مرسی
کی تعزیت کیلئے خواتین کا ہجوم
70 برس پہلے امام حسن البنا کی تدفین انکے غمزدہ والداور پھوپھیوں
نے کی تھی اور اب مصر کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی تدفین میں
بھی انکے اہل خانہ کو شرکت کی اجازت نہ تھی۔ انکی اہلیہ کو بھی شوہر کے آخری دیدار کسے محروم رکھا گیا۔جس
پر اللہ کی اس بندی نے گلوگیر لہجے میں
کہا کہ
میں غمگین ہوں لیکن دل شکستہ نہیں کہ میرا رب بہت قوی ہے۔
سارے ملک پر فوج کا قبضہ تھا اور جیل میں غسل اور نماز جنازہ کے بعد ڈاکٹر صاحب کو ڈھائی بجے رات
انکے آبائی گاوں العدوۃ میں دفن
کردیا گیا جس میں گھر کے صرف دو لوگوں کو شرکت کی اجازت تھی۔ العدوۃ شمالی مصر کے
صوبے الشرقیہ میں واقع ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے نیل بحر روم میں گرتا ہے۔
سارے صوبے میں اس روز کرفیو نافذ تھا اور ہر چوک و چوراہے
پر ناکہ لگائے فوجی لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر جمائے بیٹھے تھے۔ خوں خرابے سے
بچنے کیلئے اخوان المسلمون نے اپنے کارکنوں کو گھروں پر رہنے کی ہدائت کی تھی لیکن
صبح ہوتے ہی العدوۃ گاوں کی ساری عورتیں تعزیت کیلئے مرسی کے گھر آگئیں اور تعزیت
کی یہ تقر یب احتجاجی جلسے میں تبدیل ہوگئی۔ موبائل فون سے کھینچی ہوئی ایک تصویر
پیش خدمت ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ السیسی کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والی
ان خواتین کا کیا حشر ہوا۔ اللہ انھیں اپنی حفاظت میں رکھے جنکا مرسی سے دین کے سوا اور کوئی رشتہ نہیں۔
جس بات سے تم نے روکا تھا اور دار پہ ہم کو کھینچا تھا ۔۔
مرنے پہ ہمارے عام ہوئی گو جیتے جی ہم کہہ نہ سکے
No comments:
Post a Comment