سینیٹ کے انتخابات۔۔۔ بڑھابھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے
سینیٹ کے انتخابات کے بارے کہا جارہا ہے کہ یہاں خوب رشوت چلی ہے۔ستم ظریفی کہ خرید و فروخت کا ہنگامہ خود حکمراں جماعت نے کھڑا کیاہے۔ وزیراعظم سمیت ساری کابینہ الیکشن کمیشن کو مطعون کررہی ہے کہ انتخابات منعقد کرنے والوں نے اپنی ذمہ داری ٹھیک سے ادا نہیں کی، حالانکہ حالیہ چناو میں تحریک انصاف نے اپنا پارلیمانی حجم دگناکرلیا ہے۔
پاکستان کا تعلیمیافتہ طبقہ بد ترین احساس کمتری کا شکار ہے اور ہم لوگ ہر وقت خود کو کوستے رہتے ہیں۔ عام خیال ہے کہ
- پاکستانی جاہل ہیں، انھیں اچھے برے کی تمیز نہیں
- امانت و دیانت کے حوالے سے پاکستان دنیا کا بد ترین ملک ہے
- پاکستانی ڈنڈے سے سیدھی رہنے والی قوم ہے جہاں جمہوریت نہیں چل سکتی
اور اب تو عدالت عظمیٰ کے ایک فاضل قاضی صاحب نے ملکِ خداداد کو گٹر قراردے دیا ہے
اگر ہم جیسے لوگ اس رائے سے اختلاف کریں تو کہا جاتا ہے کہ آپ ماضی میں جی رہے رہے ہیں اور حقیقت کا سامنا نہیں کرسکتے۔ پاکستانی دانشوروں کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ خوداحتسابی اور خود کو ملامت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اس تمہید کے بعد آتے ہیں سینیٹ کے حالیہ انتخاب کی طرف
سینیٹ کا انتخابی کالج ملک کی صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ اس تناظر میں نتائج کا جائزہ لیا جائے تو 'ووٹ فروشی' کا شبہہ بےبنیاد نظر آتا ہے
سندھ میں پیپلزپارٹی کو واضح بلکہ بھاری اکثریت حاصل ہے۔ یہاں کل نشستوں کی تعداد 165ہے جن میں سے 99 پر پیپلز پارٹی براجمان ہے۔ تحریک انصاف 30 کیساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ 21 نشستیں ایم کیوایم کے پاس ہیں۔ سندھ سے سینیٹ کے نتائج حصہ بقدرِ جسہ رہے، یعنی پیپلز پارٹی نے 7، ایم کیوایم نے 2 اور تحریک انصاف نے 2 نشستیں اپنے نام کرلیں
تعداد کے اعتبار سے سب سے چھوٹا صوبہ بلوچستان ہے جہاں ضمیر فروشی نسبتاً آسان اور منافع بخش ہے لیکن یہاں کے نتایج بھی پارلیمانی حجم کے مطابق نظر آرہے ہیں۔ بلوچستان کی کل 65 نشستوں میں سے 24 باپ کے پاس ہے جبکہ فضل الرحمان 11 کیساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ یہاں باپ نے 7، فضل الرحمان نے 2 اور اے این پی نے ایک نشست حاصل کی جبکہ دو نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔
خیبر پختونخواہ کی 145 رکنی اسمبلی میں 94 کے ساتھ تحریک انصاف کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ فضل الرحمان کے پاس 15 اور 12 نشستوں پراے این پی کے ارکان تشریف فرما ہیں۔ یہاں بھی نتیجہ پارلیمانی حجم کے مطابق رہا یعنی تحریک انصاف نے 10 نشستیں جیتیں اور ایک ایک کرسی فضل الرحمان اور اے این پی کے ہاتھ لگی
پنجاب میں باہمی مفاہمت سے ایک نشست ق لیگ کو دیکر باقی دس نشستیں تحریک انصاف اور ن لیگ برابر برابر تقسیم کرلیں۔ قصہ مختصر، چاروں صوبوں میں کہیں بھی غیر متوقع یا غیر حقیقی نتیجہ نہیں نکلا کہ ارکان اسمبلی کی دیانت پر شبہہ کیا جائے
اب آتے ہیں اسلام آبادکی طرف۔ یہاں کے انتخابی کالج یعنی 342 رکنی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور انکی اتحادیوں کی مجموعی تعداد 178 ہے اور دوسری طرف حزب اختلاف کو 160 ارکان کی حمائت حاصل ہے۔ یہاں عام نشست پر یوسف گیلانی نے 169 اور ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے 164 ووٹ لئے۔ شیخ صاحب کے 7 ووٹ مسترد ہوگئے۔ دوسری طرف خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی ڈاکٹر فوزیہ ارشد نے سرکار کے پارلیمانی حجم کے مطابق 174 ووٹ لے کر انتخاب جیت لیا۔
کہا جارہا ہے کہ زرداری صاحب نے تحریک انصاف کے ارکان سے ووٹ خرید کر یوسف گیلانی کی کامیابی کو یقینی بنایا ہے اور ایک ایک ووٹ کے کروڑوں دئے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب رکن اسمبلی ضمیر بیچنے پر تیار ہوہی گیا تھا یا تھی تو اس سے خواتین کی نشست کا ووٹ کیوں نہ خریداگیاچنانچہ ہمارا تجزیہ مختلف ہے۔
تحریک انصاف کے ارکان ایک عرصے سے حکومت پر غٖیر منتخب ارکان کی اجاری داری کی شکائت کررہے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی کے کئی اجلاسوں میں ارکان نے اس معاملے پر اپنی بیچینی کا اظہار کیا ہے۔ اور تو اور جناب فواد چودھری نے اس سلسلے میں ٹویٹ بھی لکھے ہیں۔ تحریک انصاف کے ارکان ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر رضا باقر کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے اور ان دونوں کو حالیہ مہنگائی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں بلکہ کچھ ارکان کا تو خیال ہے کہ حفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے زور پر متوازی حکومت قائم رکھی ہے اور وزیر اعظم نے دباو میں آکر ڈاکٹر صاحب کو ٹکٹ جاری کی تھی۔ تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کیلئے یوسف رضا گیلانی بھی قابل قبول نہ تھے چنانچہ انھوں نے حفیظ شیخ کو ووٹ ڈالنے کے بعد بیلٹ پیپر خراب کردئے جسکے نتیجے میں ووٹ مسترد ہوگئے۔ اس تجزئے کو آپ نظریہ سازش کہہ کر مسترد کرسکتے ہیں لیکن جب تینوں صوبائی اسمبلیوں میں چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود پی ٹی آئی کے تمام ارکان نے دیانت داری سے پارٹی امیدواروں کو ووٹ دئے تو ارکانِ قومی اسمبلی پر خیانت کے شبہے کی کیا وجہ ہے؟
No comments:
Post a Comment