Thursday, September 26, 2019

مودی و عمران خان کا دورہ امریکہ اور کشمیر


مودی و عمران خان کا دورہ امریکہ اور کشمیر
جمعہ 22 ستمبر کو ہندوستان کے وزیراعظم نریندر مودی اور انکے پاکستانی ہم منصب امریکہ پہنچے۔ عمران خان سعودی طیارے میں نیویارک آئے جبکہ نریندرا مودی کا سرکاری طیارہ توانائی کے عالمی مرکز (Energy Capital)یعنی ہیوسٹن اترا۔ اتفاق سے جس روز شری مودی ہیوسٹن تشریف لائے اس سے ایک دن پہلے یہاں LNGکی ایک 4 روزہ  بین الاقوامی کانفرنس GASTECH2019 ختم ہوئی جسکا اہتمام اسی nrgسینٹر میں کیا گیا تھا جہاں اتوار کو مودی جی نے ہندوستانیوں کے بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ GASTECH میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر پیٹرولیم ندیم بابر کی زیر  قیادت ایک بھاری بھرکم وفد نے شرکت کی تھی۔نریندرا مودی کے دورہ ٹیکسس کو Howdy Modiکا نام دیا گیا۔ احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ امریکہ اور انگریزی بولنے والے معاشروں میں استقبال کیلئے hello! how are you? کہا جاتا ہے۔ اہل ٹیکسس  اپنے مخصوص تلفظ میں Hello اور how are you?  کوملا کر howdyکہتے ہیں۔  مودی کیلئے اپنائیت پیدا کرنے کی غرض سے مقامی ثقافت کا تڑکہ لگایا گیا۔
 ہیوسٹن کی پہچان 14لاکھ مربع فٹ پر مشتمل nrgسینٹر کا تلفظ 'انرجی' کیا جاتا ہے ۔مشہور زمانہ Offshore Technology Conference (OTC)سمیت تمام اہم نمائشیں، کھیل اور اجتماعات یہیں منعقد ہوتے ہیں۔ عیدین کی مرکزی نماذ بھی اسی جگہ اداکی جاتی ہے۔ 
وزیراعظم مودی کی ہیوسٹن آمد کا بنیادی مقصد توانائی کمپنیوں کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات تھا جسے Corporate Summitکا نام دیا گیا۔ اس چوٹی کانفرنس  میں ایکسون موبل ExxonMobil، فرانس کی TOTAL, خدمت رساں ادارے بیکر ہیوز اور شلمبرژے سمیت تمام بڑی کمپنیوں کی اعلیٰ قیادت نے شرکت کی۔ اپنے گزشتہ دورے میں ہندوستانی وزیر اعظم نے آئی ٹی کے شعبے میں صف اول کی 20 سے زیادہ کارپوریشنوں کے سربراہوں سے ملاقات کی تھی جن میں Apple, Amazon, Google, Twitterکے علاوہ امریکہ کے سب سے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور Walmart، بجلی سےچلنے والی کار کمپنی Teslaاوراسلحہ ساز ادارے Lock Heed Martinکے سی او از شامل تھے۔ دختر اول ایوانکا ٹرمپ بھی تھوڑی دیر کیلئے اجلاس میں آئیں اور اعلان کیا کہ اس سال کے آخر میں نریندر مودی نے دنیا بھر کی کارپوریشنوں کاجو سربراہی اجلاس ہندوستان میں طلب کیا ہے اس میں وہ خصوصی طور سے شریک ہونگی۔ عوامی سطح پر بھارت کے چہرے کو مزید ملائم بنانےاور ترقی و خوشحالی کی دھاک بٹھانے کیلئے عوامی جلسے کا اہتما  م بھی کیا گیا۔ جلسے کیلئے ہیوسٹن کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ بھارت تجارتی حجم 140 ارب ڈالر کے قریب جس میں سے 60 ارب کے سودے ٹیکسس میں ہوتے ہیں۔
مودی جی ہندستان کو 5000ڈالر کی معیشت بنانے کا دعویٰ کررہے ہیں جسکے لئے انھیں توانائی کے نت نئے وسائل کی ضرورت ہے۔ ہیوسٹن آتے ہی انھوں نے بھارتی LNGدرآمد کنندہ پیٹرونیٹ (Petronet)اور LNGبنانے والے امریکی ادارے Tellurian کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی جسکے تحت پیٹرونیٹ Tellurian سے 50لاکھ ٹن LNGسالانہ خریدنے کی خواہشمند ہے۔
