بڑے لوگوں میں مماثلت
انگریزی میں کہتے ہیں Great Minds think
alike۔اسی طرح بڑے لوگوں کی آزمائش کا
انداز بھی خاص نوعیت کا ہوتا ہے۔ آج جناب
ڈاکٹر محمد مورسی کا جسد خاکی سرکار کی تحویل میں ہے اور تدفین کی اجازت نہیں ۔ ڈر ہے کہ کہیں جنازے پر بڑا ہجوم نہ اکھٹا
ہوجائے
کچھ ایساا معاملہ مورسی اور ہم جیسے کروڑوں لوگوں کے امام حضرت حسن البنا کی
شہادت کے وقت پیش آیا۔ مذاکرات کیلئے
بلاکر 12 فروری 1949 کو انھیں گولی ماردی گئی جسکے بعد سارے شہر میں کرفیو تھا۔ فوج کی نگرانی میں شہید کی لاش انکے گھر پہنچادی گئی۔ انکے غمزدہ والد نے اس
حکم کے ساتھ لاش وصول کی کہ 2 گھنٹے میں تدفین ہوجائے۔ باپ نے میت کوغسل تو دیدیا
لیکن گھر میں میت کو کاندھا دینے والا کوئی اور مرد نہ تھا۔ شہید کے والد، پھوپھی
، بہن اور چھوٹے لڑکے نے جنازہ گھر کے
قریب قبرستان پہنچایا اور باپ نے اپنے لخت
جگر کو اپنی بہن اور بیٹی کی مدد سے قبر میں اتارا۔ جسکے بعد خواتین واپس
چلی گئیں اور باپ نے اپنے کم عمر پوتے کے
ساتھ مٹی سے قبر کو بھردیا۔
70 برس بعد ایک بار پھر وہی صورتحال
ہے۔ محمد مورسی زندگی بھر اللہ کے دشمنوں
کیلئے خوف کا سبب بنا رہااور اب اسکی بے جان لاش نے ان بے ضمیر قاتلوں کی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ بے شک ساری تعریفیں صرف اور صرف اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment