امریکی سیاہ فام۔۔ تحریک اسلامی کا ہراول دستہ
فروری کا مہینہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں Black History Monthکے طور پر منایا جاتا ہے۔ امریکی مسلمانوں کیلئے سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ دراصل شمالی امریکہ کی اسلامی تاریخ ہے۔ امریکہ میں افریقیوں کی آمد کا آغاز1619 میں ہوا جب افریقہ کے ساحلوں سے لاکھوں کی تعداد میں افریقیوں کو پکڑ کر یہاں لایا گیا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام غلاموں کی امریکہ آمد کا سلسلہ 1555میں شروع ہوا جب سیرالیون سے پکڑے ہوئے غلام امریکہ میں فروخت کئے گئے۔ افریقہ کے ساحلوں سے پکڑے ہوئے غلام 'گلوں' کی صورت میں پہلے ہالینڈ کی بندرگاہوں پر پہنچائے جاتے جہاں سے بحر اوقیانوس کے راستے انھیں امریکہ لایا جاتا تھا۔ اسی بنا پریہ گھناونا کاروبار Atlantic Slave Tradeکہلاتا تھا۔ افریقہ سے براہ راست امریکہ آنے والا غلاموں سے لدا پہلا جہاز 1619 میں ورجنیا میں لنگر انداز ہوا۔ اسکے بعد سے 'افریقیوں کا شکار' ایک قومی کھیل بن گیا۔ غلاموں کی تجارت اور ہلاکوو تیمور جیسے غارتگروں کے ہاتھوں مفتوحہ آبادیوں کو غلام بنانے کی مثالیں موجود ہیں مگر یہاں طریقہ وارادت بالکل ہی انوکھی تھا کہ جہاز ساحل پر لنگرانداز ہوتے اور نہتی بستیوں کو منہہ اندھیرے گھیرکر عورتوں بچوں سمیت سارےلوگ ہانک کر جہاز پر لاد دئے جاتے۔ دوران سفر مردوں اور عورتوں کو علیحدہ کرکے یہ قزاق کمسن بچیاں آپس میں تقسیم کرلیتے اور پھر انکے درمیان'کثرت اولاد' کا مقابلہ ہوتا تاکہ غلاموں کی نئی کھیپ حاصل کی جائے۔
اٹھارہ سو اٹھانوے (1898) تک ایک کروڑ افریقی غلام بناکر امر یکہ لائے گئے۔ سفر کے دوران تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے 20لاکھ سے زیادہ غلام ہلاک ہوگئے جبکہ 'گڑبڑ' کرنے والے بہت سے سرکش غلاموں کو انکے پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ زیادہ تر غلام بحر احمر اور افریقہ کے مغربی اور وسطی ساحلوں سے پکڑے گئے۔ ان غلاموں کی نصف تعداد نائیجیریا کے علاقے بیافرا، گبون اور سیرالیون کے باشندوں پر مشتمل تھی۔اسکے علاوہ سینیگال، لائیبیریا، کانگو اور گھانا کے لوگ بھی پکڑے گئے۔ بحراحمر سے آنے والے قزاقوں نے سوڈانیوں اور حبشیوں کا شکار کیا۔ عمدہ خدوخال کی بنا پر حبشی بچیاں ان اوباشوں کو بہت محبوب تھیں۔ پکڑے جانے والے افریقی غلاموں کی ایک تہائی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی تاہم شمالی امریکہ میں اسلام کولمبس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکا تھا اور قدیم انڈین قبائل میں بھی مسلمان موجود تھے۔ یہاں یہ حقیقت شاید قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو کہ مسلمانوں کو امریکہ سے نکال باہر کرنے کی دھمکیاں دینے والے سابق صدر ٹرمپ کے دادا فریڈرک ٹرمپ مسلمانوں کی یہاں آمدکے 266 سال بعد 1885میں جرمنی سے امریکہ تشریف لائے جبکہ انکی والدہ محترمہ میری این 1930 میں اسکاٹ لینڈ سے امریکہ آئی تھیں۔
