Thursday, November 12, 2020

امریکی صدارتی انتخابات

امریکی صدارتی انتخابات

امریکی تاریخ کے دھماکہ خیز 'عام' یا Popularانتخابات اپنے انجام کو پہنچے۔تادم تحریر صدر ٹرمپ نتائج تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں اور وہ ڈیموکریٹک پارٹی پرانتخاب  چوری کرنے کا الزام لگارہے ہیں۔ ہم نے انتخابات سے پہلے قوسین میں عام اسلئے لکھا ہے کہ 3 نومبر کو جو اعصاب شکن معرکہ برپا ہوا اسکی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور اصل انتخاب 14 دسمبر کو ہوگا۔'اصل' انتخابات کی تفصیل مضمون کے اختتام پر پیش کی جائیگی۔ آگے بڑھنے سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے عرض ہے کہ ان انتخابات میں تینوں مسلمان ارکانِ کانگریس نے اپنی نشستیں برقرار رکھیں۔ انڈیانا اسے آندرے کارسن، مینسوٹا سے محترمہ الحان عمر اور مشیگن سے رشیدہ طلیب نے 65 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ الحان اور رشیدہ کو مسلم مخالف گروپوں نے خصوصی ہدف بنایا تھا۔ صدارتی انتخاب جیتنے کے باوجود پارلیمانی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ سینیٹ پر ریپبلکن کی بالادستی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ ایوان نمائندگان پر ڈیموکریٹس کی برتری شائد  برقرار رہے لیکن انکا پارلیمانی حجم سکڑتا نظر آرہا۔ کانگریس کے حوالے سے گفتگو انشا اللہ آئندہ کسی نشست میں۔

جہاں تک انتخابی نتائج پر تنازعے کا تعلق ہے تو یہ امریکہ میں پہلا واقعہ نہیں۔2000 کے انتخابات میں بھی اسی قسم کا ہنگامہ کھڑا ہوا لیکن اُس بار معاملہ صرف ریاست فلورڈا تک محدود تھا جب85 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جارج بش کو اپنے حریف ایل گور پر ایک لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔رات دس بجے ابلاغ عامہ کے اداروں نے فلورڈا سے جارج بش کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ اسوقت فلورڈا کیلئے مختص الیکٹرل ووٹوں کی تعداد 25 تھی چنانچہ جارج بش کا  مجموعی اسکور 271 ہوگیا جو کامیابی کے ہدف یعنی 270 سے 1 زیادہ تھا۔ نتائج دیکھ کر ایل گور نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور جارج بش کے رقص کرتے حامی سڑکوں پر آگئے۔ دوسری طرف گنتی جاری رہی اور صبح چار بجے جب یہ مرحلہ مکمل ہوا تو جارج بش کی برتری صرف 2000 رہ گئی جبکہ ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی گنتی ابھی باقی تھی۔ اس اطلاع پر ایل گور نے اعترافِ شکست واپس لے لیا اور دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے شروع ہوگئے۔ باقی ماندہ ووٹ شمار کرنے پر فرق 500 سے بھی کم رہ گیا۔انتخابی ضابطے کے تحت اگر ووٹوں کا فرق نصف فیصد سے کم ہو تو دوبارہ گنتی ہارنے والے امیدوار کا حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایل گور نے چار کاونٹیز کے ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا جبکہ جارج بش کا موقف تھا کہ ساری ریاست کے ووٹ دوبارہ شمار کئے جائیں اور وقت بچانے کیلئے گنتی مشین سے کی جائے۔ معاملہ ریاستی سپریم کورٹ میں گیا۔ قانون کی رو سے دسمبر کی 12 تاریخ تک نتائج کا مکمل ہونا ضروری تھا۔ عدالتی کھینچ تان میں 10 تاریخ آگئی اور ایل گور نے یہ کہہ کردوبارہ گنتی کی درخواست واپس لے لی کہ' ایل گور کے صدر نہ بننے سے کوئی قیامت نہیں آجائیگی لیکن امیدواروں کے درمیان جھگڑے اور بے ایمانی کے الزامات سے اگرامریکی نظامِ انتخابات مشکوک قرارپایا تو دنیا کا امریکی جمہوریت پر سے اعتماد ختم ہوجائیگا' سرکاری نتائج کے مطابق جارج بش نے فلورڈا کا معرکہ 537 ووٹ یا 0.0009فیصدسے جیت لیا۔

 حالیہ انتخابی تنازعہ اس اعتبار سے بہت سنگین ہے کہ معاملہ صرف گنتی کا نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کو ووٹنگ کے سارے نظام پر اعتراض ہے۔ اس بار کرونا وبا کی وجہ سے تقریباً 40فیصد رائے دہندگان نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے۔ ساری دنیا کی طرح ضعیف، معذور اور ملک سے باہر رہنے والے امریکی شہریوں کو  ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جسکے لئے ووٹروں کو  معقول وجہ کیساتھ درخواست دینی ہوتی ہے۔ لیکن وبا کے پیش نظر ڈاک ووٹنگ کیلئے اکثر ریاستوں میں شرائط ساقط کردی گئیں اور کئی ریاستوں نے درخواست کے تکلف کے بغیر تمام رجسٹرڈووٹروں کو بیلٹ پیپر ڈاک کے ذریعے بھیج دئے۔

صدر ٹرمپ کو اس بندوبست پر سخت اعتراض تھا۔ امریکی صدر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیرانتظام ریاستیں بڑے پیمانے پر خالی بیلٹ پیپر بھیج کر جعلی ووٹ بھگتائینگی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ مجرم پیشہ لوگوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو بیلٹ پیپر بھیجے جارے ہیں۔ ریاستوں کی انتظامیہ نے صدر کے ان اعتراض کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلٹ یپپر ووٹر رجسٹریشن کی شناخت کے بعد بھیجے جارہے ہیں اور واپس آنے والے ہر لفافے کو  رائے دہندہ کے دستخط کی تصدیق کے بعد کھولاجائیگا۔ دستخط کی تصدیق اور پرچہ انتخاب کی گنتی مشاہدین (observers)کی موجودگی میں ہوگی۔ صدر ٹرمپ کو ایک اور اعتراض پوسٹل بیلٹ کی وصولی پر تھا۔ امریکی صدر کا اصرار تھا کہ صرف انھیں پوسٹل بیلٹ کو شمار کیا جائے جو روزِ انتخاب یعنی 3 نومبر تک متعلقہ کاونٹی کے انتخابی دفتر پہنچ جائیں۔ صدر کے اس مطالبے کو تمام ریاستوں نے مسترد کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ جو پرچہ انتخاب 3 نومبر کو شام سات بجے سے پہلے حوالہ ڈاک کردیا گیاان سب کو شمار کیا جائیگا۔ اس سلسلے میں گزشتہ انتخابات کی مثال دی گئی جہاں بیرون ملک  تعینات امریکی فوجی اور سفارتی عملے کے پوسٹل بیلٹ کیلئے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا ہے۔ اپنی فریاد لے کر صدر ٹرمپ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ صدر نے اپنی درخواست میں خدشہ ظاہر کیا کہ ڈاک کے ذریعے انتخابات سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خطرہ لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے صدر کی درخواست کو قبل ازمرگ واویلا قراردیتے ہوئے کہا کہ ریاستوں نے رائے دہندگان کی تصدیق کی جو ضمانتیں دی ہیں ان سے عدالت مطمئن ہے۔  اگر گنتی کےدوران درخواست گزار کو  بے ضابطگی کا مشاہدہ ہو تو وہ عدالت کو شکایات کی بر وقت سماعت کیلئے تیار پائینگے۔

اسکے باوجود صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے انتخاب پر خدشات کا اظہار کرتے رہے اور انتخابی جلسوں میں انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ پوسٹل بیلٹ کے بجائے پولنگ اسٹیشن جاکر ووٹ ڈالیں اور ڈیموکریٹس کی متوقع بے ایمانی پر نظررکھنے کیلئے پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے رہیں۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بد عنوانی کے خدشے کے علاوہ صدر ٹرمپ پوسٹل بیلٹ کے اسلئے بھی خلاف تھے کہ انتخاب کے دن پولنگ مراکز کے ویران ہونے سے کرونا وبا کی شدت کا احساس ہوگا۔ انکا موقف ہے کہ مخالفین نے انھیں ہرانے کیلئے کووڈ 19 کا ہوا کھڑا کررکھا ہے ورنہ حکومت کی شاندار حکمت عملی کے نتیجے میں یہ وباخاتمے کے قریب ہے۔اپنی تقریروں میں انھوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ طبیب و معالج  پیسے کمانے کیلئے کرونا سے مرنے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔

اکتوبر کے وسط میں قبل از وقت یا Earlyووٹنگ کا آغاز ہوا۔ کچھ ریاستوں میں یہ سلسلہ ستمبر کے آخر سے  شروع کردیا گیا۔ اس بار معمول سے بہت زیادہ انتخابی مراکز قائم کئے گئے تھے بلکہ کئی جگہ Drive-inپولنگ کا بھی انتظام تھا جہاں ووٹر ATMمشین کی طرح اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اکثر گرجا گھروں، مساجد، مندروں اور گورواروں کوپولنگ مرکز بنایاگیا۔کئی مقامات پر 24 گھنٹے ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس بار پوسٹل بیلٹ اور قبل از وقت ووٹنگ میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور 3 نومبر سے پہلے ہی گیارہ کروڑ ووٹروں نےاپنے حق رائے دہی کا استعمال کرلیا جن میں پوسٹل بیلٹ کا تخمینہ ساڑھے چھ کروڑ تھا۔ 2016 میں کل 13 کروڑ 50 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے۔

اب آتے ہیں امریکہ کے سیاسی و نظریاتی جغرافیہ کی طرف جس سے قائین کو متحارب جماعتوں کی حمکت عملی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ امریکی سیاست روائتی نوعیت کی ہے اوراکثر ریاستوں میں کسی ایک جماعت کو کئی دہائیوں سے برتری حاصل  ہے۔ صدارتی انتخاب چونکہ الیکٹرل کالج کے ذریعے ہوتے ہیں اس لئے جن ریاستوں میں فتح یقینی ہو وہاں ووٹ بڑھانے کی کوئی سعی نہیں کی جاتی کہ  الیکٹرل ووٹ کیلئے بس جیتنا ضروری ہے۔ ووٹوں کے تناسب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اگر آپ امریکہ کے نقشے پر نظر ڈالیں کو بحراوقیانوس کے کنارے شمال میں کینیڈا کی سرحد پر ریاست مین سے جنوب میں ورجینیا تک ڈیموکریٹک پارٹی کا زور ہے۔ ان ریاستوں میں نیویارک، نیوجرسی، میسیچیوسیٹس، امریکی دارالحکومت واشنگٹن، میری لینڈ، نومنتخب صدر جو بائیڈن کی ریاست ڈیلویئر، وورمونٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مغرب میں بحرالکاہل کا ساحل بھی ڈیموکریٹس کا گڑھ ہے جہاں کیلیفورنیا، اوریگن، ریاست واشنگٹن اوراسی کے ساتھ جوئے کا عالمی مرکز نواڈا ہے۔

دوسری طرف خلیج میکسیکو کے ساحل سے شمال میں کینیڈا تک کا وسطی علاقہ نیو میکسیکو اور کولوریڈو کے استثنٰی کے ساتھ ریپبلکن کا قلعہ ہے۔ گرم مرطوب موسم کی بناپرجارجیا سے ٹیکسس تک کے جنوبی حصے کو  سن بیلٹ Sun Beltکہاجاتا ہے۔ نظریاتی شناخت کے حوالے سے اس علاقے کو  بائیبل بیلٹ Bible Beltبھی کہتے ہیں۔ شمال میں وسط مغرب کا علاقہ نظریاتی اعتبار سے لبرل و آزاد خیال ہے۔

امریکی انتخابات میں عام طور سے فلورڈا، شمالی کیرولینا، اوہایو، ورجینیا اور نیوہیمپشائر میں گھمسان کا میدان سجتا ہے۔ شمال مشرق میں نیویارک سے وسط مغرب تک  پینسلوانیا، مشیگن اور وسکونسن کی ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں جنھیں ڈیموکریٹس فخر سے نیلی دیوارکہتے ہیں۔ 2016 میں صدر ٹرمپ نے یہ تینوں ریاستیں جیت کر نیلی دیوار کو زمیں بوس کردیا تھا اور ان اسی کامیابی نےجناب ٹرمپ کیلئے قصر مرمریں کا دروازہ کھولاتھا یا یوں کہئے کہ ہاتھی ڈیموکریٹک قلعے کی نیلی دیوار کو روندتا ہوا وہائٹ ہاوس پہنچ گیا۔

بوسیدہ نیلی دیوار کی تعمیر نو 2020کیلئےڈیموکریٹس کا بنیادی ہدف تھا۔ اسکے علاوہ انکی نظریں جنوبی سن بیلٹ میں فلورڈا، جارجیا اور شمالی کیرولیناپر بھی تھیں۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی  یہ تھی کہ 2016 میں جیتی جانیوالی ریاستوں پر گرفت مضبوط رکھی جائے چنانچہ انکی پوری توجہ نیلی دیوار اور فلورڈا پر تھی۔

انتخابی مہم کے دوران جوبائیڈن نے کرونا وائرس کے بے قابو پھیلاو کو صدرٹرمپ کی نااہلی کاشاخسانہ قراردیا۔ اس نامراد وائرس سے ڈھائی لاکھ امریکی ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ کے قریب افراداس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ خود صدر ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن علاج کے بعد جلد  شفایاب ہوگئے۔ جسکے بعد انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے امریکی عوام کو تسلی د ی کہ کرونا ایسا بھی مہلک نہیں جیسا یہ سائنسدان بیان کررہے ہیں۔ اسے سرپرسوار کرنے کے بجائے اس ناسور کو میری طرح حوصلےسے شکست دو۔تاہم عام امریکی صدر کی طفل تسلی سے مطمئن نہ ہوئے بلکہ اکثریت نے صدر کے روئے کو غیر ذمہ دارانہ قراردیا۔

کرونا کے بعد دوسرا بڑا انتخابی نکتہ سیاہ فاموں اور رنگدار امریکیوں سے پولیس کو امتیازی سلوک ہے جسے عمرانیات کے علما ادارہ جاتی نسل پرستی یا Systemic Racismکہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رنگداروں کے خلاف منظم تعصب کا مسلسل انکار کرتے رہے۔ اسی طرح ہسپانوی تارکین وطن سے بدسلوکی اور معصوم بچوں کو والدین سے علیحدہ کرکے پنجرے نماحراستی مراکز میں ٹھونسنے پر بھی  صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

صدر ٹرمپ کی شکست میں بہت سے عوامل نے کردار اداکیا ہے لیکن غالب خیال ہے کہ  ٹرمپ سرکارکو کرونا چاٹ گیا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بات سامنے آئی کہ امریکیوں کی اکثریت کووڈ 19 سے نبٹنے کیلئے امریکی حکومت کی  حکمت عملی کو غیر موثر اور اس معاملے میں صدر کو غیر سنجیدہ سمجھتی ہے۔ امریکیوں کاخیال ہے کہ کرونا سے زندگی اور اسباب زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔  لوگوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ مستقبل قریب میں وبا مزید مہلک ہوجائیگی۔

کرونا کے حوالے سے عوام کا اضطراب انکے ووٹ ٖڈالنے کے انداز سے بھی نمایاں  تھا کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے پوسٹل بیلٹ کی سہولت استعمال کی اور ہجوم سے بچنے کیلئے early voting مراکزکا رخ کیا۔ نتائج کے تجزئے سے یہ دلچسپ مشاہدہ بھی سامنے آیا کہ پوسٹل بیلٹ استعمال کرنے والے ستر سے اسی فیصد لوگ جو بائیڈن کے حامی تھے اور اسی تفاوت کو جناب ٹرمپ دھاندلی کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔

ٹیکسس اور اوہایو میں پوسٹل بیلٹ پہلے  گنے گئے اور جوبائیڈن نے صدر ٹرمپ پر واضح برتری حاصل کرلی لیکن جب 3 نومبر کو ڈالے جانیوالے ووٹ کی گنتی شروع ہوئی تو جو بائیڈن کی برتری بتدریج ختم ہوگئی اور امریکی صدر نے ان دونوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کرلی

اسکے برعکس پنسلوانیہ، مشیگن، ایریزونا اور وسکونسن میں پہلے 3 نومبر کو ڈالے جانے والے ووٹوں کے نتائج جاری ہوئے اور صدر ٹرمپ نے لاکھوں ووٹوں کی برتری حاصل کرلی۔ منگل کو نصف شب تک ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ان ریاستوں سے ڈیموکریٹس کا صفایا ہوگیا۔ لیکن رات تین بجے کے بعد جب پوسٹل بیلٹ کی گنتی شروع ہوئی تو پانسہ ایک دم پلٹ گیا۔ پہلے صدر ٹرمپ کی برتری ختم ہوئی اور آخر کار ان تمام ریاستوں میں جوبائیڈن نے کامیابی حاصل کرلی۔ پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں کاونٹی کے مرکزی انتخابی مرکز کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر کے فرزند ایرک ٹرمپ نے کہاکہ 80 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے تک پنسلوانیا میں میرے والد کو 5لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل تھی اور اب ہر نئے اعلان میں 80 سے 85 فیصد ووٹ جو بائیڈن کے حق میں نکل رہے ہیں۔ا نھوں نے سوال کیا کہ پوسٹل بیلٹ پنسلوانیا کے شہریوں کے ہیں یا نئے ووٹ آسمان سےنازل ہو رہے ہیں کہ ٹریند ہی تبدیل ہوگیا۔نتائج کی ایسی کایہ پلٹ ہمیں بھی مشکوک لگ رہی ہے۔ ایرک ٹرمپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ پوسٹل بیلٹ گنتے وقت ریپبلکن پارٹی کے مشاہدین کوگنتی کی میز سے 20 فٹ دور جانے کیلئے کہا گیا۔ کاونٹی حکام کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ کرونا کے حفاظتی اقدامات تھے۔

انھیں شکوک و شبہات کی بنیاد پر صدر ٹرمپ نے نتایج کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ مشیگن، وسکونسن، جارجیا اور ایریزونا میں دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہے ہیں۔ انکے قانونی مشیروں کا کہنا کہ پانچ ریاستوں میں انتخابی عذرداری داخل کی جارہی ہے جن میں انتخابی نظام کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائینگے۔ اسی کیساتھ صدرکے وکلا نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ بھی دیا جہاں پورے انتخابی مرحلے کی عدالتی چھان بین کی درخواست کی جائیگی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی رفقا سے کہا ہے کہ دھاندلی اور فراڈ کیخلاف وہ عوامی مہم چلانے کے بارے میں بھی غور کررہے ہیں۔

تادم تحریر صدر ٹرمپ نے انتخابی عذرداری دائر نہیں کی لیکن 9 نومبر کو مختلف ریاستوں کے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے اٹارنی جنرلوں کی انجمن نے امریکی سپریم کورٹ میں عدلیہ کے 'خیرخواہوں' کی حیثیت سے ایک درخواست جمع کرائی ہے   جس میں فاضل جج صاحبان سے امریکی انتخابات میں ہونے والی مبینہ بدعنوانیوں کا نوٹس لینے کی استدعا کی گئی۔ امریکی عدالتیں از خودیا سوموٹو نوٹس نہیں لیتیں۔ تاہم قومی اہمیت کے معاملے پر عدالت سے توجہ کی درخواست دی جاسکتی ہے جسے قانونی اصطلاح میں amicus briefکہتے ہیں۔

صدرٹرمپ کی عذرداریوں کا کیا نتیجہ نکلے گا اسکا جواب تو علمائے قانون ہی دے سکتے ہیں لیکن ضابطے کی رو سے تمام تنازعات کا 8 دسمبر سے پہلے تصفیہ ضروری ہے جسکے چھ دن بعد وہ 'اصل' انتخاب ہونا ہے جسکا ذکر ہم نے مضمون کے آغاز میں کیا اور گفتگو ختم کرتے ہوئے اسی موضوع پر چند سطور  

امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے اور صدر کا چناو ایک کلیہ انتخاب یا Electoral Collegeسے ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج میں وفاق کی  تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کوانکی ابادی کے مطابق نمائندگی دی گئی اور ہر ریاست سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے لئے جتنے رکن منتخب کئے جاتے الیکٹرل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کیلئے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اسوقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کردئے جاتے ہیں جنھیں Electorsکہا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران ریاست میں زیادہ ووٹ لینےوالے امیدوار کے electors انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر پنسلوانیا میں ڈیموکریٹس نے میدان مارلیا ہے لہٰذا اسکے تمام کے تمام 20 نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرزہیں

14 دسمبر کو  ریاستی صدر ہائےمقام  اوروفاقی دارالحکومت واشنگٹن میں الیکٹرز صدر و نائب صدر کیلئے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی۔ 33 ریاستوں میں الیکٹرل اسی امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انھیں نامزد کیا ہے جبکہ دوسری ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ کی قابل فخر جمہوری روائت ہے کہ گزشتہ 244 سال کے دوران ایک بار بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ جب الیکڑرز نے خیانت کی ہو۔

ریاستوں کے کلیہ ہائے انتخاب سے پولنگ اور گنتی کے مصدقہ نتائج بند لفافے میں چیئر مین سینیٹ (نائب صدر) کو بھیج دیئے جائینگے۔ واشنگٹن میں ان نتائج کی وصولی کی آخری تاریخ 23 دسمبر ہے۔چند دہائی پہلے تک ریاستوں سے الیکٹرل کالج کے منقش بیلٹ بکس خصوصی بگھیوں کے جلوس میں وفاقی دارالحکومت پہنچائے جاتے تھے۔ اب یہ تکلف ختم ہوگیا اور  ڈاک کے ذریعے لفافے بھیج دئے جاتے ہیں۔

6 جنوری 2021 کو کانگریس کے دونوں ایوان کا مشترکہ اجلاس ہوگا۔نائب صدر مائک پینس جو سییٹ کے سربراہ بھی ہیں، ہرریاست کے لفافے کھول کر الیکٹرل کالج کے ووٹوں کی تفصیل سنائیگے۔ ایک ایک ریاست کے ووٹ گننے کے بعد نائب صدر نتائج کا اعلان کرینگے جو صدارتی انتخاب کا سرکاری اور حتمی اعلان ہوگا اور20 جنوری کو واشنگٹن کے عظیم الشان جلسہ عام میں امریکی سپریم کورٹ کے سینئر جج نائب صدر اور قاضی القضاۃ نومنتخب صدر سے حلف لینگے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 نومبر


2020

 

No comments:

Post a Comment