نئی پیٹرولیم پالیسی ، مبہم ترجیحات
روائت کے عین مطابق ملک کیلئے نئی پیٹرولیم پالیسی ترتیب جارہی ہے۔ چند ہفتہ
پہلے وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم
جناب ندیم بابر نے ٹیلی ویژن
پر کامران خان کو پالیسی کے بنیادی خدوخال سے آگاہ کیا۔ ندیم
بابر صاحب کے مطابق:
·
گزشتہ دس سالوں کے دوران حکومت کی
جانب سے تیل و گیس کی صنعت کو یکسر نظر انداز کیا گیا جسکی وجہ سے تیل و گیس کی تلاش و ترقی کیلئے کسی نئے علاقے(بلاک) کی نیلامی نہیں ہوئی۔
·
گزشتہ دس سالوں کے دوران تیل و گیس کی کوئی غیر ملکی کمپنی قسمت آزمائی و
سرمایہ کاری کیلئے پاکستان نہیں آئی بلکہ اس عرصے میں کئی غیر ملکی ادارے ملک چھوڑ گئے۔
فاضل مشیر نے مستقبل کیلئے جس نئی حکمت عملی کا ذکر فرمایا وہ کچھ اس طرح ہے:
·
موجودہ بندوبست کے مطابق وزارت
پیٹرولیم کا کنسیشن ڈائریکٹوریٹ المعروف DGPCتلاش و ترقی کیلئے معاہدہ کرتا ہے اور پھر نہ صرف معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی بھی DGPC کی ذمہ داری ہے بلکہ تنازعے کی صورت میں سزا کا تعین بھی DGPCکی صوابدید پر ہے۔ ندیم بابر صاحب کے مطابق DGPC نےمدعی، گواہ، منصف اور محتسب کی
ٹوپیاں بیک وقت اپنے سر پر سجائی ہوئی ہیں جو کسی طور مناسب نہیں۔ مشیر
باتدبیر کے خیال میں یہ مفادات کا
صریح ٹکراو یا Conflict of Interestہے جسکی نئی پالیسی میں اصلاح کی جارہی ہے۔
·
تیل وگیس کے شعبے میں نئے سرمایہ کاری لانے کیلئے اگلے دوماہ کے دوران وزارت
پیٹرولیم کا ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد یورپ اور شمالی امریکہ (امریکہ اور کینیڈا)
جائیگا جہاں تیل و گیس کمپنیوں کی قیادت سے ملاقات کرکے ان اداروں کو پاکستان
میں تیل و گیس کی تلاش کی طرف راغب
کیا جائیگا۔
·
اس دورے
کے بعد اس سال دسمبر یا اگلے سال کے آغاز میں کچھ نئے بلاک نیلامی کیلئے پیش کئے جائینگے۔
·
گیس کی ضرورت پوراکرنے کیلئے نجی شعبے کو LNGکی درآمد میں سہولت فراہم کاجائیگی۔ ندیم بابر صاحب نے کہا
کہ نجی اداروں کو LNGپلانٹ قائم کرنے
کیلئے 5 لائیسنس جاری کئے گئے ہیں۔غیر ملکی کمپنیاں اپنے خرچ پر باہر سے LNGمنگائینگی اور اپنے پلانٹ
پر انھیں قدرتی گیس میں تبدیل کرکے
SNGC, SSGCکو یا خام LNGبجلی کے کارخانوں کو
فروخت کرینگی۔ پلانٹ کی تنصیب اورLNGکی خریداری پر
زرمبادلہ سمیت حکومت کا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوگا۔
ہمارے خیال میں LNGکی درآمد کے پانچ لائیسنس کے اجرا سے ملک کے اندر گیس کی
تلاش و ترقی کےکام کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اسوقت ملک میں گیس کی کم سے کم طلب (off peak)6ارب مکعب فٹ اور زیادہ سے زیادہ (peak) 7 ارب مکعب فٹ روزانہ ہے۔
قطر سے درآمد ہونے والی LNGکا حجم 1یک سے ڈیڑھ ارب مکعب فٹ یومیہ ہے۔ پاکستان LNGلمیٹڈ ٹینڈر کے بعد 20 کروڑ مکعب فٹ LNGکیلئے معاہدے کو
آخری شکل دے رہی ہے اور امید ہے کہ سردی کے آغاز سے پہلے اضافی LNGکی فراہمی شروع
ہوجائیگی۔
گزشتہ دنوں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی جناب فواد چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ ملک میں بجلی
کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہے اور ٹی وی پروگرام میں ندیم بابر صاحب نے اس
بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے
ملکی کمپنیوں سے گیس کی خریداری میں کچھ
کمی کردی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق
اگلے سال ملک کو زیادہ سے زیادہ
ساڑھے چھ ارب مکعب فٹ گیس یومیہ کی ضرورت
ہوگی۔
ایشیا میں LNGکی قیمتیں دباو میں ہیں اور خبررساں ادارے بلومبرگ کا خیال
ہے کہ آجکل LNGگزشتہ سترہ ماہ کی کم
ترین سطح پر فروخت ہورہی ہے۔ چند ماہ پہلے9 ڈالر فی Million British Thermal Unitیا Mbtuبکنے والی LNGاب 5.80ڈالر فی Mbtuدستیاب ہے۔
جن نئے LNGپلانٹ کے لائیسنس
جاری کئے جارہے ہیں انکی مجموعی گنجائش
ڈھائی ارب مکعب فٹ روزانہ کے قریب ہے۔
پلانٹ لگانے والے بیرونی سرمایہ کار spot marketسے انتہائی سستی LNGخرید سکتے ہیں جہاں سودا کسی معاہدے کے بغیر نقد ادائیگی پر
دست بدست ہوتا ہے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ
درآمدی گیس یہاں نکا لے جانیوالی گیس سے سستی ہوجائے۔ اگر ایسا ہوا تو ملک کے اندر
گیس کی تلاش پر منفی اثر پڑیگا۔ کمی کو پورا کرنے کیلئے عارضی طور پر گیس کی درآمد
تو درست ہے لیکن ندیم بابر صاحب کی باتوں،
حکومت کی تیاریوں اور LNGدرآمد کی حوصلہ افزائی سے ایسا لگ رہا ہے کہ مستقبل میں
ایندھن کیلئے درآمدی LNGپرانحصار کیا جائیگا جو کسی طور مناسب نہیں۔
فاضل مشیر کو شائد یہ نہیں
معلوم کہ تیل و گیس کی پاکستانی صنعت
تجربے اور استعداد کے اعتبار
سے دنیا میں اگر پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ
صدی کی پانچویں دہائی میں جب یورپ گھروں کو گرم رکھنے کیلئے کوئلے جلاتا تھا
ہماری خواب گاہیں قدرتی گیس سے حدت حاصل کرتی تھیں۔ دنیا کو تیل وگیس کی تلاش وترقی کے طریقے سجھانے والے اگر درآمدی گیس کو اپنی پیٹرولیم پالیسی کی
بنیاد بنائیں تو اسے ایک المئے کے سوا اور
کیا کہا جاسکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment