اسرائیل کی مذہبی سیاست
اسرائیل
کے صدر ریوون رائیون Riven) (Reuven نے
اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) تحلیل کرکے 17 ستمر کو نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ پارلیمنٹ کے انتخابات 9
اپریل کو ہوئے تھے جس میں کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی تاہم توقع تھی
کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی وزیراعظم بنجامن نیتھن یاہو المعروف بی بی قدامت
پسند، متعصب اور جنگجو جماعتوں کے ساتھ مل
کر حکومت بنالینگے لیکن ایسا نہ ہوسکااور اب دنیاکی نظریں نئے انتخابات پر ہیں۔
بی بی نے گزشتہ انتخابات کا اعلان بھی قبل ازوقت کیا تھا۔ان
انتخابات سے پہلے حکمران لیکڈ قومی لبرل تحریک کے پاس 120 کے ایوان میں 30 نشستیں
تھیں۔ لیکڈ نے 5 مذہبی، قوم پرست اور فرقہ وارانہ جماعتوں کے ساتھ مل کر 67 نشستیں
اکھٹی کیں اور حکومت بنالی۔ اتحادیوں کی جانب سے بلیک میلنگ اور علیحدگی کی
دھمکیوں کے باوجود نیتھن یاہو فلسطینیوں کا ہوا کھڑا کرکے اپنا راج برقرار رکھنے
میں کامیاب رہے۔ لالچ و خوف کی اسی حکمت عملی کی بناپر موصوف 2009 سے وزیراعظم
ہیں۔
9 اپریل کے انتخابات میں لیکڈ پارٹی 35 نشستیں لینے میں
کامیاب ہوگئی اور انکے سابق اتحادیوں نے ایک بار پھر انھیں اپنی حمائت کا یقین دلایا
چنا نچہ اسرائیلی صدر نے بی بی کو حکومت سازی کی دعوت دےدی۔
امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا درالحکومت
تسلیم کئے جانے، مقبوضہ گولان کا اسرائیل میں انضمام، فلسطینی اراضی
پر اسرائیلی بستیوں کے منصوبے کی امریکہ کی جانب سے غیر مشروط حمائت، سعودی
عرب، اومان اور متحدہ عرب امارات سے غیر اعلانیہ مگر واضح سفارتی مراسم کی بناپر
انھیں قدامت پسندوں کی جانب سے بھرپور حمائت کی توقع تھی۔ شروع میں تمام اشارے انکے لئے بے حد مثبت تھے۔
لیکن ' یہودی مولویوں' اور انکے ایک اہم
اتحادی
اسرائیل مادر وطن پارٹی Yisrael Beitein کے درمیان
تنازعہ اتنا بڑھا کہ بی بی کیلئے کسی ایک کو اتحاد سے نکالنے کے علاوہ کوئی راستہ
نہ رہا اور سانجھے کی یہ ہنڈیا چولہے پر چڑھنے سے پہلے ہی پھوٹ گئی۔ اس تنازعے پر
چند سطور قارئین کی دلچسپی کیلئے۔
اسرائیل میں لازمی
فوجی خدمت کا قانون نافذ ہے یعنی ہر
اسرائیلی لڑکے کو 2 سال آٹھ ماہ اور لڑکی کو دو سال فوجی خدمات سرانجام دینی
ہوتی ہیں۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد بھی لام بندی قانوں کے تحت ریاست جب چاہے کسی بھی شہری کو فوجی خدمت کیلئے واپس بلاسکتی ہے۔
لازمی فوجی خدمت کے قانون سے حریدی (Heridi) فرقے کے یہودی مستثنیٰ
ہیں۔ حریدی کا عرب و عبرانی تلفظ شریدی ہے
جسے انگریزی میں Ultra-Orthodox Jewsکہا جاتا ہے۔
روائت کے مطابق حریدیوں کے آباواجداد حضرت عیسیٰ (ع) پر سب سے پہلے ایمان لائے تھے۔اس وقت کے یہودیوں نے حضرت مسیح سے جو
توہین آمیز رویہ اپنایا ہوا تھا اسے دیکھ کرحریدی بہت مغموم تھے اور انکے مبلغین
اپنی قوم کو قومِ نوح، عاد و ثمود و لوط کے انجام سے ڈراکر حضرت مسیح کی اطاعت کی
تلقین کرتے تھے۔ حریدی خطیب گزری ہوئی قوموں پر آنے والے اللہ کے عذاب کا ذکر کچھ
اس انداز میں کرتے کہ حاضرین کی ہچکیاں بندھ جاتیں اور لوگ دیر تک اللہ کے خوف سے لرزتے اور کانپتے رہتے۔ عبرانی
انجیل یا کتابِ عیٰسی میں خوف آخرت سے
کانپتے اور لرزتے ہوئے لوگوں کو حریدی کہا گیا ہے جسکا عبرانی زبان میں مطلب خوف سے
لرزنے والے ہے۔ حضرت عیسیٰ کے ان مخلص ساتھیوں کی اولاد وقت گزرنے کے ساتھ اصل
پیغام بھلاکر یہودی ہوگئی لیکن یہ ابھی تک حریدی ہی کہلاتے ہیں۔ اسرائیل کی یہودی
آبادی میں حریدیوں کا تناسب 10 فیصد کے قریب ہے۔
حریدی خود کو
توریت اور احکامات ربانی یا تلمود (Talmud)کا وارث سمجھتے ہیں اور انکے یہاں
ہر مرد کیلئے توریت و تلمود کی تعلیم فرض
سمجھی جاتی ہے۔ درس و تدریس کیلئے مخصوص مدارس ہیں جہاں طلبہ ٹاٹ پر بیٹھ کر توریت
حفظ کرتے ہیں۔ ان مدارس کو Yeshivaکہا جاتا ہے۔ Yeshiva کے معنی ہی ہیں زمین پر
بیٹھنا۔
حریدی اسرائیلی
سیاست میں بھی بے حد سرگرم ہیں۔ دونوں حریدی جماعتیں یعنی شاس پارٹی (Shas Party) اور متحدہ
توریت پارٹی (UTJ) نیتھں یاہو کی
پرعزم اتحادی ہیں۔ تحلیل شدہ کنیسہ میں ان دونوں جماعتو ں کا مجموعی پارلیمانی
حجم 16 تھا۔
ادھر
کچھ عرصے سے حریدیوں کیلئے فوجی خدمت سے
استثنےٰ کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ نیتھن یاہو کی بدقسمتی کہ اس تحریک کے
روحِ رواں انکے ایک اہم اتحادی مادروطن وطن پارٹی کے سربراہ لائیبرمین ہیں جنھوں
نے نئی کنیسہ کے افتتاحی اجلاس میں فوجی خدمت سے حریدیوں کا استثنیٰ ختم کرنے
کیلئےایک قانون متعارف کرانے کا اعلان کیا
ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ اگر وزیراعظم نیتھن یاہو کی لیکڈ پارٹی نے اس بل
کی حمائت کا غیرمبہم و دوٹوک وعدہ نہ کیا تو
وہ حکومت سازی کیلئے وزیراعظم کی
حمائت سے ہاتھ کھینچ لینگے۔ دوسری طرف حریدیوں کا کہنا ہے کہ لازمی فوجی تربیت کیلئےYeshivaسے 32
مہینے کی غیرحاضری تعلیم میں حرج کا سبب
بنے گی جسے حریدی اپنے مذہبی معاملات میں مداخلت تصور کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے پہلے عرض
کیا 120 رکنی پالیمان میں نیتھن یاہو کے
لیکڈ اتحاد کے پاس
صرف 35 نشستیں ہیں۔ وہ حریدی جماعتوں، قدامت پسند یونائیڈ رائٹ (United Right) اور لائیبرمین کو ساتھ ملا کر حکومت تشکیل
دینے کی کوشش کررہے تھے۔ اس مجوزہ اتحاد
کے پاس مجموعی طور پر 61 نشستیں تھیں۔ اس صورتحال میں حریدیوں اور لائیبیرمین کی
لڑائی وزیراعظم کے گلے کی چھچھوندر بن گئی کہ استثنیٰ نگلنے میں حریدی ساتھ چھوڑنے
کی دھمکی دے رہے تھے جبکہ انکار کی صورت میں لائیبر مین تعلق توڑ رہے تھے۔
نیتھن یاہو نے بھان متی
کے کنبے کو جوڑے رکھنے کی پوری کوشش کی۔ حکومت سازی نیتھن یاہو کیلئے زندگی اورموت
کا مسئلہ ہے کہ موصوف اور خاتون اول کے خلاف کرپشن کی تحقیقات آخری مرحلے میں ہیں۔
انتخابات سے کچھ ہی عرصہ پہلے
اٹارنی جنرل نے وزیراعظم
کے خلاف فرد جرم شعبہ انصاف کو بھجوادی ہے اور انکے مخالفین کا خیال ہے کہ بی
بی کی گرفتاری بس دنوں یا زیادہ سے زیادہ ہفتے دو ہفتے کی بات ہے۔
افتاد ٹالنے لیئے انکی
پارٹی نےایک مسودہ قانون کنیسہ میں پیش کیا تھا جسکے تحت وزیراعظم کے خلاف مقدمات
کی تحقیقات مدت اقتدار ختم ہونے تک موخر کردی جائیگی۔بی بی کے اتحادیوں نے قانون
کی منظوری کیلئے انھیں اپنی حمائت کا یقین دلایا تھا لیکن ائے بسا آرزو کہ خاک
شدہ۔ قانون سازی تو دور کی بات کنیسہ ہی تحلیل ہوگیا۔ نیتھن یاہو کو انتخابات سے
پہلے مقدمات کا سامنا ہے اور سوشل میڈیا پر منچلے بی بی کو انتخاب و اقتدار کے چکر
میں پڑنے کے بجائے جیل کیلئے بوریہ بستر تیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
دو ماہ بعد ہونے والے نئے انتخابات میں بی بی
کو ایک بار پھر سفید و نیلا اتحاد (Blue and White)کا سامنا کرنا ہوگا جو انکے دو بڑے
مخالف یعنی اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ جنرل بینی گینٹز (Benny Gantz)کی
بلند حوصلہ یا Hahosen
Leisrael Party اور ممتاز صحافی یار لیپڈ
(Yair
Lapid)کی مستقبل پارٹی (Yesh Atid Party)نے قائم کیا ہے۔ نیلا اور سفید اسرائیلی پرچم کا رنگ ہے۔ جیسے پاکستان میں سبز ہلالی سے مراد ہمارا قومی پرچم ہے ایسے ہی اسرائیلی پرچم کو سفید و نیلا کہتے ہیں۔ حالیہ انتخابات
میں BaWنے 35 نشستیں حاصل کی تھیں۔ توقع ہے کہ
اسرائیلی عربوں کی تنظیم الحرکۃ العربیہ
للتغیر (Ta’al) اور القائمۃ المشترکہ (United List) حکومت سازی کیلئے سفید و نیلے اتحاد کی حمائت کریگی۔ 9 اپریل کو
ہونے والے انتخابات میں ان دونوں جماعتوں نے مجموعی طور پر 10 نشستیں حاصل کی
تھیں۔ اگر BaW اتحادمولویوں سے ناراض لائیبر مین کو اپنے
ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا تو لیبر اور بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (Meretz)سے مل کر ایک وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل خارج
از امکان نہیں۔
نیتھن یاہو حکومت سازی میں ناکامی کا الزام لائیبرمین
پر ڈال رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں نئے انتخابات کی قرارداد منظور ہونے کے بعد صحافیوں
سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے غصے سے بھرے لہجے میں کہا کہ لائیبر مین اب دائیں
بازو کے قدامت پسند نہیں رہے، وہ درپردہ BaWسے ملے ہوئے ہیں جو لیبر، آزادخیالوں اور یہود مخالف عناصر کے ساتھ مل کر
اقتدار کا شوق پورا کرنا چاہتے ہیں۔ یہود مخالف سے انکا اشارہ عرب جماعتوں کی طرف تھا۔ جسے مسمانوں اور مسیحی
اسرائیلیوں کی حمائت حاصل ہے۔
رائے عامہ کے تازہ ترین جائزوں کے مطابق ستمبر
کے انتخابی نتائج اپریل سے مخلتف نہیں ہونگے لیکن اگر عربوں کو آزادانہ ووٹ ڈالنے دیا گیا تو عرب جماعتوں کی نشستیں بڑھ
سکتی ہیں۔ اپریل میں پولنگ کے دوران عرب ووٹروں کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے بہت
سے واقعات پیش آئے تھے۔ خاص طور سے یروشلم اور اسکے مضافاتی علاقے کی عرب اکثریت
والے پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا اور کئی جگہ یونائیٹد لسٹ
کے پولنگ ایجنٹوں کو مرکزِ انتخاب سے باہر نکال دیا گیا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے
کہ اگر عربوں کو آزادی سے ووٹ ڈالنے دیا جاتا تو یونائیٹڈ لسٹ کو کم ازم کم 3 مزید
نشستیں مل سکتی تھیں۔
دوسری طررف مولویوں کیلئے بھی یہ سنجیدہ مسئلہ
ہے کہ اگر BaWکی حکومت قائم ہوگئی تو فوجی خدمات سے حریدیوں کا
استشنیٰ انکا پہلا ہدف ہوگاجو انھیں کسی صورت قبول نہیں۔
رشوت
خوری اور چوری کے سنگین الزامات کی بنا پر بی بی کو اس بار بھی شدید مزاحمت کا
سامنا کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ نیتھن یاہو کو ووٹ دیکر وقت ضایع نہ کرو کہ انکو باقی زندگی
اب جیل میں گزارنی ہے۔ دوسری طرف بی بی پرامید ہیں کہ صدر ٹرمپ اور دامادِ اول جیرردکشنر اس باربھی انکی حمائت
کرینگے۔ اسرائیل میں ایران کے جوہری پروگرام اور دورمار ایرانی میزائیلوں کے بارے خوف پایا
جاتا ہے۔ اس فوبیا کو بی بی مسلسل ہوادے رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امریکی کی
عسکری پیش بندیوں سے انکے موقف کو تقویت مل رہی ہے۔
گزشتہ انتخابات میں نیتھن یاہو کی ایران دشمن
حکمت بے حد کامیاب رہی تھی اور یہ جادو ایسا سرچڑھ کر بولا کہ BaWاتحاد بھی وزیراعظم کی کرپشن کو بھول کر ایرانی جوہری پروگرام کا ڈھول بجانے
لگا۔اس بار بھی عوام کی توجہ کرپشن اور بدعنوانی سے ہٹانے کیلئے بی بی ایران کے خلاف آگ اگلنے میں مصروف ہیں۔
اسی کےساتھ فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ
کاروائیوں میں اضافہ کردیا گیاہے۔ غزہ پر بمباری اور غرب اردن کے مغربی کنارے پر
پکڑ دھکڑ کے ساتھ گولان کی گھاٹیوں میں شامی بستیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔سطح
سمندر سے 9 ہزار 2 سو فٹ بلند 1800 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہضبۃالجولان
یا Golan Heights کے
دو تہائی حصے پر 1967کی جنگ میں
اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا ۔ 1981
میں مقبوضہ گولان کواسرائیل میں ضم کرلیا
گیا تاہم امریکہ اور اقوام متحدہ نے
اسرائیلی اقدام کو تسلیم نہیں کیا اور عالمی نقشوں میں گولان اب بھی شام کا حصہ
ہے۔ اس ضمن میں سلامتی کونسل کی قرراداد 242 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ
گولان شام کا حصہ ہے۔لیکن صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے گولان کویہ کہہ
کر اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلیا کہ دشمنوں میں گھری یہودی ریاست کے دفاع کیلئے یہ
بلند مقام بے حد اہم ہے کہ یہاں سے اردن، لبنان اور شام میں چھپے 'دہشت گردوں' پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔
اگر بی بی گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی
ایران جوہری پروگرام اور فلسطینی 'دہشت گردی' کا پتہ کھیل کر عوام کی توجہ
کرپشن اور بدعنونی سے ہٹانےمیں
کامیاب ہوگئے تو انتخابات میں انکی
کامیابی کا قومی امکان ہے۔ ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے وہ دہائی دے رہے ہیں کہ
لائیبرین نے ملک دشمن لبرل و آزاد خیالوں کے ساتھ مل کر انھٰیں حکومت نہیں بنانے
دی جو عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے یعنی کرپشن کے دفاع کیلئے یہاں بھی ووٹ کو عزت دو کا
نعرہ لگایا جارہا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 7 جون 2019
No comments:
Post a Comment