سیاسی اعتبار سے ہیوسٹن میں ہندوستانی وزیراعظم کی سب سے اہم مصروفیت 22 ستمبر کو nrgسینٹر میں ہندوستانی امریکیوں سے خطاب تھاجس میں امریکی صدر ٹرمپ اور ٹیکسس سے امریکی سینیٹ کے دونوں اراکین یعنی سینٹر جان کورنن (John Cornyn)اور ٹیڈ کروز(Ted Cruz) نے شرکت کی۔ریاست ٹیکسس ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسندوں کا گڑھ ہے۔ یہاں کے گورنر، دونوں  سینیٹر اور 36میں سے 23 ارکان کانگریس کا تعلق ر یپبلکن پارٹی سے ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی ہسپانوی اور مسلم آبادی کی وجہ سے سیاسی جغرافیہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ 2018 کے وسط مدتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی کارکردگی بہت بہتر رہی تھی اور رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق 2020کے انتخابات کے حوالے سے ریپبلکن پارٹی دباو میں ہے جب  صدر ٹرمپ کے ساتھ سینیٹر کورنن کو بھی ووٹروں کا سامنا ہے۔
ہندوستانیوں نے گزشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کی پرجوش حمائت کی تھی اور ریپبلکن پارٹی نے ٹیلی ویژن پر 'اب کی بار ٹرمپ سرکار' کے عنوان سے ہندی میں ایک اشتہار بھی جاری کیا تھا۔ اب اس حمائت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ہندوستان کے کئی مندروں نے صدر ٹرمپ کے بت  بھی تراشے ہیں۔ nrgمیں ہونے والی تقریب پر ریپبلکن پارٹی کے انتخابی جلسے کا گمان ہوا۔ جب صدر ٹرمپ اور نریندرا مودی ہاتھوں  میں ہاتھوں ڈالے وسیع و عریض اسٹیج ہر ٹہل کر ہاتھ ہلارہے تھے اسوقت ہال پس منطر میں  بندے ماترم کی موسیقی کے ساتھ ابکی بار ٹرمپ سرکار کے نعروں  سے گونج رہا تھا۔ ٹیکسس صدر ٹرم  کے سیاسی مستقبل کیلئے بے حد اہم ہے کہ اب یہ 38 انتخابی یا electoral ووٹوں کے ساتھ کیلیفورنیا کے بعد دوسری بڑی ریاست ہے  جسے کھوکر ریپبلکن پارٹی کیلئے وہائٹ ہاوس جیتنا بہت مشکل ہے۔امریکہ میں ہندوستانی سفیر کی کوششوں کا کمال کہ ریپبلکن پارٹی کے اس 'اجتماع' میں ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والےہیوسٹن کے رئیس شہر سلویسٹر ٹرنر اور امریکی کانگریس میں پاکستانی پارلیمانی گروپ کی سربراہ محترمہ شیلا جیکسن لی بھی موجود تھیں۔ رئیس شہر نے مہمان کو شہر کی روائتی کنجی بھی پیش کی۔
وزیراعظم مودی کے دورہ امریکہ کی کامیابی میں کسی بھی مرحلے پر مرلےمکبھی  کوئی شبہہ نہ تھا۔ اسکی بنیادی وجہ اسلام مخالف نظریات پر صدر ٹرمپ اور ہندوستانی وزیراعظم کا کامل اتفاق ہے۔ یہ دونوں رہنما قوم پرست اورگہرےمذہبی رجحان کے حامل ہیں۔اپنی تقریر کے دوران جب صدر ٹرمپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے حوالے سے مشترکات کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں اسلامک ٹیررازم(Islamic Terrorism) کا ذکر کیا تو مجمع فرط مسرت سے بے قابو ہوگیا۔ نریندرا مودی نہ صرف تالی بجانے کیلئے کھڑے ہوگئے بلکہ وہ  اچھلتے نظر آئے۔ انکا خوشی سے گلنار چہرہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
وزیراعظم مودی نے لکھی ہوئی تقریر میں نہ صرف ہندوستان کا روشن چہرہ پیش کیا بلکہ  نئے ہندوستان کی تصویر کشی کرتے وقت وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئے کہ کشمیر کی صورتحال کی بنا پر وہ نہ تو کسی پریشانی یا دباو کا شکار ہیں اور نہ ہی یہ مسئلہ انکے سرپر سوار ہے۔ اپنی 50 منٹ کی تقریر میں انھوں نے 2منٹ سے بھی کم وقت کشمیر پر صرف کیا اور وہ بھی 'نئے ہندوستان' کے پس منظر میں۔ کشمیر تک پہنچنے سے پہلے انھوں نے ہندوستانیوں کو آگاہ کیا کہ مودی سرکارعوام کی بھلائی یا ویلفیر کے ساتھ خراب روایات اور قوانین کوالوداع (Farewell) کہہ رہی ہے۔ انھوں نے بہت سے ان غیر ضروری قوانین کے خاتمے کا ذکر کیا جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے مودی جی بہت جذباتی انداز میں بولے ایسی ہی farewell پارٹی آئین کے آرٹیکل 370 کے اعزاز میں بھی سجائی گئی جو جموں و کشمیر اور لداخ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ اور وادی میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہا تھا۔ انھوں نے صدر ٹرمپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 'اس فیصلے سے دقت ان لوگوں کو ہورہی ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھل رہا۔ ان لوگوں نے بھارت سے نفرت کو اپنی سیاست اور حصول اقتدار کی بنیاد بنایا ہے۔ یہ بدامنی پھیلا تے اور دہشت گردوں کو پالتے پوستے ہیں۔ دنیا انھیں جان چکی ہے۔ امریکہ کا 9/11ہو یا بمبئی کا 26/11 سب کے تانے بانے اور ڈانڈے وہیں ملتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ انسانیت دشمن  دہشت گرد اور انکے سرپرستوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کا وقت آچکا ہے۔ انھوں امریکی صدرکو مخاطب کرتے ہوئےکہا کہ مسٹر ٹرمپ! دہشت گردی کے خلاف آپکے ثبات و قرار کو میں دل کی گہرائیوں سےخراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ اس موقع پر مودی جی کی درخواست پر سارے مجمع نے کھڑے ہوکر صدر ٹرمپ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اپنی تقریر کے اختتام پر بارگاہ ٹرمپ میں گلہائے عقیدت نچھاور کرتے ہوئے مودی جی بولے کہ مول تول کے حوالے سے صدر ٹرمپ مجھے good negotiatorکہتے ہیں لیکن  حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فن معاہدہ یا Art of Dealکے ماہر ہیں اور میں ان سے بہت کچھ سیکھ رہا ہوں۔ تعریف کے خوگر  ٹرمپ نریندرا مودی کا یہ جملہ سن کر پھڑک اٹھے۔
نریندرا مودی کی اس تقریب کی ریاستی حکومت، ریپبلکن پارٹی اور خود صدر ٹرمپ کی جانب سے جو پزیرائی کی گئی اسکی بنیادی وجہ تو وہ مسلم مخالف بیانیہ ہے جس پر ریپبلکن پارٹی اور امریکہ کے قدامت پسند دل وجان سے ہندوستان، مودی اور بی جے پی کے حامی ہیں۔ اسکے علاوہ بھارت کی پھلتی پھولتی منڈی اور بھاری بھرکم معیشت دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو بے حد پرکشش محسوس ہو رہی جسے مودی صاحب5ہزار ارب ڈالر تک لے جانے کاعزم رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ بحرالکاہل اور بحر ہند میں چینی بحریہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے بھی امریکہ کو بھارت کی ضرورت ہے۔ جلسے میں صدر ٹرمپ نے بہت فخر سے اعلان کیا کہ اس سال نومبر میں  ہندوستان اور امریکہ کی بحریہ، فضائیہ اور بری افواج تاریخ کی پہلی tri-servicesمشترکہ مشقیں کرینگی۔
نظریاتی ہم آہنگی، اقتصادی مفادات اور مشترکہ عسکری حکمت عملی اپنی جگہ لیکن کشمیر ی بیانئے اور پاکستان کی بے وقعتی میں بڑا ہاتھ حکومت اور پاکستانی وزارت خارجہ کا بھی ہے۔ اپنے گزشتہ دورے میں پاکستانی وزیراعظم نے جو رویہ اختیار کیا وہ کسی طور مناسب نہ تھا۔انکے طرز عمل سے صاف ظاہر تھا کہ عمران خان وزیراعظم کے بجائے تحریک انصاف کے سربراہ کی حیثیت سے امریکہ آئے ہیں۔ نریندرا مودی کی طرح کارپویشنوں کے سربراہان سے ملنے کے بجائے پاکستانی تاجروں کے نام پر انھوں نے تحریک انصاف کے رہنماوں  سے ملاقاتیں کیں اورگفتگو بھی 'انجمن ستائش باہمی' کے اجلاس سے زیادہ کچھ نہ تھی۔ امریکی دارالحکومت ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہے۔ اسکی دونوں مضافاتی ریاستیں میری لینڈ اور ورجنیا میں ڈیموکریٹس کا زور ہے۔ دونوں ریاستوں کے چاروں سینیٹر ڈیموکریٹ ہیں اور ارکان کانگریس کی اکثریت بھی صدر ٹرمپ کی مخالف ہے۔ اس علاقے میں  اسلام فوبیا سمیت تمام نفرت انگیر بیانیوں کے بارے میں منفی رائے پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کی میئر موریل باوزر Muriel Bowser صدر ٹرمپ کی سخت مخالف ہیں اور ٹرمپ مودی دوستی کی بناپرانھیں ہندوستان بھی بہت زیادہ پسند نہیں۔ اگر موریل صاحبہ سے بروقت رابطہ کیا جاتا توواشنگٹن  کا جلسہ عام مئیر کی جانب سے استقبالیہ بن سکتا تھا لیکن اسکے لئے عمران خان کو سنجیدگی اختیار کرنی پڑتی جبکہ انھیں کنٹینر پر کھڑے ہوکر فی البدیہہ تقریرزیادہ پسند ہے۔
اگر عمران خان کے واشنگٹن اور مودی کے ہیوسٹن خطاب کا موازنہ کیا جائے تو یہاں بھی فرق بہت واضح  ہے۔ اگرچہ مودی جی نے بھی اپنے مخالفین کا نام لئے بغیر ان پر طنز کے تیر داغے اور  دوسری مرتبہ کامیابی پر روائتی سیاست دانوں کی طرح شیخی بگھاری لیکن انکی پوری تقریر  بھارت کے ترقی و کمال کی مثبت کہانی تھی۔ حتی کہ انھوں نے ٹوائلیٹ کی تعمیر کا ذکر کرتے ہوئے مطلع کیا کہ اب 99 فیصد ہندوستانیوں کو سینیٹری کی بنیادی سہولتں فراہم کی جارہی ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر کے آغاز میں ہندوستانیوں کو خوشخبری دی کہ 'دیش میں سب اچھا ہے' اسکے بعد انھوں نے یہ جملہ پنجابی، گجراتی، مراٹھی، بنگالی، ملیالم سمیت بھارت کی تقریباً ہر زبان میں دہرائی۔ ملک کو درپیش پریشانیوں کا ذکر تو کیا لیکن اسکے بعد ساری گفتگو حکومت کے اصلاحی اقدامات اور روشن مسقبل کے بارے میں تھی۔ باربار وہ ہندی کے ساتھ انگریزی میں کچھ ایسے نعرے دہراتے رہے جس سے ہندوستاں کے بارے میں مثبت تاثر ابھرا مثلا Aiming high and achieving higher یا 'آپ دیش سے دور ہیں لیکن آپکی سرکار آپکے قریب ہے کہ نیا انڈیا Digitalانڈیا ہے'۔امریکہ سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے اسے 'مشترک خواب اور پرجوش مستقبل' قراردیا۔
اسلے مقابلے میں عمران خان کی تقریر سے تاثر ابھرا تھا کہ ڈاکو سارا قومی خزانہ چٹ کرچکے ہیں اور لوگ خوشی و خوشحالی کا خواب دیکھنے کے بجائے سخت فیصلوں کی کڑوی گولیاں حلق سے اتارلیں کہ ان پر چینی چڑھانے کیلئے بھی قومی خزانے میں پیسے نہیں۔ وہ اپنی تقریر میں اچھے مستقبل کی خوشخبری دینے کئ بجائے مخالفین کو نشان عبرت بنانے کی دھمکی دیتے رہے۔ ایک ایک کو بند کرنے، نواز شریف کے سیل کا ACاتارنے، مولوی ڈیزل کے احتساب اور NO NROکا پہاڑا پڑھتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ مقامی میڈیا نے انکے جلسے کو کوئی کوریج نہ دی کہ انکی تقریر میں مقامی قارئین اور ناظرین کی دلچسپی کیلئے کچھ بھی نہ تھا۔ حتٰی کہ مقامی صحافیوں کیلئے وزیراعظم کی تقرئر کے انگریزی ترجمے کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ اسکے برعکس نریندرا مودی کے ہندی خطاب کے  رواں انگریزی اور ہسپانوی ترجمے کا موثر بندوبست کیا گیا تھا۔
