سراج الحق کی مجوزہ ترمیم ۔۔ بات تو سچ ہے مگر
بات ہے رسوائی کی
سینیٹر
سراج الحق نے دستو ر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق 213 کی ذیلی شق 2Bمیں ترمیم
کا بل سینیٹ میں جمع کرا دیا ہے۔اسکے پس منظر پر چند سطور:
دستورِ
پاکستان کے مطابق الیکشن
کمیشن چیف الیکشن کمشنر اور ہر
صوبے سے ایک ایک رکن
یا صوبائی الیکشن کمشنر پر مشتمل ہے۔ یہ تقرریاں 5 سال کیلئے ہوتی ہیں۔موجودہ
الیکشن کمشنر 31 دسمبر کو ریٹائر ہورہے
ہیں جبکہ سندھ اور بلوچستان سے وابستہ
ارکان کی نشستیں خالی ہیں۔ یعنی اسوقت الیکشن کمیشن چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمدرضا اور ارکان جسٹس (ر) الطاف ابراہیم قریشی (پنجاب) اور جسٹس
(ر) محترمہ ارشاد قیصر (خیبر پخنونخواہ) پر مشتمل ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان کی نشستیں خالی ہیں۔
چیف
الیکشن کمشنر سمیت تمام ارکان کی تقرری سے
پہلے انکے ناموں کو حکومت اور قائدحزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے۔ لیکن مسئلہ یہ
ہے کہ وزیراعظم قائد حزب اختلاف سے بات چیت تو دور کی بات انکی صورت بھی دیکھنے کے روادار نہیں لہٰذا
ناموں پر اتفاق ممکن ہی نہیں۔24اگست کو صدر پاکستان نے سند ھ اور بلوچستان کیلئے دو ممبران کی تعنیاتی
کر دی تھی جن سے چیف الیکشن کمشنر نے یہ کہہ کر حلف لینے سے انکار کردیا تھا کہ ان
ناموں پر حزب اختلاف سے مشاورت نہیں کی
گئی۔
اب اگر
دسمبر تک چیف الیکشن کمشنر اور دو ارکان
کے ناموں پر 31 دسمبر تک اتفاق نہ ہوسکا
تو یہ اہم ادارہ عملاً مفلوج ہوجائیگا۔ حکومت و حزب اختلاف کے غیر ذمہ دارانہ روئے کے بنا پر اتفاق رائے
کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آتی۔
اس
خطرے کے پیش نظر سراج الحق صاحب نے الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی میں وزیر
اعظم اور اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی کمیٹی کی طرف سے اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت
میں آئین میں ذیلی شق2C شامل کرنے کی
تجویزدی گئی ہے۔ جسکے مطابق وزیر اعظم, اپوزیشن لیڈر اور پارلیمانی
کمیٹی کی طرف سے اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، دو
سینئر جسٹس اور جن صوبوں سے ممبران کی تقرری ہونی ہے ان صوبوں کی ہائی کورٹس کے
چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل ایک جوڈیشل کمیٹی فیصلہ کریگی۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جانب
تجویز کردہ تمام
نام سات دنوں کے اندر جوڈیشل کمیٹی کو
بھیج دئے جائیں گے اورجوڈیشل کمیٹی ان ناموں
کی بنیاد پر تقرر کا فیصلہ کردیگی۔
سراج
الحق صاحب کی تجویز اس اعتبار سے درست ضرور ہے کہ نظام کو بچانے کیلئے اسکے علاوہ
کوئی چارہ نظر نہیں آتا لیکن اس سے ہمارے رہنماوں کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کا اظہار
ہوتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہماری قیادت خود فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور اب یہ رہنما اپنے اختیارات خود ہی دوسروں کے حوالے
کررہے ہیں۔ اس روئے کے ساتھ یہ شکائت غیر
ضروری ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جارہا۔
No comments:
Post a Comment