اہل یمن
پر رحم کرو
ڈیموکریٹک
پارٹی کے 4 اور ریپبلکن پارٹی کے 3 سینٹرز
نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو
امریکی اسلحے کی فروخت روکنے کیلئے مختلف نوعیت
کی 22 قراردادیں پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکی سینیٹرز
کو ایک ہی مسئلے پر 22 مختلف قراردادیں لانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟تو اسکا
سادہ سا جواب یہ ہے کہ انا کے مارے صدرٹرمپ نے اپنے اختیارات کا غیر روائتی
استعمال کرکے امریکی مقننہ کو بے اثر کردیا ہے۔
میکسیکو
کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کیلئے بجٹ کی نامنظوری کے بعد انھوں نے سرحدوں پر ہنگامی
صورتحال کا اعلان کرکے رقم کا انتظام کرلیا۔ بعض مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکہ
آنے پر پابندی ہو یا گولان پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرنے کا مسئلہ صدر ٹرمپ کانگریس
سے منظوری کے بجائےصدارتی فرمان سے کام چلارہےہیں۔ امریکی سپریم کورٹ میں 2
انتہائی قدامت پسند ججوں کا تقرر کرکے انھوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے 9 رکنی بنچ کو 4 کے مقابلے میں 5 سے اپنے حق
میں کرلیا ہے اسلئے انھیں عدالتی گوشمالی کا بھی کوئی ڈر نہیں۔
سعودی
عرب و امارات کو اسلحے کی فروخت کیلئے بھی صدر ٹرمپ کا طریقہ واردات یہی ہے۔امریکی قانون کے تحت
دوسرے ممالک کو اسلحے کی فروخت سے پہلے سینیٹ کی توثیق ضروری ہے لیکن 8 ارب ڈالر کے جدید ترین
اسلحے کی حالیہ فروخت کیلئے امریکی وزیرخارجہ نے اجازت کے بجائے ایک خط کے
ذریعے کانگریس کو محض مطلع کرنا ضروری
سمجھا۔ اپنے خط میں مائک پومپیو نے ایران
کی جارحانہ سرگرمیوں پر خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے کہا کہ 'امریکی مفادات،
اسرائیل کے تحفظ اور اپنے خلیجی اتحادیوں کی سلامتی کیلئے اسلحےکی فوری ترسیل
ضروری ہے'۔ اسلام فوبیا کے اظہار کیلئے
صدر ٹرمپ اور انکے وزرا ایران کہنے کے بجائے اسے اسکے پورے نام یعنی 'اسلامی' جمہوریہ ایران سے پکارتے ہیں ۔ اسی طرح داعش اب ISISنہیں بلکہ 'خلافتِ
اسلامیہ' ہے۔
خط کے
مندرجات سے اندازہ ہوتا ہےکہ اگر کانگریس نے اسے روکنے کی کوشش کی تو صدر ٹرمپ
ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسے
غیر موثر کردینگے۔ امریکی حکومت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو 22 مختلف اسلحہ فروخت کرنا چاہ رہی ہے جن میں فضا سے زمین پر
پھینکے جانیوالے میزائل، لیزرشعاعوں سے کنٹرول کیے جانے والے Paveway IVبم اور FGM-148 Javelin میزائل شامل ہیں۔
یہ ہلاکت خیز اسلحہ امریکی کمپنی Raytheonبناتی ہے۔ Javelin دراصل ٹینک شکن میزائل ہے لیکن سراغرساں اداروں کے مطابق اس
میزائل سے شہری تنصیات خاص طور سے آبنوشی
و ابپاشی کے ذخائر کو نشانہ بنا یا جارہا ہے۔، ہلاکت خیزPavewayبموں اور فضا سے زمین
پر مار کرنے والے میزائلوں کا نشانہ بھی یمن کے معصوم
شہری ہیں۔
اس سودے کے مخالف سینیٹرز فروخت روکنے کیلئے الگ الگ قرارداد پیش کرینگے جسے
غیر موثر کرنے کیلئے صدر کو 22 مرتبہ صدارتی
ویٹو استعمال کرنا ہوگااور ہرقسم کے اسلحے
کیلئے الگ الگ صدارتی فرمان یا Executive Orderکا اجرا ضروری
ہوجائیگا۔ ہمیں تو 22 مختلف قراردادوں سے بھی کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔ ایک ہی نشست
میں 22 صدارتی فرمانوں پر دستخط لگے گاتو
بہت عجیب لیکن بے شرموں کو کیسی شرمندگی؟؟
No comments:
Post a Comment