ان غلاموں کی فروخت کیلئے ورجنیا، شمالی کیرولینا۔ جنوبی کیرولینا اور جارجیا میں غلاموں کی منڈیاں قائم کی گئیں۔ اسوقت امریکہ بحراوقیانوس کے ساحل پر واقع ان 13 کالونیوں پر مشتمل تھا جنھوں نےبرطانیہ سے آزادی کا اعلان کردیا تھا۔ 1776 میں انھیں 13 کالونیوں نے ریاستوں کی شکل اختیار کرکے ریاست ہائے متحدہ امریکہ یا USAکی شکل اختیار کرلی ۔امریکہ کے پرچم پر 13 سرخ و سفید پٹیاں انھیں ابتدائی ریاستوں کو ظاہر کرتی ہیں۔1625 میں ان کالونیوں کی مجموعی آبادی 1980 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ 1660 تک غلاموں کی تعداد 2000 سے زیادہ ہوگئی یعنی عددی اعتبار سے غلام مالکوں سے زیادہ تھے جنھیں قابو میں رکھنے کیلئے بدترین ہتھکنڈے اور ظلم کے ضابطے وضع کئے گئے۔ سرکشی کی فوری سزا پھانسی تھی اور یہ سزا اس شدت و کثرت سے دی جاتی تھی کہ پھندے کی تیاری کیلئے رسی کی فروخت ایک نفع بخش کاروبار بن گیا۔ جلادی کا کام 'مجرم' کے خونی رشتے دار سے لیا جاتا تھا یعنی بھائی اپنے بھائی کو یا باپ اپنے بیٹے کو پھندہ لگاتا۔ اس دور میں get the ropeیعنی (پھانسی کیلئے) رسی لاو دھمکی کا استعارہ تھا جو اب بھی یہاں ضرب المثل ہے۔ پھانسی کے علاوہ بورے میں بند کرکے ڈنڈوں کی ضربات سے مارڈالنا، خنجر بھونک کر ہلاک کرنا، زندہ جلانا، غلامو ں کوتیزاب کے ڈرم میں ڈال دینا اور پیروں میں وزن باندھ کر دریابرد کردینا بھی اس دور کی عام سزا تھی۔ بس یوں سمجھئے کہ افریقہ سے پکڑکر امریکہ لائے جانیوالے غلاموں پر جو مظالم توڑے گئے اسکا ذکر کرتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
پکڑے جانیوالے مسلمانوں نے امریکہ اترتے ہی دعوت و تبلیغ کا آغازکردیا۔ ان غلاموں کی اکثریت نسبتاً تعلیمیافتہ تھی چنانچہ 1898 میں 'کوکب امریکہ' کے نام سے ایک عربی اخبار کا اجرا ہوا۔ کوکب کو امریکہ کا ایک قدیم اخبار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں کاقدیم ترین اخبار غالباً نیویارک ٹائمز ہے جسکی اشاعت کا آغاز 1851 میں ہوا۔
گزشتہ صدی کے آغاز پر پولینڈ، روس اور مشرقی یورپ سے تاتاروں کی آمد شروع ہوئی جنکے آنے سے سیاہ فام لوگوں کو تقویت ملی اور امریکن محمڈن سوسائیٹی کا قیام عمل میں آیاجو امریکی مسلمانوں کی پہلی انجمن تھی۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادی نے بلاامتیاز مذہب نئے آنے والوں کا کھلی بانہوں سے استقبال کیا۔ تارکین وطن کی اکثریت انجنیروں اور کاریگروں پر مشتمل تھی چنانچہ مقامی مسلمانوں کے مشورے پر ان لوگوں کی بڑی تعداد نے مشیگن کے شہر ڈیٹرائٹ کا رخ کیا جہاں اسوقت کار کی صنعت اپنے عروج پر تھی۔ ڈیٹرائٹ کی آبادکاری میں مسلم تارکین وطن کا بہت بڑا حصہ ہے۔1934 میں ایک عرب نژاد سیاہ فام مسلمان والس فرد محمد نے Lost-Found Nation of Islamکی بنیاد رکھی جو بعد میں نیشن آف اسلام بن گئی۔ جنگ عظیم دوم کے آغاز پر لازمی لام بندی کا حکم جاری ہوا جسکی نیشن آف اسلام نے مخالفت کی۔ انکا موقف تھا کہ اسلام نسل، قومیت اور رنگ کی بنیاد پر جنگ کو فساد قراردیتا ہے لہٰذا مسلمان اس جنگ کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس فیصلے سے کشیدگی کا آغاز ہوا اور نیشن آف اسلام کے سربراہ عالیجاہ محمد ساتھیوں سمیت گرفتار کرلئے گئے۔اسی جرات کا اظہار محمد علی نے جنگ ویتنام میں حصہ لینے سے انکار کرکے کیا۔ اس کے نتیجے میں مرحوم نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے پر اپنے اعزاز (ٹائٹل) سے ہاتھ دھونے کو ترجیح دی
1950 میں مالکم ایکس (الحاج ملک الشہباز) کی نیشن آف اسلام میں شمولیت اور اسکے ساتھ شہری آزادیوں کی ملک گیر تحریک امریکی تاریخ کا ایک انقلابی موڑ ثابت ہوئی۔ نیشن آف اسلام اور ساوتھ کرسچین لیڈر شپ کانفرنس SCLCکے مشترکہ محاذ نے سارے امریکہ کے جمہویت پسندوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا۔ مالکم ایکس اور ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ شہری آزادیوں، برابری کے حقوق، انصاف اور آزادی کی علامت بن گئے اور جلد ہی سیاہ فام، خواتین اور دوسری لسانی و ثقافتی اقلیتوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔ اسکولوں، کالجوں، پارکوں اور تفریح گاہوں کی سیاہ و سفید بنیادوں پر تقسیم ختم ہوگئی اور امریکہ حقیقی معنوں میں ONE NATION UNDER GODقرار پایا۔ سیاہ فام امریکیوں کی جدوجہد سے 1965 میں امیگریشن اور قومیت ایکٹ یا Immigration and Nationality Actمنظور ہوا جس کے تحت یوروپی ممالک کے ساتھ ساری دنیا کے لوگوں کیلئے امریکہ کے دروازے کھولدئے گئے۔اس سے پہلے امیگریشن (گرین کارڈ) کیلئے یورپی باشندوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔
سیاہ فام تاریخ امریکہ کا فخروافتخار ہے یہ دراصل امریکہ کی اسلامی تاریخ ہے کہ جسکا ہر پہلو باوقار اور بے مثال جدوجہد کا مظہر ہے۔ جہموریت، غلامی کے خاتمے، آزادی، یکساں حقوق، اور سماجی انصاف کیلئے افریقی نژاد امریکیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ نوبل ڈریو علی، والس فردمحمد، عالیجاہ محمد، مالکم ایکس، ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ، محمد علی کلے وغیرہ اس قافلہ سخت جان کے وہ پھول ہیں جنکی یاد سےشاہراہ آزادی اب تک معطر ہے۔ امریکہ کے انصاف پسند سفید فام بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ کی ثروت و طاقت، جاہ و جلال اور ترقی و خوشحالی سب کی سب غلاموں، افریقی نژاد امریکیوں اور تارکینِ وطن کی محنت کا نتیجہ ہے۔
افریقی نژادامریکیوں کو خراج تحسین اپنی طرف لیکن امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اسکا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان مظالم کو تاریخ کے صفحات پر جگہ نہیں دی گئی اور امریکی بچوں کے نصاب میں اسکا کوئی ذکر نہیں۔1989میں ایک امریکی رکن کانگریس آنجہانی جان کانیرز John Conyersنے افریقی امریکیوں کیلئے تلافی کمیشن ایکٹ یاCommission to Study Reparation Proposals for African-Americans Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں سے پیش کیا تھا۔ بل کے ابتدائئے میں اسکا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 1619 سے 1865 کے دوران 13 امریکی ریاستوں (ابتدائی اکائیاں جنھوں نے USAی بنیاد رکھی) میں سیاہ فام لوگوں کو غلام بناکر رکھا گیا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے اور یہ پوری نسل بدترین ناانصافی کاشکار ہوئی۔ ان جرائم کی تحقیق کیلئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو غلام بناکر امریکہ لائے جانیوالے افریقیوں کے نقصانات کا اندازہ لگائے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آزاد انسانوں کی نفسیات پر غلامی کی ذلت نے کیا منفی اثر ڈالا ہے؟ غلامی ختم ہونے کے بعد بھی سیاہ فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے جسکے اثرات اج تک نمایاں ہیں۔ یہ کمیشن ناانصافیوں اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے اور اسکی تلاقی کیئے اقدامات تجویز کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ افریقیوں کا غلام بنانے کے ذمہ دار صرف وہ قزاق نہیں جنھوں نے افریقیوں کو انکے گھروں سے پکڑا بلکہ ملک میں قائم غلام منڈیوں کو امریکی حکومت کا تحٖفظ حاصل تھا اور غلاموں کی خرید و فروخت کے بعد انکا انتقالِ ملکیت سرکاری دستاویز پر ہوتا تھا چنانچہ اس بدترین ظلم کی ذمہ داری براہ راست امریکی کانگریس اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
مسٹر کونئرز کی قرارداد کو سپیکر نے منظور کرکے اسے بل کی شکل میں HR-40کی حیثیت سے درج کرلیا۔ اسوقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس ہے لیکن اسے سماعت کیلئے پیش نہیں کیا گیا بحث اور رائے شماری تو دور کی بات ہے۔ہر دوسال بعدبار یہ قراداد کانگریس کی مدت ختم ہوجانے پر غیر موثر ہوجاتی ہےْ تاہم جناب کانئیرز بھی بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ انکا عزم تھا کہ یہ قرارداد اسوقت تک پیش کی جاتی رہیگی جب تک اسے منظور نہیں کرلیا جاتا۔ بتیس سال گزرجانے کے بعد بھی یہ ذیلی کمیٹی ہی کے پاس ہے اور اسے بحث کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ مسٹر کونیئرزنے آخری بار اسکی تجدید2013 میں کی تھی۔ریپبلکن پارٹی کی اکثریت کیلئے یہ ناقابل قبول ہے۔ بدقسمتی سے 2014 کے انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی ایوان زیریں کے ساتھ سینیٹ میں بھی اقلیتی جماعت بن گئی چنانچہ اس بل کے ایوان میں پیش ہونے کی رہی سہی امیدیں بھی خاک میں مل گئیں۔ جنوری 2018 میں مسٹر جان کونیرز بھی ایک جنسی اسکینڈل میں ملوث ہوکر ایوان نے مستعفی ہوگئے اور اکتوبر 2019 میں تلافی کا ارمان لئے دنیا سے رخصت بھی ہوگئے۔ معلوم نہیں اب اس بل کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ HR-40کو ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکی مسلمان اپنے اپنے حلقے کے رکن کانگریس اور سینٹر پر دباو ڈال سکتے ہیں۔برنی سینیڈرز اور جسٹس ڈیموکریٹس کو چاہے کو اس تاریخی ظلم کی تلافی کا علم بلند کریں اور اس قرارداد کو ایوان میں پیش کیا جائے۔ اگر ووٹنگ کے دوران بل مسترد ہوجائے تو بھی کوئی حرج نہیں کہ کم ازکم اس اہم موضوع پر بحث مباحثہ شروع ہوجائیگا اوریہ ظلمِ عظیم دنیا کے سامنے آشکار ہوگا۔ تفصیلی بحث اور شواہد و ثبوت کے بعد بھی جو اراکان اس مبنی بر انصاف بل کی مخالفت کرینگے انکا متعصبانہ طرز عمل اوراخلاق باختگی کھل کر سامنے آجائیگی۔
No comments:
Post a Comment