بچوں کے بیگار کیمپ
خلیجی
ممالک غیر ملکی تارکین وطن سے بد سلوکی کیلئے
مشہور ہیں۔ کوئت، سعودی عرب، بحرین ، اومان اور متحدہ امارات کے چھاپے اور ناکے تارکین وطن کو خواب میں بھی دہشت زدہ رکھتےہیں۔
اب خلیج
عرب کی طرح خلیجِ میکسیکو کے ساحلوں پر بھی ایسی ہی
صورتحال ہے۔ تاہم فرق یہ ہے کہ خلیی ریاستو ں میں گرفتار ہونے والے افراد کو
خراب ہی سہی لیکن پیٹ بھر کر کھانا میسر
ہے جبکہ یہاں یہ 'عیاشی 'میسر نہیں۔خلیج میکسیکو یعنی ٹیکسس (Texas)میں گرفتار ہونے والے بچے بیگار کیمپوں میں رکھے جارہے ہیں۔
شیرخوار بچوں کو بھی والدین سے الگ رکھا جارہا ہے۔ انکے لئے ٹین کے دیواروں اور خاردار تاروں والے بیرک بنائے گئے ہیں جہاں چھت کیلئے تمبو نصب ہیں۔ احباب اندازہ
کرسکتے ہیں کہ 105درجہ فارن ہائٹ (105 deg F)میں گرمی کا کیا حال
ہوتا ہوگا۔
ان کیمپوں میں نومولود سے 18 برس کے بچے اور بچیاں بند ہیں۔ نہ کھانے کا مناسب انتظام ہے اور اور نہ ٹھنڈے پانی کا۔ 'قیدیوں'
کو صابن، ٹوتھ پیسٹ تو ایک طرف چھوٹے بچوں
کیلئے ڈائپر بھی میسر نہیں۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کیمپ کے اندر کیا
صورتحال ہوگی۔ ان بچوں نے کئی دنوں سے نہ منہہ دھویا ہے اور پیٹ بھر کے کھانا
کھایا ہے۔کیمپوں کی خراب صورتحال دیکھ کر ملک سرحد پر نظر رکھنے والے ادارے Customs & Border Protection Agency یا CBPکے سربراہ جان سینڈرز نے استعفےٰ دیدیا۔
لیکن صدر ٹرمپ کے خیال میں اصل غلطی ان تارکینِ وطن کی ہے
کہ یہ لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ آئے ہی کیوں؟؟ کاش کوئی ان
نسل پرستوں سے پوچھنے کی ہمت کرتا کہ آپ کے آباواجداد کو امریکہ آنے کیلئے کس نے
ویزا جاری کیا تھا؟ بقول آنجہانی ایڈورڈ کینڈی کشتیوں میں سوار ہوکر بلاویزا امریکہ آنے
والوں کی اولاد وں نے اس آزاد ملک کے
کھلے کواڑوں کو مقفل کردیا ہے۔
خیر یہ تو ایک سیاسی جملہ تھا لیکن ننھے بچوں سے اس بدسلوکی پر انسانی حقوق کی تنظیموں
کی مجرمانہ خاموشی افسوسناک ہے۔
No comments:
Post a Comment