Thursday, June 1, 2023

طیب ایردوان کی دوسری ہیٹرک (Hat-Trick) براہ راست مرحلے Run-offمیں شاندار کامیابی

 

طیب ایردوان کی دوسری ہیٹرک (Hat-Trick)

براہ راست مرحلے Run-offمیں شاندار کامیابی

صدر طیب رجب ایردوان،  ترک وزارت عظمیٰ کی  یکے بعد دیگرے تین مدتیں جیتنے کے بعد صدارتی دوڑ بھی تیسری بار جیت گئے۔ کھیلوں  کی اصطلاح میں اسے Hat-Trickکہا جاتا یے۔

انکی انصاف و ترقی پارٹی (ترک مخفف آق) نے 2002 کے انتخابات میں 550 رکنی گرینڈ نیشنل اسمبلی ( تُرک  مخفف TBMM)کی  363 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کرلی۔ اس سے پہلے  1994 سے 1997 تک جناب ایردوان استنبول کے رئیسِ شہر (Mayor) رہ چکے تھے۔ اس دوران مشرقی ترکیہ کے شہر سِعِرد (Siirt) کے جلسے میں انھوں نے انقلابی شاعر محمد ضیا تخلص  گوکلب Gökalpکے چند اشعار پڑھے۔ملک کے اٹارنی جنرل نے اس  نظم کو اشتعال انگیز اور  سیکیولرروایات کے خلاف قرارادیتے یوئے ان پر مقدمہ کردیا۔ عدالت میں جناب ایردوان نے موقف اختیار کیاکہ حکومت جس نظم کو اشتعال انگیز قرار دے رہی ہے وہ ترک طلبہ کےسرکاری نصاب کا حصہ ہے لیکن جج  صاحب نے یہ دلیل رد کرتے ہوئے جناب اردوان کو دس مہینے کی سزا  اور  مئیر کے عہدے سے برطرفی کے ساتھ انکے انتخابات میں حصہ لینے پر ہابندی لگادی گئی۔

جب 2002 میں انکی جماعت نے بھاری اکثریت سے انتخاب جیتا اسوقت جناب ایردوان پر پابندی عائد تھی، چنانچہ انکے دست راست عبداللہ گل نے وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ دو سری طرف نااہلی کے خلاف ایردوان کی درخوااست سماعت کیلئے منظور ہوگئی۔ اسی دوران سعرد شہر کے انتخابات الیکشن کمیشن نے کالعدم کردئے۔ جب دوبارہ انتخابات کا اعلان ہوا توجناب ایردوان پر پابندی ختم ہوچکی تھی اور وہ ضمنی انتخاب جیت کر پارلیمان کے رکن بن گئے۔ وزیراعظم عبداللہ گل نے استعفیٰ دیدیا اور طیب ایردوان ترکیہ کے وزیراعظم منتخب کرلئے گئے

پانچ سال بعد ہونے والے انتخابات میں آق نے 341 نشتیں جیت کر اپنی برتری برقرار رکھی اور پھر  2011 کے انتخابات میں آق 327 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی اور جناب ایردوان تیسری مدت کیلئے وزیراعظم منتخب  ہوئے۔

ترکیہ میں پہلے براہ راست صدارتی انتخابات  10 اگست 2014 کو ہوئے۔ آق نے جناب ایردوان کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور  حزب اختلاف کی جانب سے  نے او آئی سی (OIC)کے سابق جنرل سکریٹری اکمل الدین احسان اوغلو میدان میں  اترے۔ طیب ایردو ان نے 51.79فیصد ووٹ لیکر  فتح اپنے نام کرلی۔ ریفرنڈم میں صدارتی نظام کی توثیق کے بعد جون 2018 میں پھر میدان سجا۔ اس بار صدر  طیب رجب ایردوان کا مقابلہ ریپلکن پیپلز پارٹی (CHP)کے محرم انس سے ہوا۔ منچلوں  نے اس پر رجب بمقابلہ محرم کی گرہ لگائی۔  جناب ایردوان نے 52.59فیصد ووٹ لیکر معرکہ دوسری بار جیت لیا۔

اس سال 14 مئی  کو ہونے والے انتخابات  میں جناب ایردوان 49.52فیصد ووٹ لیکر تیسری بار سرفہرست رہے، انکے قریب ترین حریف کمال کلیجدار اوغلو کو 44.88فیصد ملے جبکہ آزاد امیدوار سینان اوغن5.17 فیصد ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر آئے۔ ترکیہ میں صدر منتخب ہونے کیللئے پچاس فیصد سے کم ازکم ایک ووٹ زیادہ لینا ضروری ہے چنانچہ 28 مئی کو صدر ایردوان اور کلیجدار اوغلو کے درمیان براہ راست مقابلہ ہوا جسے run-offکہا جاتا ہے۔

14 مئی کے انتخابات میں جہاں ایردوان نے سب سے زیادہ ووٹ لئے وہیں انکی جماعت اور اتحادیوں نے پارلیمان میں واضح اکثریت حاصل کرلی۔ جس کی وجہ سے  حکمراں آق پارٹی بلند حو صلے کیساتھ دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی۔ براہ راست مقابلے کے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار سنان اوغن بادشاہ گر بن کر ابھرےجنھوں نے پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ لئے تھے۔ جناب اوغن قدامت پسندی کی طرف مائل معتدل اور سلجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ بلقان اور وسط ایشیائی امور پر انکی گہری نظر ہے اور وہ کمال اوغلو کی یورپ نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن شامی پنای گزینوں کئ معاملے میں وہ خاصہ سخت رویہ رکھتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ یہ 37 لاکھ افراد نہ صرف قومی معیشت پر بوجھ ہیں بلکہ انکے یہاں  بس جانے سے ترکیہ کی شناخت بھی متاثر ہورہی ہے۔ ملاقات کے دوران انھوں نے جناب ایردوان کو  صاف صاف کہدیا کہ  شامی پناہ گزینوں کی واپسی انکے لئے بے حد اہم ہے اور وہ اسی امیدوار کی حمائت کرینگے جو شامیوں کی فوری اورغیر مشروط واپسی کا وعدہ کریگا۔

اس معاملے میں صدر ایردوان کو موقف بھی بہت دوٹوک ہے اور  ملاقات کے بعد صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے  انھوں  نے  غیر مبہم انداز میں  کہا کہ سنان اوغن کی حمائت حاصل کرنے کیلئے  وہ عثمانی روایات  کو سیاست پر قربان نہیں کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک شام میں حالات سازگار نہ ہوں پناہ گزینوں کی سرحد پار دکھکیلنا انسانیت نہیں اور وہ انتخاب جیتنے کیلئے اپنے مبنی بر انصاف موقف سے دستبردار نہیں ہونگے۔

اسکے مقابلے میں کمال اوغلو نے شامیوں کو فوری طور پر واپس بھیجنے کے حق میں ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے معاملے میں وہ  جناب سنان اوغن کے خدشات کا تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ انکی پارٹی نے  وعدہ کیا تھاکہ برسراقتدار آنے کی صورت میں کردوں کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ترک مخفف HDP)کو ایک وزارت دی جائیگی۔ بعض ترکوں کاخیال ہے کہ HDPدہشت گرد کرد تنظیم PKKکا سیاسی دھڑٖا ہے۔

جناب ایردوان اور انکے حریف کمال کلیجدار اوغلو سے تفصیلی ملاقات کے بعد 21 مئی کو جناب سنان اوغن نے Run-offمرحلے میں صدر ایردوان کی حمائت کا اعلان کردیا۔  انقرہ سے جاری ہونے والے اپنے سمعی و بصری بیان میں جناب اوغن نے کہا کہ 'دونوں امیدواروں سے ہماری ملاقاتیں سیاسی رواداری اور باہمی شائستگی کے ساتھ ہوئیں۔ مذاکرات و مشاورت اور نچلی سطح سے پیغامات کے نتیجے میں ہم نے صدر کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے' ۔ انکا کہنا تھا کہ صدر ایر دوان کی جماعت کو پارلیمان میں واضح اکژیت حاصل ہے۔ اس مرحلے پرایوان صدر اور پارلیمان کے درمیان تصام کے بجائےانتظامیہ اور مقننہ کے درمیان ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

سنان اوغن کی حمائت کے بعد صدر ایردوان کی کامیابی تقریباً یقینی ہوگئی اور  انکے حامیوں کے جوش وخروش میں اضافہ ہوا۔ ۔دوسرے مرحلے کے انتخابات میں جناب ایردوان کو اخلاقی برتری حاصل تھی کہ انھوں نے اپنے حریف سے  25 لاکھ ووٹ زیادہ حاصل کئے اور اس حق  تولّیٹ (mandate)بنا پر  بھی جناب اوغن کے بہت سے حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ دیا۔

فلسطینیوں ، چینی ویغوروں اور برما کےاراکانی مسلمانوں کے علاوہ اسلاموفوبیا اور ناموس رسالت (ص) پر جناب ایردوان نے جو دوٹوک موقف اختیار کیا ہے اسکی وجہ سے موصوف ترکیہ سے باہر بھی خاصے مقبول ہیں، دوسرے مرحے کے انتخاب سے پہلے یورپی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم یورپین مسلم فورم (EMF)نے عام انتخابات میں صدرایردیوان کی حمائت کا اعلان کیا۔انتخابات سے ایک ہفتہ پہلے استنبول میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فورم کے سربراہ عبدالوحید نیازوف نے کہا کہ یورپ 17 کروڑ مسلمانوں کا وطن ہے۔ ہمارے لئے ترکیہ اطمینان و اعتماد اور خوشگوار ترقی کا استعارہ ہے۔ ایردوان کی ولولہ انگیز قیادت یورپی مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ترک ملت  قیادت کیلئے جس کو بھی منتخب کریگی، وہ ہمارے سرآنکھوں پر لیکن EMFترک عوام سے جناب ایردوان کو ووٹ دینے کی درخواست کررہی ہے۔

ضابطے کے مطابق  بیرون ملک مقیم ترکوں کیلئے ووٹ ڈالنے کا اہتمام کیا گیا اور دنیا بھر کے ترک سفارتخانوں اور قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔۔ بیرون ملک ووٹنگ 25 مئی تک جاری رہی۔ ملک واپس آنے اور بیرون وطن روانہ ہونے والے ترک باشندوں کیلئے ہوائی اڈوں کے کسٹم گیٹ بھی پر  ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم  کی گئی۔ دوسرے ممالک کی طرح ہندوستان کے ترک سفارتخانے کے علاوہ  حیدرآباد اور ممبئی کے قونصل خانوں میں پولنگ اسٹیشن بنائے گئے۔ پاکستان میں مقیم  1200 ترک باشندوں کیلئےاسلام آباد، کراچی اور لاہور میں ووٹ ڈالنے کا انتظام کیا گیا۔ترک الیکشن کمیشن (ترک مخفف YSK) کے مطابق بیرون ملک مقیم 19 لاکھ سے زیادہ ترکوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ عام انتخابات میں بیرون ملک سے آنے والے بیلٹ کی تعداد 16 لاکھ 91 ہزارسے کچھ زیادہ تھی۔ جناب ایردوان کو بیرون ملک رہنے والے 59 فیصد ترکوں نے اپنے ووٹوں سے نوازا۔

اتوارا 28 مئی کو شام پانچ بجے پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی جب گنتی کا آغاز ہوا تو جناب ایردوان نے برتری حاصل کرلی جو آخر تک برقرار رہی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 99.85فیصد گنتی مکمل ہونے پر جناب صدر طیب رجب ایردوان نے 2 کروڑ 77 لاکھ 25 ہزار 131 ووٹ لئے جو کل ووٹو ں کا 52.16 فیصد ہے۔ انکے حریف جناب کمال کلیجدار اوغلو  کے حق میں دوکروڑ 54 لاکھ32 ہزار 251یا 47.84فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ووٹ ڈالنے کا تناسب 84.22فیصد رہا۔ حوالہ صباح نیوز، ترکیہ

 پہلے مرحلے  میں   ووٹ ڈالنے کا تناسب 86.98 فیصد تھا جس میں  جناب اوغلو نے دوکر وڑ 45 لاکھ 94 ہزار 932 اور صدر ایردوان نے دو کروڑ 71 لاکھ 33 ہزار 838  ووٹ  لئے تھے، یعنی  ترک صدر کو اپنے حریف پر 25 لاکھ 38 ہزار 905 ووٹوں کی برتری حاصل ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں یہ برتری کم ہوکر 22لاکھ 92 ہزار 180رہ گئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حمائت کے دوٹوک اعلان کے باوجود پہلے مرحلے میں تیسرے نمبر پر آنے والے سنان اوغن کے تمام حامیوں نے جناب ایردوان کو ووٹ نہیں دئے۔

بحیثیت مجموعی جناب ایردوان کی کارکردگی بے حد اچھی رہی۔ انھوں نے 2018 کے انتخابات میں 52.59 فیصد ووٹ لئے تھے اور اس بار انھیں 52.16فیصد ووٹ ملے۔  یعنی مقبولیت میں خفیف سی کمی تو ہے لیکن بدترین معاشی حالات اور امریکی پابندیوں کے تناظر میں معاملہ ایسا بھی خراب نہیں۔ پہلے مرحلے کی طرح run-off میں بھی جناب ایردوان کو  استنبول، انقرہ، ازمیر اور اکثر  بڑے شہروں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں انکی کارکردگی بہت اچھی رہی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 2 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 2 جون 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 4 جون 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment