شعلہ بیانی اور پس پردہ سفارتکاری
صدر
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دنوں سے
ایران کو نشانہ بنایا ہوا ہے اور اقتدر
سنبھالتے ہی انھوں نے 2015میں ہونے والا والا وہ جوہری معاہدہ منسوخ
کردیا جسکے تحت اقتصادی
پابندیاں ہٹانے کے عوض ایران اپنے جوہری پروگرام کو Roll-backکرنے پر رضامند ہوگیا تھا۔ اس معاہدے پر امریکہ کے علاوہ
سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان اور جرمنی نے دستخط کئے تھے۔ اسی بنا پر یہ
دستاویز 5+1کہلاتی ہے۔
امریکہ نے معاہدے سےالگ ہوتے ہی
ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں جسکی بنا پر دونوں ملکوں کے درمیان
کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس دوران ایران نے امریکہ کا ایک جدید ترین ڈرون بھی
مارگرایا۔
سعودی تیل تنصیبات پر پراسرار ڈرون حملوں کے بعد یہ کشیدگی
خطرناک حد تک بڑھ گئی۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس
اور جرمنی نے الزام لگایا کہ یہ حملہ ایران نے کیا ہے۔ جسکی ایران نے سختی
سے تردید کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ اور انکے ایرانی ہم منصب نے ایکدوسرے
کے خلاف بہت سخت زبان استعمال کی۔ دوسری
جانب امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنی عسکری
قوت کو بھی بڑھانے کا اعلان کیا۔
تاہم اب ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ ایران سے کشدیدگی کم کرنا چاہتا ہے جسکی بڑی وجہ آنے والے امریکی
انتخابات ہیں۔ صدر ٹرمپ انتخابی سال میں
کوئی نئی جنگ نہیں شروع کرنا چاہتے اور
افغانستان سے گلو خلاصی کے راستے تلاش کررہے ہیں۔
27 ستمبر کو اپنے ایک
ٹویٹ میں ایرانی صدر حسن روحانی نے انکشاف کیا کہ امریکا نے مذاکرات کے بدلے ایران پرسے تمام
پابندیاں ہٹانے کی پیشکش کی ہے۔صدر روحانی کا کہناہے کہ جرمنی اور برطانوی حکام کی درخواست پر انھوں نے نیویارک میں امریکی
عہدے داروں سے ملاقات کی اور اس دوران امریکی
حکام نے مذاکرات کے بدلے تمام اقتصادی
پابندیاں ہٹانے کا عندیہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ
کافی دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ایران سے غیر مشروط بات چیت کیلئے تیار ہیں۔ حسن روحانی نے کہا کہ موجودہ گھٹن زدہ اور دباو کے زہریلے ماحول
میں امریکا سے مذاکرات نہیں ہوسکتے اور وہ فی الحال یہ پیشکش قبول کرنے کو تیار نہیں ۔گزشتہ ہفتے ایران کے رہبر
انقلاب حضرت آئت اللہ خامنہ ای نے امریکہ سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا
تھا۔ رہبر انقلاب کا اعلان ایرانی حکومت کیلئے حکم کا درجہ رکھتا ہے اور جب تک حضرت خامنہ ای
اجازت نہ دیں مذاکرات کا کوئی امکان نہیں۔ خیال ہے کہ ایران اس بات پر
اصرار کریگا کہ مذاکرات سے پہلے کچھ پابندیاں ہٹا کر بات چیت کیلئے سازگار
ماحول پیدا کیا جائے۔ جسکی بنیاد پر رہبر انقلاب
بات چیت کی جازت دے سکتے ہیں۔ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ امریکہ ایران
کے اس مطالبے کو تسلیم کرلیگا یا نہیں۔ صدر ٹرمپ کو افغانستان کے معاملے پر پاکستان کے ساتھ ایران کا تعاون بھی درکار ہے اور پس پردہ سفارتکاری کا ایک محرک چچا
سام کی یہ ضرورت بھی ہے۔
No comments:
Post a Comment