بلکہ زمینی حقائق اور شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ کاروائی منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل عام بلکہ نسل کشی کے ارادے سے کی گئی ہے اور تفصیلی شواہد کے بعد کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ برمی فوج انسانیت کے خلاف جرائم کی مرتکب ہوئی ہے، چنانچہ برما کی عسکری قیادت کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلنا چاہئے۔
تحقیق، مشاہدے اور متاثرین سے تفصیلی انٹرویو کے بعد کمیشن نے ان سنگین جرائم کے متوقع ذمہ داروں کی فہرست بھی تیار کی ہے اور کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ان لوگوں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ فوجی افسران میں تتماداو کے سربراہ جنرل من اونگ ہلینگ ،نائب کمانڈر سو ون، اسپیشل اپریشن کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل آنگ کیا زاو(Aung Kyaw Zaw)، ٓمغربی کور کے سربراہ جنرل موانگ موانگ سو (Maung Maung Soe)،ہلکے توپخانہ کے 33 ویں ڈویژن کے کمانڈر بریگیڈئر جنرل آنگ آنگ (Aung Aung)، ہلکے توپخانہ کے 99 ویں ڈویژن کے سربراہ بریگیڈئر جنرل تھن او (Than Oo)کے نام اس رپورٹ میں درج ہیں جبکہ کمیشن نے جرائم کے مرتکب باقی افسران کی فہرست اقوام متحدہ کے ہائی کیشن برائے انسانی حقوق کو پیش کردی تھی۔
اقوام متحدہ کے کمیشن نے غیر مبہم انداز میں کہا کہ سویلین قیادت بظاہر فوج کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن یہ لوگ بھی مجرمانہ غفلت اور ظلم و ستم کی خاموش حوصلہ افزائی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بہیمانہ تشدد رکوانے اور برما کی اسٹیٹ کونسلر یا سربراہِ مملکت کی حیثیت سے اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں اداکرنے میں محترمہ آنگ سان سوچی Aung San Suu Kyi بری طرح ناکام رہیں بلکہ مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوئیں۔
اتنی صاف وشفاف اور واضح رپورٹ کے بعد تو فوری طور پر جنگی جرائم ٹریبیونل قائم ہونا چاہٗے تھا لیکن 3 سال گزرجانے کے باوجود اسے اقوام متحدہ کے سامنے پیش بھی نہیں کیا گیا اور یہ لرزہ خیز دستاویز عملاً ردی کی ٹوکری کی نذد ہوچکی ہے۔سفارشات پر عملدرآمد کیلئے سلامتی کونسل کی آشیر واد ضروری ہے اور چین صاٖ ف صاٖف کہہ چکا ہے کہ وہ برما کے خلاف کسی بھی قرارداد کو ویٹو کردیگا۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر محترمہ نکی ہیلی نے Fact Findingمشن کی رپورٹ اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن چین اراکان سے متعلق کوئی بات سننے کو بھی تیار نہیں۔ مغربی دنیا کا کیا شکوہ کہ اس چشم کشا ور روح فرسا رپورٹ کے بعد OIC بھی خاموش ہے۔ فوجی مداخلت کے خلاف مذمتی بیانات میں ترکی اور ایران کے سوا کسی اور مسلم ملک نے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کا ذکر تک نہیں کیا۔
پاکستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ اس میں شامل تمام فریقین تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھیں گے اور پُرامن نتائج کے لیے تعمیری انداز میں کام کریں گے'۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسلام آباد نے چینی ردعمل کے خوف سے احتیاط کا بند باندھا ہے۔
روہنگیا نسل کاقتل عام دور حاضر کا نیا واقعہ نہیں۔ بوسنیا کے مسلمان اسی عذاب سے گزرچکے ہیں، فلسطینی و کشمیری سات دہائیوں سے اپنے لہو میں غسل کررہے ہیں اور تمام تر حشرسامانیوں کیساتھ روہنگیا ماڈل اب آسام میں نافذ کیا جارہاہے۔ سنکیانگ کی تفصیلات بیان کرنے کی نہ ہم میں ہمت ہے اور نہ قارئین اسے پڑھ پائینگے، بس یوں سمجھئے کہ بیس لاکھ ویغورظلم و ستم کی دہکتی ہوئی بھٹی میں جھونک دئے گئے ہیں۔
برمی عوام کی جمہوری امنگوں پر شبخون قابل مذمت ہےاور فوجی مداخلت کے ذمہ دار ہدف تنقید بنے ہوئے ہیں، لیکن جمہوری سان سوچی اور آمرِ مطلق ہلینگ نے اراکان میں خون کی جو ہولی مل کر کھیلی ہے اسے خود مسلم دنیا نے خونِ خاک نشیناں سمجھ کر نظر انداز کردیا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 فروری 2021
روزنامہ امت کراچی 12 فروری 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 12 فروری 2021
ہفت روزہ رہبر، سرینگر 14 فروری
2021
No comments:
Post a Comment