Monday, June 17, 2019

رسمی تعزیت سے بھی خوف


رسمی تعزیت سے بھی خوف
جب 3 اگست 2013 کو مصری فوج نے مغربی دنیا اور خلیجی ریاستوں کی بھرپور مدد سے جمہوریت پر شبخون مارا اور قاہرہ کے چوک پر بیٹھے ہزاروں معصوم ذبح کردئے گئے تو ساری دنیا پر خاموش طاری تھی۔ اسوقت پاکستان میں شرفا برسراقتدار تھے جنھیں جمہوریت بڑی عزیز ہے لیکن اس موقع پر انھوں نے بہت ہی احتیاط سے 'عدم مداخلت ' کا گھونگھٹ کاڑھ لیا۔ جمہوریت کے قتل کے خلاف سب سے توانا آواز ترکی کے طیب رجب اردوان کی تھی جو اسوقت ترکی کے وزیراعظم تھے۔ خبر ملتے ہی اپنی پوری کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا
'
بیگناہ مصریوں کے خون سے ان تمام لوگوں کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں جو نہ صرف اس ظلم پر خاموش ہیں بلکہ خونیوں کو فوجی اور اقتصادی مدد دے رہے ہیں'۔ جب ایک صحافی نے کہا کہ ترکی کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں غیر جانبدار رہنا چا ہئے تو ترک وزیراعظم نے روسٹرم پر مکا مارتے ہوئےکہا' ترک ایک غیرت مند قوم ہیں۔ ہم کبھی بھی غیر جابندارنہیں رہےاور اس معاملے پر بھی ہم غیر جانبدار نہیں۔ترک عوام اپنے مصری بھائیوں کے ساتھ ہیں اور آمریت کے خلاف انکی جدوجہد میں برابر کے شریک 'اب ڈاکٹر مورسی کی شہادت پر بھی مکمل خاموشی ہے۔ صرف صدر اردوان نے اس قتل کی شدید مذمت کی ۔ قطر کے امیر مذمت کی ہمت تو نہ کرسکے لیکن انھوں نے کم از کم 2 سطری تعزیت ہی کرلی۔ باقی ہر جگہ خاموشی ہے۔معلوم نہیں ایک شخص کی موت پر اسکے اہل خانہ سے تعزیت میں ایسا خوف کیوں؟


No comments:

Post a Comment