پاکستان کے تعلق سے نریندرامودی کے جلسے کا سب سے روشن پہلو nrgسینٹر کے باہر کشمیر کی حمائت میں زبردست عوامی مظاہرہ تھا جس کیلئے شہر کی تمام مساجد سے بعد فجر بسیں روانہ ہوئیں۔ ٹیکسس کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور قرب و جوار کے لوگ اس مظاہرے میں شرکت کیلئے گھنٹوں کا سفر کرکے ہیوسٹں آئے۔ پاکستانی و کشمیروں کیساتھ اس مظاہرے میں  عرب، فلسطینی، افریقی، بنگالی اور ہندوستانی مسلمانوں کیساتھ نہ صرف مقامی امریکی بھی بڑی تعداد میں شریک ہوئے بلکہ سیکیولر و لبرل مزاج امریکی بھی سخت گرمی میں نعرہ زن رہے۔ ہم جنس پرست LGBTکے کارکنان بھی کشمیریوں سے یکہتی کیلئے موجود تھے۔ سکھوں میں زبردست جوش و خروش پایا گیا۔ شہر کی ٹرانسپورٹ پر سکھ حضرات کا خاصہ اثر ہے۔ کئی ہفتوں سے کشمیر اور خالصتان کے بینر و بورڈ آویزاں کئے درجنوں ٹرک سارے شہر میں تشہیری مہم چلاتے رہے۔ مصروف شاہراہوں پر ہندوستانی مظالم کے خلاف بڑے بڑے بل بورڈ نصب کئے گئے تھے اور سارے شہر میں جگہ جگہ کارنر میٹنگ منعقد کی گئیں۔
ٹیکسس کا جلسہ اور صنعتکاروں سے ملاقات تو ہندوستان کی معاشی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے لیکن پاکستانیوں کیلئے عمران خان اور نریندرا مودی کے دورے کا اصل مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہے۔ عمران خان کشمیریوں کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنےرکھنے کیلئے پرعزم ہیں جبکہ مودی کی حکمت عملی اس معاملے پر بحث کو غیر موثر بنانا ہے۔ سفارتی جنگ دراصل بیانئے کی لڑائی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ کشمیر میں بدامنی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے دنیا کا امن خطرے میں پڑسکتا ہے جنکہ ہندوستانی بیانئے کے مطابق یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے جہاں دراندازی کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال 'کچھ' خرب ہوگئی ہے اور اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کیلئے دہلی  موثر اقدامات کررہا ہے۔ بدقسمتی سے اومان کے علاوہ پاکستان کے سارے خلیجی اتحادی بھی بھارت کے موقف کے درست سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اقوم متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی UNHRC میں قرارداد ہی پیش نہیں کی کہ شکست کا خوف تھا حالانکہ رائے شماری سے پہلے بحث مباحثے کے دوران ہندوستانی مظالم سے دنیا کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ آگاہ کرنے کا یہ اچھا موقع تھا۔ اب اگر اسلام آباد UNHRCمیں قرارداد پیش کرنے کی ہمت نہ کرسکا تو سلامتی کونسل میں تو اسکی نوبت آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں ہندوستان کے اتحادی ویٹو سے مسلح بیٹھے ہیں۔ بقول حضرت انور مسعود
تمہاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اور اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سوہماراہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑوگے
تمہارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 ستمبر
2019

No comments:

Post a Comment