نفرت کی چنگاری محبت کے پھول
گزشتہ دنوں اسلامک سوسائیٹی آف نارتھ
امریکہ (ISNA)نے اپنا سالانہ اجتماع ہیوسٹن میں منعقد کیا۔ اسنا نے گزشتہ
برس بھی ہیوسٹن کو اپنے سالانہ کنونشن کیلئے
منتخب کیا تھا۔ حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA)بھی اپنا علاقائی اجتماع ہیوسٹن میں
منعقد کرتی ہے۔
اس اجتماعات پر ٹیکسس
(TEXAS) کے انتہاپسندوں کو شدید تشویش ہے۔
انکا خیال ہے کہ اجتماع کی آڑ میں دہشت گردی کیلئے عطیات جمع کئے جاتے ہیں۔ ہر بار اجتماع گاہ کے باہر انتہاپسندوں کا مظاہرہ ایک مستقل
فیچر ہے۔ امریکہ میں چونکہ اسلحے کی نمائش پر کوئی پابندی نہیں اسلئے بہت
سے مظاہرین مسلح بھی ہوتے ہیں۔9/11کے بعد سے نفرت کی جو مہم جاری ہے اس سے مسلمانوں کے اندر استقامت
کے ساتھ صبر وبرداشت میں خاصہ اضافہ ہوگیا ہے اور ' ڈرو مت لیکن لڑو مت' کی حکمت عملی
خاصی کامیاب نظر آرہی ہے۔
ٹیکسس میں گزشتہ دنوں
فائرنگ کے جو واقعات ہوئے تھے اسکی بنا پر پولیس کو بھی تشویش تھی۔ تاہم تین دنوں کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور صرف 15 سے 20 مسلح افراد سڑک کے کنارے
اسلامی شریعت کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ کچھ کے ہاتھوں میں قرآن کے نسخے تھےاور وہ لوگ آنے جانے والوں کو جہاد کے بارے میں آیات دکھاکر
ڈرارہے تھے۔
اس بار ایک خوشگوار تبدیلی بھی نظر آئی اور وہ مسلمانوں کے
حق میں بائیں بازوکے امریکیوں کا مظاہرہ
تھا۔ سوشلسٹ مظاہرین بھی مسلح تھے اور
انکا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے جمہوری حقوق کے تحفظ کیلئے سخت گرمی میں اپنے
گھروں سے نکلے ہیں۔،مظاہرے کا اہتمام
ہیوسٹن سوشلسٹ تحریک (HSM)، ڈیموکریٹک سوشلسٹ امریکی پارٹی (DSA)اور قومی جمہوری مزدورمحاذ (NDWA)نے کیا تھا جسکی قیادت گلے میں AK-47رائفل لٹکائے 64 سالہ ڈیوڈ اسمتھ کررہے تھے۔ اسمتھ صاحب سیاسیات کے استاد اور ریٹائڑد فوجی ہیں۔ انکے ساتھ
ایک مسلح نوجوان بھی سارا وقت پہرہ دیتا
رہا۔ پروفیسر اسمتھ کا کہنا تھا کہ میں ایک
راسخ العقیدہ مسیحی ہوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگانے والے یہ افراد
میرے مذہب کی نمائندگی نہیں کرتے۔ امریکی
آئین کے تحت ہر شہری کو اجتماع کا حق حاصل ہے اور ہم مسلمان شہریوں کے ان حقوق کے تحفظ کیلئے یہاں کھڑے ہیں۔
No comments:
Post a Comment