Friday, June 14, 2019

ضمیر کا بوجھ


ضمیر کا بوجھ   
صدر ٹرمپ کی ترجمان یا پریس سکریٹری سارہ سینڈرز اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئیں ہیں۔  3 بچوں کی والدہ  36 سالہ سارہ  سینڈرزجولائی 2017 سے صدر ٹرمپ کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ امریکہ صدر کو اخلاقیات چھوکر نہیں گزری۔ موصوف  مغلوب الغضب  اور بہت جلد مشتعل ہوجانے والے آدمی ہیں ۔ تکبر سے چور ٹرمپ جب غصے میں آجائیں تو انکی شعلہ بیانی سننے کے ساتھ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ انکی اوصاف حمیدہ کی سب سے منفرد چیز دروغ بیانی ہے۔ وہ جھوٹ اس کثرت اور ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ سننے والا شرمندہ و لاجواب  ہوجاتا ہے۔ ہم نے سنا تھا کہ جادو سرچڑھ بولتا ہے لیکن صدر ٹرمپ کی زبان پر جھوٹ  خود اپناہی  سر پیٹ  لیتا ہے۔
ایسی شخصیت کی ترجمانی آسان نہیں ۔یہی وجہ ہے صدر ٹرمپ کے پہلے ترجمان شان اسپائسر  صرف 6 ماہ انکے ساتھ چل سکے۔ سارا کی طویل رفاقت کی وجہ موصوفہ کی صدر ٹرمپ سے نظریاتی ہم آہنگی ہے۔مسلم مخالفت   صدر ٹرمپ  کا طرہ امتیاز ہے اور اس فکر کے لوگ صدر ٹرمپ کو بے حد پسند ہیں۔ وزیرخارجہ مائک پومپیو، مشیر قومی سلامتی جان بولٹن، سارا سینڈرز اور انکے نائب    راج شاہ  اسکی روشن مثالیں ہیں۔
مسلم مخالفت اور قدامت پسند ی  سارا کو ورثے میں ملی ہے۔ انکے والد مائک ہکابی Michael Huckabeeبھی  مسلم مخالف  قدامت پسند  مسیحی پادری ہیں۔63 سالہ ہکابی ریاست ارکنسا Arkansasکے سابق  نائب گورنر،گورنر اور امریکی گورنرز ایسوسی ایشن کے صدر رہ چکے ہیں۔انھوں نے دو بار صدارتی انتخاب کیلئے بھی قسمت آزمائی کی لیکن ریپبلکن پارٹی کا ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
سارہ کی سیاسی تربیت  انکے والد نے خود کی ہے جسکی بناپر محترمہ بھی ایک مذہبی قدامت پسند سیاستدان ہیں جو مسلمانوں ، ہسپانیوں اور رنگدار لوگوں کے خلاف بولتے ہوئے اخلاقیات وغیرہ کا کوئی لحاظ نہیں کرتیں۔ شائد یہی وجہ ہے انھوں نے دوسال تک  صدر ٹرمپ  کی ترجمانی بہت اخلاص سے فرمائی اور امریکی صدر کے ہر جھوٹ کا ڈھٹائی سے دفاع کرتے ہوئے  کبھی کبھار مذہب  کا تڑکہ بھی لگایا۔
غیر قانونی ہسپانوی پناہ گزینوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک پر امریکیوں کو بھی تشویش ہے۔ گرفتاری کے دوران بچوں کو والدین سے الگ رکھا جاتا ہے۔ چند ماہ پہلےایک غیر قانونی تارکِ وطن کا بیمار  بچہ ٹھیک سے دیکھ بھال نہ ہونے پر انتقال کرگیا۔ جب  روزانہ کی بریفنگ کے دوران سارہ سے اس سلسلے میں سوال ہوا تو محترمہ نے سپاٹ لہجے میں کہا کہ 'انجیل مقدس میں قانون کی پاسداری پر بہت زوردیا گیا ہے'
اسی طرح فحش فلموں کی ایک اداکارہ کے ساتھ صدرٹرمپ کے تعلقات اور زباں بندی کیلئے اس حسینہ کو رقم کی ادائیگی پر سوال ہوا تو سارہ سینڈرز نے برملا سفید جھوٹ  بولدیا کہ صدر ٹرمپ کے اس لڑکی کے تعلقات کی خبر جھوٹ اور fake mediaکی شر انگیزی ہے۔ کچھ ہفتے بعد صدر کے ذاتی وکیل نے رقم کی ادائیگی کی تصدیق کردی۔ موصوف دوغِ حلفی (Lie under oath)کی پاداش میں آجکل جیل کی ہوا کھارہے ہیں۔
کہا جاتا ہےکہ جھوٹ کی تکرار سے محترمہ اپنے ضمیر پر بوجھ محسوس کررہی تھیں۔ دروغ بر گردنِ  راوی سارہ کے ہمدردوں نے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ صدر کی دوغ گوئی کو چھپانے کیلئے جس دھڑلے سے جھوٹ بول رہی ہیں اس سے وہ خود بھی مشکل میں پڑ سکتی ہیں کہ امریکی صدر کی ترجمان کے سرکاری بیان کی حیثیت بیان حلفی کی ہے جسکے جھوٹ ثابت ہونے پر وفاقی عدلت میں مقدمہ بن سکتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 94 دنوں سے وہاٗئٹ ہاوس کی پریس بریفنگ معطل ہے حالانکہ اس دوران چین سے تجارتی جنگ، امریکہ ایران کشیدگی، میکسیکو پر ڈیوٹی عائد کرنے کی دھمکی جیسے سنسنی خیز واقعات پرامریکہ کے صحافتی حلقے ساراسینڈرز کی جانب سے تفصیلی بریفنگ کی توقع کررہے تھے۔
 کل سارا سینڈرز کی موجودگی میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ انکی پریس سکریٹری نے استعفٰی دیدیا ہے اور وہ 30 جون سے سبکدوش ہوجائینگی۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے  سارا نے کہا کہ انکے بچوں کو کل وقتی ماں کی ضرورت ہے اور وہ خانگی امور پر توجہ دینے کیلئے گھر واپس جارہی ہیں ۔ ساتھ  ہی انھوں نے سیاست میں حصہ لینے اور آرکنسا کی گورنری کیلئے قسمت آزمائی کا عندیہ بھی دیا تاہم انکے قر یبی حلقوں کا خیال ہے کہ غلط اقدامات اور جھوٹ کے دفاع پر  ضمیر کی ناقابل برداشت خلش عہدے سے علیحدگی کا سبب بنی ہے۔
 خیال ہے انکے نائب راج شاہ اب  صدر کے نئے پریس سکریٹری ہونگے۔ 33 سالہ شاہ صاحب کے والد بمبئی سے یہاں  آئے تھے۔مسلم و پاکستان مخالف راج شاہ  ریپبلکن پارٹی میں   Opposition Researchکے ذمہ دار ہیں اور صدرکے مخالفین پر نظر رکھنا انکی بنیادی ذمہ داری ہے۔ قدامت پسند نظریات کی بنا پر شاہ صاحب  صدر ٹرمپ کے ساتھ مائک پومپیو  اور جان بولٹن کے بھی بہت قریب ہیں ۔  امریکہ میں انسانی حقوق کیلئے کام کرینوالے اس   مثلث  کے متوقع شر سے پناہ مانگ رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment