امریکہ کے غلاموں کی آزادی کا تہوارJuneteenth
آج
یعنی 19 جون کو امریکہ کے سیاہ فام آزادی کی 161 ویں سالگرہ
منارہے ہیں۔ اختتام غلامی یا Emancipation Proclamation دستاویز پر امریکی صدر ابراہام لنکن نے22 ستمبر
1862کو دستخط کئے کیے تھے۔
اعلان کتنا کھوکھلااور
سطحی تھا، اسکا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ یہ خبر ٹیکسس Texas پہنچنے
میں ڈھائی سال لگے اورآج ہی کے دن 1865 کو وفاق سے جنرل گورڈن
گرینگر نے ہیوسٹن کے قریب واقع ساحلی شہر گیلویسٹن Galvestonمیں تمام غلاموں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا ۔
ہوئی تاخیر تو کچھ
باعث تاخیر بھی تھا کہ ٹیکسس میں گنے اور مکئی فصلوں کیلئے
مفت بیگار کی ضرورت تھی ۔ غلام بیچارے اعلان آزادی سے بے
خبر تھے اور جو باخبر تھے انکی زبان تراشی جاچکی تھی چنانچہ ذلت کا دورانیہ ڈھائی
سال مزید طویل ہوگیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ آزادی کا اعلان امریکی سیاہ فاموں کیلئے
ایک رسم سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ان
بدنصیبوں کے حالات آج بھی بہت اچھے
نہیں۔
امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوا اسکا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ ان
مظالم کو تاریخ کے صفحات پر جگہ نہیں دی گئی اور امریکی بچوں کے نصاب میں اسکا
کوئی ذکر نہیں۔1989میں ایک امریکی رکن
کانگریس جان کانیرز John Conyersنے افریقی امریکیوں کیلئے تلافی کمیشن ایکٹ یاCommission to Study Reparation Proposals for African-Americans
Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں سے پیش کیا تھا۔
بل کے ابتدائئے میں اسکا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 1619 سے 1865 کے
دوران سیاہ فام لوگوں کو غلام بناکر رکھا گیا، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے
اور یہ پوری نسل بدترین ناانصافی کاشکار ہوئی۔ ان جرائم کی تحقیق کیلئے ایک اعلیٰ
اختیاراتی کمیشن ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو غلام بناکر امریکہ لائے جانیوالے
افریقیوں کے نقصانات کا اندازہ لگائے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ آزاد انسانوں کی
نفسیات پر غلامی کی ذلت نے کیا منفی اثر ڈالا ہے؟ غلامی ختم ہونے کے بعد بھی سیاہ
فام بدترین نسلی تعصب اور حقارت کا نشانہ بنائے گئے جسکے اثرات اج تک نمایاں ہیں۔
یہ کمیشن ناانصافیوں اور سیاہ فام لوگوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی
سلوک کا غیرجانبدارانہ جائزہ لے اور اسکی تلافی کیلئے اقدامات تجویز کرے۔ بل میں کہا گیا ہے کہ
افریقیوں کو غلام بنانے کے ذمہ دار صرف وہ قزاق نہیں جنھوں نے افریقیوں کو انکے
گھروں سے پکڑا بلکہ ملک میں قائم غلام منڈیوں کو امریکی حکومت کا تحٖفظ حاصل تھا
اور غلاموں کی خرید و فروخت کے بعد انکا انتقالِ ملکیت سرکاری دستاویز پر ہوتا تھا
چنانچہ اس بدترین ظلم کی ذمہ داری براہ راست امریکی کانگریس اور حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
مسٹر کونئرز کی قرارداد کو سپیکر نے منظور کرکے اسے بل کی
شکل میں HR-40کی حیثیت سے درج
کرلیا۔ اسوقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس
ہے لیکن اسے سماعت کیلئے پیش نہیں کیا گیا
بحث اور رائے شماری تو دور کی بات ہے۔ہر دوسال بعدبار یہ قراداد کانگریس کی مدت
ختم ہوجانے پر غیر موثر ہوجاتی ہےْ تاہم جناب کانئیرز بھی بہت مستقل مزاجی کے ساتھ
اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ 2017میں ایک اسکینڈل کا شکار ہوکر جناب کونئیر کانگریس سے مستعفی اور گزشتہ برس اکتوبر
میں دنیا سےرخصت ہوگئے لیکن 34 سال گزرجانے کے بعد بھی یہ بل ذیلی کمیٹی ہی کے پاس ہے اور اسے بحث کیلئے پیش
نہیں کیا گیا۔
تین سال پہلے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن UNHCRکی سربراہ محترمہ مشل بیشلیٹ نے بھی نسل در نسل غلامی اور نسلی امتیاز سے پہچنے والے نقصانات کے ازالے کیلئے سیاہ فاموں کو تاوان اداکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment