Thursday, June 8, 2023

مقتدرہ فلسطین کا زوال، حماس کا کمال و اقبال ؟؟؟ مصالحت کیلئے قظر، ترکیہ اور مصر کی کوششیں

 

مقتدرہ فلسطین  کا زوال،   حماس  کا کمال و اقبال ؟؟؟

مصالحت کیلئے قظر، ترکیہ اور مصر کی کوششیں

اسرائیلی  خفیہ ایجنسی برائے اندرونی سلامتی ، تحفظِ بیت (عبرانی تلفظ شین بیت) المعروف شاباک کے سربراہ رونن بار (Ronen Bar)گزشتہ ہفتے خصوصی دورے پر امریکہ تشریف لائے۔ یکم جون کو واشنگٹن میں سی آئی اے کے سربراہ ولیم برنس اور وزارت خارجہ کے اعلی افسران سے  طویل ملاقاتوں کے کئی طویل دور چلے۔ اسی دوران اسرائیل کے وزیربرائے تزویراتی (strategic) امور رون ڈرمر اور مشیر قومی سلامتی ذکی حنافی( Tzachi Hanegbi) )  بھی امریکی دارالحکومت میں موجود تھے۔ ان دونوں حضرات نے امریکی صدر کے مشیرِ  قومی سلامتی  جیک سولیون سے ملاقات کی۔

سرکاری اعلامئے کے مطابق ان ملاقاتوں میں ایرانی جوہری پروگرام پر گفتگو کی گئی۔ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ تہران کسی بھی وقت جوہری دھماکہ کرسکتا ہے۔ کئی دہائیوں سے عائد اقتصادی پابندیاں اور حجاب کے معاملے پر اٹھنے  بلکہ اٹھائی جانیوالی شورش  ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ جوہری پروگرام کیخلاف اب تک کوئی کاروائی فیصلہ کن حد تک کامیاب نہیں ہوئی اور 'ملا' اپنے ہدف اور خواب یعنی جوہری اسلامی ایران کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

یہ تو تھا سرکاری اعلامیوں کا خلاصہ لیکن، اسرائیل کے تینوں بڑے اخبار یعنی  ٹائمز آف اسرائیل ، یروشلم پوسٹ اور الارض (Haaretz)  کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کا اصل مقصد محمود عباس کی فلسطین پر  کمزور بلکہ تحلیل ہوتی گرفت سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا خیال ہے کہ ہر گزرتے دن کیساتھ مقتدرہ فلسطین، اہلِ  فلسطین کا اعتماد کھوتی جارہی ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی کے باجود، مقتدرہ   قوتِ نافذہ سے محروم اور اخوانی فکر کی حامل حماس کے  اثرات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔

السلطہ الوطنيہ الفلسطينیہ یا PNAالمعرف PAکا قیام معاہدہ اوسلو کا نتیجہ ہے۔سلطہ سے مراد ریاست ہے لیکن عملاً یہ ایک انتظامی اختیار ہے اسلئے ہم نے اسے Palestinian Authority یا مقتدرہ فلسطین کہا ہے۔اس موضوع ہر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کیلئے  علاقے کی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر

فلسطین کی تاریخ  کئی ہزار پرانی ہے جب حضرت ابراہیمؑ یہاں تشریف لائے اور اسکے بعد انکے جلیل القدر پوتے حضرت اسحقٰؑ  کی پشت سے بنی اسرائیل نے جنم لیا۔ اللہ نے اس بابرکت سرزمین  کو مومنوں کیلئے شفیق اور اپنے باغیوں کیلئے شمشیر ِنے بے نیام باشاہوں اور عظیم الشان پیغمبروں سے نوازاتھا۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں چنانچہ ہم اپنی آج کی گفتگوکو  علاقے کی حالیہ خون آشام و نامراد تاریخ تک محدود رکھیں گے۔ اس سے پہلے بھی ایک نشست میں  ہم یہ نوحہ پڑھ چکے ہیں۔

 اقوام متحدہ نے 29 ستمبر 1947فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد  دوقومی نظرئے کے مطابق اس ارض، مقدس کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا گیا اور  تقسیم اُسی 'منصفانہ' اصولوں پر ہوئی جسےایک ماہ پہلے تقسیم ہندکے وقت اختیار کیا گیا تھا۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو سرزمینِ فلسطین کا 56 فیصد اور فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین نصیب ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔

تقسیم کے ساتھ ہی برطانوی فوج کی سرپرستی میں دہشت گردوں نے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بنانا شروع کیا، حتیٰ کہ  5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی۔  تقسیم فلسطین معاہدے کے تحت بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو اسلحہ لے کر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ نہتے فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ متعصب عسکری تجزیہ نگاروں نے سنگدلانہ طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس مزاحمت کاہدف تحفظِ قُدس سے زیادہ حصولِ شہادت تھا۔ اسی کیساتھ ڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

مسلح دہشت گردوں نے پیشقدمی جاری رکھی اور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2 کروڑ مربع میٹر اراضی چھین لی گئی۔ جون 1967 کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنک (عبرانی ملحمت ستہ) فلسطینیوں کی کم نصیبیوں کا ایک اور سنگ میل ثابت ہوئی جب  دریائے اردن کا مغربی کنارہ، مسجد الاقصیٰ سمیت سارا بیت المقدس، ہضبۃ الجولان (Golan Heights) اور صحرائے سینائی کا بڑا حصہ اسرائیل کے قبضے میں آگیا۔چھ سال بعد 1973 کی 19 روزہ جنگ رمضان نے جسے اسرائیل جہادِ یوم کپر کہتے ہیں، مزید عرب علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوگیا اور ساتھ ہی عربوں کے حوصلے بھی جواب دے گئے۔

موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قبضے کو قانونی ٰحیثیت دینے کیلئے مذاکرات کا ڈول ڈالاگیا۔ اس تنازعے کے بنیادی  فریق اسرائیل، تنظیم آزادی فلسطین یا PLO، مصر، شام اور اردن ہیں۔ شام نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کی بات چیت سے انکار کردیا اور شامی اب تک اپنے اس موقف پر قائم ہیں۔ پی ایل او، مصر اور اردن امریکہ کی کوششوں سے امن مذاکرات پر تیار ہوگئے جسے Land for Peaceفارمولے کا نام دیا گیا۔۔اسوقت ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن امریکہ کے صدر تھے۔ انکے وزیرخارجہ وارن کرسٹوفر Warren Christopherنے  پی ایل اور کے سربراہ یاسر عرفات سے تیونس میں کئی ملاقاتیں کیں اسی دوران ممتاز امریکی سفارتکار ہنری کسنجر نے بھی اہم کردارادا کیا

اس سلسلے میں پہلے باقاعدہ مذاکرات 30اکتوبر 1991 کو اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں ہوئے جس میں اسرائیل، لبنان، اردن اور پی ایل او کے نمائندوں نے شریک کی ، 1993 کے آغاز پر ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں پی ایل او اور اسرائیل  کے درمیان خفیہ امن مذاکرات کا آغاز ہوا۔ بات چیت کے دوران پی ایل او نے اسرائیل کو بطورِ ریاست اور اسرائیل نے پی ایل اور کو فلسطینیوں کی  نمائندہ تنظیم تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس مفاہمت کومعاہدہ اوسلو کا نام دیا گیا

ستمبر 1993 میں صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں اسرائیل کے وزیراعظم اسحاق رابن اور پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات امن معاہدے پر راضی ہوگئے اور ' عبوری خود مختار حکومت کے  اصولی  اعلان' کے عنوان سے واشنگٹن میں ایک معاہدے پر پی ایل او کی جانب سے محمود عباس اور اسرائیلی وزیرخارجہ شمعون پیریز نے دستخط کئے۔ یہ معاہدے سے زیادہ مفاہمت کی یادداشت تھی جس میں دریائے اردن کےمغربی کنارے اور غزہ کا سیاسی انتظام PLO کو سونپنے کا وعدہ کیا گیا۔ اعلانات میں امریکی حکام نے اسے خودمختار فلسطینی ریاست کی طرف پہلا قدم قراردیا لیکن حقیقت میں  مجوزہ فلسطینی مقتدرہ کا اختیار رئیسِ شہر یا Mayorسے زیادہ نہ تھا۔

مقتدہ فلسطین کے پہلے عام انتخابات منعقدہ 1996 میں جناب یاسرعرفات 90 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے جبکہ انکی حریف بائیں بازو کی محترمہ سمیحہ خلیل المعروف ام خلیل نے10 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ پارلیمانی انتخابات میں الفتح نے المجلس التشریعی الفسطین (قومی اسمبلی) کی 88 میں سے 50 نشستیں جیت لیں اور 35 نشستوں کے ساتھ آزاد امیدوار دوسرے نمبر پر رہے۔ ان انتخابات میں حماس غیر جانبدار رہی لیکن اسکے قائد شیخ یاسین کی ہمدردیاں یاسرعرفات کے ساتھ تھیں۔ شدید بیماری کے بعد نومبر 2004 میں یاسرعرفات انتقال کرگئے اور 2005 کے صدارتی انتخابات میں محمود عباس کنیت ابو مازن  67 فیصد ووٹ لیکر صدر منتخب ہوئے۔

فلسطین کے پہلے اور  آخری آزادانہ انتخابات 25 جنوری 2006کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوئے۔ان  انتخابات میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 76 فیصد سے زیادہ رہا۔ اسرائیل نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے  انتخابات میں حماس کی شمولیت پر اعتراض کیا۔ یہی نقطہ نظر اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم یہود اولمرٹ نے اس معاملے پر براہ راست امریکی صدرسے بھی بات کی لیکن جارج بش نے موقف اختیار کیاکہ انتخابات میں حصہ لینے سے حماس کا رویہ نرم و متوازن ہوجائیگا۔

  دورانِ انتخاب حماس قیادت کی پکڑ دھکڑ اور بدترین پابندیوں کے باوجود حماس نے قومی اسمبلی کی 132 میں سے 74 نشستیں جیت کر اسرائیل کو حیران کردیا۔ محمود عباس کی  الفتح نے 45 اور عرب قوم پرست پاپولر فرنٹ نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ تین دوسری جماعتوں  اور آزاد امیدواروں نے 10 نشستیں جیتیں۔حماس نے غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن میں بھی کامیابی حاصل کی تھی حتی کہ ، یروشلم، بیت اللحم، رام اللہ اور غزہ کے مسیحی علاقوں میں بھی حماس کی کارکردگی اچھی رہی۔

مارچ 2006 میں فلسطینی پارلیمان نے اسماعیل ہانیہ کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔ فلسطینیوں میں اخوان کی مقبولیت پر اسرائیل اور خلیجی ممالک کو شدید تشویش تھی۔ فلسطینیوں کی نئی انتطامیہ کو اسرائیل اور امریکہ نے تسلیم نہیں کیا اور مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کو بھی نئی فلسطینی حکومت کے بارے میں شدید تحفظات تھے ۔

حکومت کی تشکیل کے صرف تین ماہ بعد غزہ کے قریب فلسطینیوں کے ایک مظاہرے پر اسرائیلی فوج نے حملہ کیا اور اس دوران مظاہرین نے ایک اسرائیل فوجی کو اغوا کرلیا۔اپنے سپاہی کی بازیابی کیلئے اسرائیلی فوج نے غزہ پر حملہ کردیا اور خوفناک بمباری کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔حماس کے کئی ارکان اسمبلی اسرائیلی فوج نے گرفتار کرلئے۔ کچھ دن بعد اسرائیلی فوج دریائے اردن کے مغربی کنارے پر چڑھ دوڑی اور رام اللہ میں مقتدرہ فلسطین کے سیکریٹیریٹ سے وزرا، ارکان اسمبلی اور حماس کے رہنماوں کو اٹھا کر لے گئی۔

اسی کیساتھ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کیلئے میڈرد میں قائم کئے جانے والے چار فریقی ادارے Madrid Quartetنے بھی  فلسطینی حکومت پر تشویش کا اظہار کردیا۔جلد ہی اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور روس پر مشتمل   Quartetجو ایک غیر جانبدارمشاورتی ادارہ تھا، حماس حکومت ختم کرنے کیلئے یکسو ہوگیا۔ اس سے شہہ پاکر اسرائیل نے فلسطینی حکومت کے وزرا اور اہلکاروں پر غزہ، بیت المقدس اور غزبِ اردن کے درمیان سفر پر پابندی لگادی۔اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت بحر روم کی اشددو بندرگاہ سے حاصل ہونے والا محصول اسرائیل اور مقتدرہ فلسطین میں تقسیم ہوتا ہے۔ وزیراعظم یہود المرٹ نے ایک حکم کے تحت محصولات سے فلسطینیوں کا حصہ معطل کردیا۔اسرائیل کی جانب سے محصولات کے انجماد نے فلسطینی حکومت سخت مشکلات میں مبتلا ہوگئی، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پیسہ نہ رہا۔ الفتح ان ملازمین کو سڑکوں پر لے آئی۔ جلد ہی سیاسی مظاہرے حماس اور الفتح کے درمیان فوجی تصادم میں تبدیل ہوگئے اور 15 جون 2007 کو صدر محمود عباس نے وزیراعظم ہانیہ اسماعیل کو برطرف کرکے سلام فیاض کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ حماس نے اس پر احتجاج کیا لیکن اسرائیل نے ہانیہ اسماعیل اور حماس کو غزہ تک محدود کردیا۔اسرائیل اور مصرنے غزہ کی ناکہ بندی کرکے فلسطین کو حماس کے زیرانتظام غزہ اور الفتح کے زیر اثر ٖغربِ اردن میں تقسیم کردیا۔

فلسطین کی اس تقسیم کے بعد سے اسرائیل نے غزہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ خوفناک بمباری، آہنی باڑھ کی دوسری جانب سے مہلک گولہ باری روزمرہ کا معمول ہے۔ اسکے علاوہ بحر روم سے اسرائیلی بحریہ بھی فلسطیی ماہی گیروں اور ساحل پر کھیلتے بچوں پر نشانے بازی کی مشق کرتی ہے۔

اسوقت اسرائیل، یورپی یونین اور اکثر عرب و خلیجی ممالک کیلئےحماس  دہشت گرد تنظیم ہے اور خود اقوام متحدہ بھی اسے دہشت گرد سمجھتی ہے لیکن اسرائیلی میڈیا کے جائزے حماس کو غزہ کے ساتھ غرب اردن کی مقبول ترین جماعت قرار دے رہے ہیں۔ غرب اردن کی جامعات اور کالجوں کی طلبہ یونینیں  بھی حماس سے وابستہ وفا بلاک کے زیراثر ہیں۔ دوہفتہ پہلے جامعہ بیرزیت(BZU)کی طلبہ کونسل انتخابات میں وفا بلاک نے  49 فیصد اور الفتح کے  یاسر عرفات بلاک نے 39 فیصد ووٹ لئے۔ ایسے ہی نتائج نابلوس کی جامعہ النجاح اور ہیبرون کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی کے رہے۔

حمااس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور مقتدرہ فلسطین کی کمزور پڑتی گرفت پر سب سے زیادہ تشویش اسرائیل کو ہے۔ موقر اسرائیلی جریدے الارض یا ہارٹز کے مطابق  فوج اور خفیہ ادارے شاباک نے چند ماہ پہلے اسرائیلی کابینہ کو بتایا کہ مقتدرہ فلسطین کی ممکنہ تحلیل  پر فوج کو سخت تشویش ہے، عسکری  حکام نے کابینہ کو متنبہ کیا کہ مقتدرہ کے ڈھےجانے سے اسرائیل کی قومی سلامتی اور غرب اردن کے شہری امور دونوں پر انتہائی مہلک اثرات مرتب  ہونگے

اس حوالے سے واشنگٹن میں کیا حکمت طئے کی گئی اس بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آئی کہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر اسرائیلی و امریکی حکام نے اپنے ہونٹوں پر تالے لگارکھے ہیں۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکہ  الفتح اور حماس کے درمیان  مصالحت کیلئے قطر سے مدد کی درخواست کررہا ہے۔ ماضی میں قطر نے اس سلسلے میں ثالثی کی کوشش لیکن  اسرائیل اور اسکے خلیجی اتحادیوں نے انھیں ناکام بنادیا۔ ترک صدرایردوان نے  گزشتہ برس نومبر میں الفتح اور حماس کیساتھ دوسری فلسطینی تنظیموں کوانقرہ مدعو کیا۔ جس پر اسرائیل کی جانب سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس سے پہلے محمود عباس نے مصر سے مصالحت و ثالثی کی درخواست کی تھی اور قاہرہ مذاکرات میں الفتح، الجہاد، حماس اور فلسطین کی تمام تنظیموں نے  انتخابات میں حصہ لینے اور انتخابی نتائج کو کھلے دل سے  تسلیم کرنے کا اعلان  بھی کیا لیکن معاملہ اس سے آگے نہ بڑھا

فلسطین کے اندرونی امن اور مفاہمت کیلئےقطر اور ترکیہ کے اخلاص پر کوئی شببہ نہیں لیکن اسرائیل الفتح اور حماس کے اتحاد اور باہمی یکجہتی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسری طرف اسے یہ خوف بھی  ہے مقتدرہ فلسطین کی تحلیل سےجنم لینے والا خلا کہیں ایک نئی تحریکِ مزاحمت یا انتفاضہ کا نقطہ آغاز نہ بن جائے۔ماہرین کے خیال میں فلسطینی علاقوں میں استحکام کی کنجی حماس کے پاس ہے اور اسکا تصور ہی اسرائیلی قیادت کی نیند اڑائے دے رہا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 جون 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 9 جون 2023

روزنامہ امت کراچی 9 اپریل 2023

ہفت روزہ رہبر دہلی 11 اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment