ایرانی تیل پر پابندی ۔ متضاد خبریں
امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمد
کتنی موثر ہے اسکے بارے میں متضاد خبریں آرہی ہیں۔ پابندی سے پہلے ایران 24 لاکھ
بیرل یومیہ برآمد کرتا تھا۔ چین، ہندوستان، جاپان اور جنوبی کوریا ایرانی تیل کے
بڑے گاہک ہیں جبکہ کم مقدار میں ترکی اور اٹلی بھی ایرانی تیل خریدتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق گزشتہ ماہ ایران سے یومیہ پیدوار کا تخمینہ صرف 3 لا کھ بیرل ہے۔ خبررساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جون میں برآمدات مزید کم ہوگئی ہیں اوراس ماہ کے پہلے 24 دنوں میں ایران نے مجموعی طور پر صرف 57 لاکھ بیرل تیل برآمد کیا یعنی 2لاکھ 37 ہزار بیرل روزانہ۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق گزشتہ ماہ ایران سے یومیہ پیدوار کا تخمینہ صرف 3 لا کھ بیرل ہے۔ خبررساں ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ جون میں برآمدات مزید کم ہوگئی ہیں اوراس ماہ کے پہلے 24 دنوں میں ایران نے مجموعی طور پر صرف 57 لاکھ بیرل تیل برآمد کیا یعنی 2لاکھ 37 ہزار بیرل روزانہ۔
گزشتہ ہفتے CNNسے باتیں کرتے ہوئے
انڈین آئل کارپوریشن کے سربراہ سنجیو سنگھ نے کہا کہ ہندوستان اب اپنی ضرورت کا
تیل سعودی عرب اور امریکہ سے خرید رہا ہے۔ اب ایشیا میں امریکی تیل کی فروخت کوئتی
خام تیل سے زیادہ ہوچکی ہے جبکہ یورپ کیلئے امریکہ LNG کا سب سے بڑا فراہم
کنندہ بن چکاہے۔ جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی ایرانی تیل کی خریداری بند کردینے
کی تصدیق کی ہے۔لیکن معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔ امریکہ کے خفیہ اداروں اور
Rotterdamکے
آڑھتیوں کا خیال ہے کہ ایران اب بھی 20 لاکھ بیرل تیل یومیہ
برآمد کررہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران، چین ، جاپان اور ہندوستان کو
انتہائی پرکشش قیمتوں پر تیل فراہم کررہا ہے اور ادائیگی کیلئے کسی تیسرے ملک کے
ایجنٹ کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔یعنی ہنڈی اور حوالہ مافیا یہاں بھی سرگرم ہے۔
چین امریکی پابندیوں کو بظاہرنظر انداز
کررہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق مئی کے مہینے میں چین نے ایران سے 59 کروڑ ڈالر
کا تیل خریدا جسکی ادائیگی چینی کرنسی میں کی گئی۔ خبر گرم ہے کہ ترکی بھی ایرانی
تیل رعائتی قیمتوں پر خریدرہا ہے۔ہندوستان نے 'بظاہر' ایرانی تیل کی خریداری بند کردی
ہے لیکن وہ امریکہ سے استثنیٰ کیلئے درخواست کررہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک
پومپیو کے حالیہ دورہ ہندوستان میں انکے ہندی ہم منصب شری سبرامنیم جئے شنکر نے
دہائی دی کہ ایرانی تیل پر پابندی سے ہندوستانی معیشت دباو میں ہے اورا سکی شرح
نمو متاثر ہورہی ہے۔ G-20 سربراہی اجلاس کے
موقع پر صدر ٹرمپ سے ملاقات میں مودی جی نے اپنے ملک کا مقدمہ بہت عمدہ طریقے پر
پیش کیا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت سے ہندوستانی صنعت
کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جس سے ملک کی دفاعی استعداد بھی متاثر ہوگی۔ اس
معاملے کے سیاسی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے نریندر مودی نے افغانستان سے امریکی فوجی
انخلا کے تناظر میں دلی تہران تعلقات کی اہمیت واضح کی۔ ہندوستانی وزیراعظم نے کہا
کہ طالبان نے ایران سے اپنے تعلقات خاصے بہتر کرلئے ہیں اور اس موقع پر ہندوستان
ایران قریبی تعلقات افغانستان میں استحکام کیلئے بے حد ضروری ہیں۔اپنے مسلم مخالف بیانئے
کی بناپر مودی جی ٹرمپ کے لاڈلے ہیں اورہندوستانی وزارت خارجہ پر امید ہے ایران سے
تیل کی خریداری کیلئے ہندوستان کو استثنیٰ مل جائیگا۔
جولائی
کے وسط تک ایرانی تیل کی برآمدصفر کردینے کے امریکی عزم کو اکثر تجزیہ نگار خوش فہمی
قراردے رہے ہیں۔ چین ایرانی تیل معمول کے مطابق خرید رہا ہے اور اگر چچا سام نے
ہندوستان کو استثنا دیدیا تو ایران صرف ان دونوں ممالک کو 18 سے 20 لاکھ بیرل تیل روزانہ
فروخت کرسکتا ہے۔ رعائتی قیمت پر تیل کی فروخت اور ایجنٹوں کے ذریعے ادائیگی کا سب
سے بڑا نقصان تو ایران کوہے لیکن اس نئے بندوبست سے صدر ٹرمپ کے خلیجی احباب بھی خوش
نہیں جن کے منہہ میں یہ سوچ کر ہی پانی آرہا تھا کہ ایرانی تیل کی بندش کے بعد
انھیں 24 لاکھ بیرل اضافی تیل فروخت کرنے کا موقعہ ملے گااور رسد کے عدم استحکا م
کے نتیجے میں دام بڑھنے سے کمائی دوچند ہوجائیگی ۔ اسی توقع پر سعودی ارامکو نے کروڑوں
ڈالر خرچ کرکے پیداواری گنجائش میں 10سے12 لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کیا تھا لیکن
اب اضافی فروخت یا قیمتوں میں اضافہ تو ایک طرف ایرانی تیل پر 10 سے 15 فیصدرعائت
نے تیل کی موجودہ قیمتیں بھی غیر مستحکم ہوگئی ہیں۔ تیل کے ٹینکروں پر حملے اور
ایران امریکہ کشیدگی کی بنا پر گزشتہ 10 روز کے دوران تیل کی قیمتوں میں 6
ڈالرکا
اضافہ ہوا ہے لیکن خیال ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے تک تیل کی قیمتیں 55 ڈالر فی
بیرل کے نشان سے نیچے اجائینگی۔
No comments:
Post a Comment