Thursday, March 2, 2023

دیوانگیِ عشق پہ الزام کچھ تو ہو 'شیروں کی کچھار' عقبہ مذاکرات ۔۔ نشستند، گفتند اور برخواستند

 

دیوانگیِ عشق پہ الزام کچھ تو ہو

'شیروں کی کچھار'

عقبہ مذاکرات ۔۔ نشستند، گفتند اور برخواستند

قیامِ امن کیلئے فلسطیینیوں اور اسرائیل کے درمیان  امن مذاکرات 'خواہش اور آرزو' کے حسین اعلان کیساتھ ختم ہوگئے۔  اتوار 26 فروری کو اردن کے سیاحتی مرکز عقبہ پر منعقد ہونے والی اِس یٹھک کو سیای و حفاظتی یا Political-Securityاجلاس کا نام دیا گیا۔  ایک دن پہلے  فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPسے باتیں کرتے ہوئے اردنی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ  سیاسی وحفاظتی گفتگو،  جامع امن مذاکرات نہیں بلکہ اسے اسرائیل و فلسطین کے مابین اعتماد سازی کی ایک کوشش سمجھنا چاہئے۔ اردنی سفارتکار  کا  کہنا تھا کہ  اگر کشیدگی پر قابو نہ پایا گیا تو رمضان میں اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن اور غزہ پر بھرپور حملوں کا خطرہ ہے۔

عقبہ اجلاس میں اسرائیلی وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی زکی ہانیزبی (Tzachi Hanegbi)   اور خفیہ پولیس شاباک کے سربراہ رونن بر (Ronin Bar)شریک ہوئے۔ فلسطینیوں کی نمائندگی  تحریک آزادیِ فلسطین (PLO)  کے معتمدِ عام حسین الشیخ، فلسطینی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ماجد فراج  اور مقتدرہ فلسطین کے ممتاز سفارتکار ماجدی خالدی نے کی جبکہ اردن کے علاوہ مصر اور امریکہ کے نمائندے بطور ِ ثالث و سہولت کار موجود تھے۔

بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامئے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دیکر کہا گیا کہ  "مزید تشدد" روکنے کے لئے  تما م فریق مل کر کام کریں گے۔ اعلانِ عقبہ میں اسرائیل نے وعدہ کیا کہ اگلے چار ماہ  نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کا منصوبہ پیش نہیں ہوگا اور  چھ ماہ تک کسی  نئی بستی کی منظوری نہیں دی جائیگی۔

اعلامئے کے تجزئے اور تشریح کیلئے بہت زیادہ عرق ریزی کی ضرورت نہیں کہ  اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی گزشتہ ہفتہ بالکل یہی کہہ چکے ہیں جب انھوں نے اعلان کیاکہ صدر بائیڈن کی درخواست پر مقبوضہ عرب علاقوں میں بنائی گئی فوجی چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کی کوئی نئی تجویز “اگلے چند ماہ” تک منظوری نہیں کی جائیگی، تاہم جن 9 چوکیوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کیا گیا ہے ، وہ فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔ اس چار سطری بیان سے یہ بات بہت واضح ہوچکی تھی کہ اسرائیل قبضہ گردی کا سلسلہ جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہے اور  اور اس حوالے سے اسکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔  آبادکاری میں چند ماہ کا وقفہ صدر بائیڈن کو سفارتی فتح دلانے کی ایک کوشش ہے۔

عقبہ کی سیاسی و حفاظتی بات چیت سے پھولنے والے 'خوش فہمی' کے غبارے کو  جناب زکی ہانیزبی نے وہیں یہ کہہ کر سوئی چبھودی کہ نئی بستیوں کے بارے میں اسرائیل کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، 9چوکیوں کے اسرائیل سے ادغام اور یہوداالسامرہ (عبرانی تلفظ یہودا والشمران) میں 9500 نئے مکانات کی تعمیر  جاری رہیگی۔ انہوں نے غیر مبہم انداز میں کہا نئی آبادیوں کا کام منجمد نہیں ہوگا اور نہ ہی علاقے میں اسرائیلی فوج کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن عائد کی جائیگی ۔ اسی کیساتھ انھوں نے یقیین دلایا کہ  الحرم الشریف  المعروف Temple Mountکی موجودہ حیثیت یا Status Que برقرار رہیگا۔

جب  1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا اس وقت مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی گئی تھی کہ الحرم الشریف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے جہاں حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہوگا۔ لیکن گزشتہ ماہ حلف اٹھاتے ہی وزیرقومی سلامتی اور عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvir بنفسِ نفیس القدس شریف چلے گئے اور متکبرانہ انداز میں گنبد صخرا کے دالان میں چہل قدمی فرمائی۔ دیکھتے ہیں کہ  جناب زکی اس حوالے اپنا یہ نیا وعدہ کیسے نبھاتے ہیں۔

اپنے مشیر سلامتی کے وضاحتی بیان سے بی بی کی مکمل  تشفی نہ ہوئی اور انھوں نے ٹویٹر پر ترنت ایک پیغام  جاری کیا کہ  "یہودیہ اور سامریہ میں آبادکاری و تعمیرات  جاری رہینگی اور بستیوں کی تعمیر  (غیر معینہ مدت کیلئے) منجمد نہیں کی جائیگی۔

مغربی کنارے کو یہوداالسامرہ کہنے سے بھی اسرائیلی حکومت کی نیت کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ دریائے اردن اور بحیرہِ مردارکے مغرب  میں واقع 5655 مربع کلومیٹر کے اس زرخیز قطعہِ ارض پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اس 'مقبوضہ'علاقے' کا نام الضفۃ الغربیہ یا West Bankہے۔ امریکہ سمیت تقریباً ساری دنیا اسے مغربی کنارہ کہتی ہے۔ اسی بنا پر 'نہر الالبحر ، فلسطین 'عربو ں کا نعرہ ہے یعنی دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین۔ یہودی روایات کی رو سے  یہ علاقہ یہوداوالسامرہ ہے جو عظیم الشان سلطنتِ داود (ع) کا حصہ تھا۔  گویا یہ مقبوضہ سرزمین نہیں بلکہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسرائیلی قیادت کے  بیانات سے   اُن فلسطینی رہنماوں کے موقف کو تقویت ملی ہے جو عقبہ مذاکرات  کو ڈھونگ اور پی ایل او کو ایک غیر موثر و مفلوج ادارہ کہہ رہے ہیں۔

ارضِ فلسطین کئی دہائیوں سے مقتل بنی ہوئی ہے۔ نہ بازوئے قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ عشاقان کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ اسرائیلی فوج ہر سال رمضان المبارک سے قبل القدس شریف (مشرقی بیت المقدس)  کے قریب پرُ تشدد کاروائیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ لیکن اس بار مسجد اقصیٰ میں دراندازی اور بیحرمتی کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے قتل عام کا جو  سلسلہ عیدالاضحیٰ سے شروع ہوا اسکی شدت تھمتی نظر نہیں آتی۔  غزہ میں اسرائیلی فوج کو داخلے کی ہمت نہیں اسلئے 41 کلومیٹر لمبے اور 9 کلومیٹر چوڑی اس پٹی کو  خوفناک بمباروں نے اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔

فلسطینیوں کو گزشتہ لبرل حکومت میں بھی کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی حالانکہ اخوانی فکر سے وابستہ رعم برسراقتدار اتحاد کا حصہ تھی لیکن دسمبر کے اختتام پر جب  بی بی نے حکومت سنبھالی، معاملات مزید خراب ہوگئے ۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران  فوج کی فائرنگ اور زیرحراست تشدد سے 65 فلسطینی جاں بحق ہوئے، جنکی اکثریت سولہ سترہ سال کے بچوں کی ہے۔ بمباری سے غزہ میں جو ہلاکتیں  ہوئیں اسکا تخمینہ درجنوں میں ہے۔ ہزاروں نوجوان شدید زخمی ہیں جن میں بہت سوں کو تاعمر معذوری کا سامنا ہے۔

دائیں بازو کی قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، پاسبانِ توریت (Shas)پارٹی اور  متحدہ توریتِ یہود پارٹی پر مشتمل  حکومت  نے اقتدار سنبھالتے ہی مقبوضہ عرب علاقوں میں مکینو ں کو بیدخل کرکے وہاں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام تیز کردیا۔ اسی کیساتھ ایک نیا شوشہ یہ اٹھاکہ  حماس، حزبِ جہاد اور فلسطینی محاذ آزادی نے نابلوس میں تخریبی سرگرمیوں کیلئے  عرین لاسود یعنی شیروں کی کچھار (Lions’ Den)کے نام سے ایک اڈہ قائم کرلیا ہے جہاں گوریلوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی فتنہ گری نئی نہیں۔ ماورائے ضابطہ قتل کیلئے القاعدہ، داعش، الشباب جیسے کئی دیومالائی اہداف تراشے گئے ہیںِ۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے مطابق  شیروں کی یہ کچھار جولائی 2022 میں سجائی گئی۔ اسوقت سے اسکی بازیابی اورپامالی کیلئے اسرائیلی فوج ایک سو سے زیادہ آپریشن کرچکی ہے اور ہر حملے میں بے گناہ فلسطینی مارے گئے۔

یہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے فرد کا مکان،  الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی منہدم کردیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ شخص کرائے دار ہو تب بھی گھر کا انہدام لازمی ہے۔ اسرائیلی قانون میں فلسطینی باشندوں کی جانب سے 'کارِسرکار' میں مداخلت کا ہر عمل دہشت گردی ہے۔ یعنی قبضے کے خلاف مظاہرہ، عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانا یا آزادی کے گیت گانا دہشت گردی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں ایک 16 سالہ فلسطینی بچی جاناذکرنا جنین میں  اپنے گھر کی چھت پر فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے آزادی کے گیت گارہی تھی کہ اسرائیلی فوج نے اسے گولی ماردی اور اس معصوم  کا تڑپتا لاشہ چھت سے نیچے گر پڑا۔

عرین الاسد کی تلاش میں  دس فروری  تک  فلسطیینوں کے 953 گھر منہدم کئے گئے جسکے نتیجے میں 1031 بالغ افراد (18 سال یا اس سے زیادہ) بے گھر ہوئے۔ اگر بچوں شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد کئی ہزار ہے۔ادھر کچھ دنوں سے جنین میں بھی شیروں کی کچھار تلاش کی جارہی ہے۔تنظیم آزادی فلسطین کا کہنا ہے کہ ان کاروائیوں کا مقصد زیادہ سے زیا دہ گھروں  کو مسمار کرنا ہے تاکہ علاقے کو اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کیلئے 'صاف' کیا جاسکے۔

پندرہ فروری کو کچھار کی تلاش میں اسرائیلی فوج نے نابلوس پر زبردست حملہ کیا جس میں ایک 72 سالہ بزرگ اور 16 سالہ بچی سمیت 10 فلسطینی بحق ہوئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ نوجوان شدید زخمی ہیں جنھیں ہسپتالوں میں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا ہے۔اسکے دوسرے دن جنین ہدف بنا جسکا اُمّ یوسف محلہ عملاً ملیامیٹ ہوگیا۔ یہاں ہر گھر کی دیوار گولیوں سے چھلنی ہے۔  ضعیف خاتون اور بچوں سمیت 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسرے دن جب صحافیوں نے علاقے کا دورہ کیا تو  گلیوں میں گولیوں کے خول کی تہیں جمیں ہوئی تھیں ٹائمز آف اسرائیل نے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی  61 سالہ ماجدہ عبید کے پوتے کی تصویر شایع کی جو گولی کا  ایک خول دورہ کرنے والے صحافیوں کو فخر سے دکھا رہا تھا۔

ستم ظریقی کے عرین الاسد کے نام پر نابلوس ا ور جنین میں خون کی  ہولی کھیلنے کے ساتھ ان  پرتشدد کاروائیوں کو تل ابیب  نے  مغربی کنارے پر نئی بستیوں کے قیام کا جواز قرادیا ہے۔  فلسطینیوں کی نجی اراضیوں پر قائم9 فوجی ناکوں  کو مستقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بی بی نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور عوام کو دہشت گرد حملوں سے بچا نے کیلئے ضروری یے کہ ان چوکیوں کو مستقل اور پختہ ٹھکا نوں میں تبدیل کردیا جائے جسکے لئے ملکیت کی منتقلی ضروری ہے۔

اسرائیل کے اس اعلان پر سعودی عرب کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور  وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غرب اردن (فلسطین) کی نو چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے اعلان کی شدید مذمت کی ۔ سعودی وزیر کاکہنا تھا کہ اس قسم کی اقدامات سے کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔ اسی دن لاطینی امریکہ کے چار ممالک برازیل، ارجنٹینا، چلی اور میکسیکونے فلسطینیوں کو بیدخل کرکےاسرائیلی آبادیاں بسانے کی  شدید مذمت کی۔ برازیل سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں اس فیصلے کو بین الاقومی قوانین اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (2016) کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔امریکہ بہادر نے بھی اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر 'تشویش' کا اظہار کیا ۔ قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی نائب پریس سکریٹری محترمہ کرین جین پئر نے  نئی آبادیاں بسانے کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے علاقے میں پائیدار امن کی کوششوں نقصان پہنچے گا۔ تاہم واشنگٹن نے  ویٹو کی دھمکی دیکر سلامتی کونسل میں اسرائیل کےخلاف  متحدہ عرب امارات کی  مذمتی قرارداد رکوادی،

نئی بستیوں کے اعلان اور کچھار کے بہانے فلسطینیوں کے قتل عام  پر مسلم و عرب دنیا کاردعمل مایوس کن بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اسی دوران  عُمان نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کیلئے کھولنے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف سی این این CNNکو انٹرویو میں بی بی بے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ 'فلسطین میں امن کو اپنے دماغ پر سوار مت کرو۔ جب عرب دنیا اور اسرائیل کے تنازعات ختم اور تعلقات معمول پر آ جائینگے تو فلسطینیوں سے امن کا ایک “معقول” حل تلاش کرلیا جائیگا'

اردن کی  یہ کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن امن کی راہ میں رکاوٹ اسرائیل کا متکبرانہ رویہ ہے۔ تل ابیب خود کو  دنیا کے کسی بھی ادارےکے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتا۔ فلسطینی مکانات کا انہدام اور نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری ہے چنانچہ فلسطینی بھی پروقار مزاحمت کرتے رہینگے اور جواب میں  ظالمانہ قوتِ قاہرہ کا استعمال  بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ جب تک مہذب دنیا  اسرائیلی کو معقولیت کی لگام ڈالنے کی جرات نہیں کریگی، فلسطینیوں کا قتل عام رکنے والا نہیں۔اس ضمن میں تازہ ترین خبر یہ ہے اسرائیلی کابینہ نے نئے سال کے میزانئے میں وزارت قومی سلامتی کیلئے مختص رقم  دو ارب چالیس کروڑ ڈالر بڑھادی ہے۔ اس رقم سے مقبوضہ علاقوں میں آپریشن کیلئے ہلکے ہتھیار خریدے جائینگے اور جیلوں کے حفاظتی اقدامات کو موثر بنایا جائیگا

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچئ 3 مارچ 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 مارچ 2023

روزنامہ امت کراچی 3 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 مارچ 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو




 

No comments:

Post a Comment