اسرائیلی سیاست پر بھی مُلّا چھاگئے
پچیس ماہ کے دوران اسرائیل کے چوتھے انتخابات 23 مارچ کو منعقد ہوئے اور اس بار بھی کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ ان انتخابات کا سب دلچسپ پہلو یہ ہے کہ چار نشستوں والی اسلام پسند جماعت کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
یہاں 1967 کے بعد ہتھیائے گئے علاقے کے لوگ قانونی طور پر 'مہاجر' سمجھے جاتے ہیں جو اسرائیلی شہریت کے حقدار نہیں لیکن قیام اسرائیل یعنی 1947 کے وقت جو عرب، یروشلم اور اسکے مضافات میں آباد تھے انھیں اسرائیلی شہری تسلیم کر لیا گیا۔ اسرائیل کی کل آبادی میں ایسے عربوں کا تناسب 25 فیصد کے قریب ہے جن میں 21 فیصد مسلمان اور باقی ماندہ 4 فیصد مسیحی ہیں۔
ووٹر رجسٹریشن کیلئے چھان بین کا نظام بہت سخت ہے اور دہشت گرد قرار دے دئے جانے کے خوف سے نصف کے قریب عرب بطور ووٹر رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔انتخابات کے دن عرب علاقوں کی نگرانی سخت کردی جاتی ہے۔ 'دہشت گردوں' کی جانب سے جمہوری عمل میں متوقع رکاوٹ کے سدباب کیلئے مسلم علاقوں میں چھاپے اور پکڑ دھکڑ کا بازار گرم رہتا ہے۔ انتخابی مراکز کی نگرانی کیلئے پولنگ بوتھ کے اندر کیمرے نصب ہیں۔ انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمان ووٹروں کو دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، چنانچہ عرب اور خاص طور سے مسلم علاقوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان خاصہ کم رہتا ہے۔اس بار پورے اسرائیل میں ووٹ ڈالنے کا تناسب ساڑھے 67 فیصد رہا لیکن عرب علاقوں میں 35 فیصد سے کم ووٹ ڈالے گئے۔ ستم ظریفی کہ مہذب دنیا اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت قراردیتی ہے۔ جہاں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکاجائے اس معاشرے کو جمہوری کیسے کہا جاسکتا ہے؟
بار بار انتخابات کی بنیادی وجہ اسرائیل میں رائے عامہ کی مذہبی و نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمنٹ) 120 نشستوں پر مشتمل ہے اور گزشتہ چار انتخابات میں کوئی بھی جماعت 36 سے زیادہ نشستیں نہ لے سکی۔دورحاضر کی اسرائیلی سیاست پانچ واضح گروہوں بلکہ راجواڑوں پر مشتمل ہے یعنی وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کی قیادت میں دائیں بازو کا لیکڈ اتحاد، یہودی علمار (ربائی)،عرب مسلم اتحاد،قوم پرست، بایآں بازو اور لبرل قوتیں
نئی پارلیمان کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو کے لیکڈ اتحاد اور انکے مذہبی حلیفوں کی مجموعی نشستیں 52 اور انکے مخالفین کا پارلیمانی حجم 51 ہے۔ سات نشستوں کے ساتھ دائیں بازو کی یمینیہ کے قائد نفتالی ن بینیٹ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے لیکن جو اتحادبھی حکومت سازی کے قابل ہوا اسے وہ اعتماد کا ووٹ دے دینگے، تاہم یمینیہ کو ملاکر بھی حکومت سازی کیلئے 61 کا مطلوبہ عدد پورا نہیں ہوتا اور ایوان وزیراعظم کی کنجی اب 4 نشستوں والی اسلام پسند رعم Ra’am))کے پاس ہے
رعم کے قائد46 سالہ منصور عباس پیشے کے اعتبار سے طبیبِ داندان (Dentist)ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے جامعہ حیفہ سے سیاسیاتِ اسرائیل میں ایم اے بھی کیاہے۔ موصوف عالم و خطیب بھی ہیں اور 17 برس کی عمر سے یروشلم کی مسجدِ امن میں خطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔اسرائیل میں اخوانی فکر سے وابستہ نوجوانوں نے 1971میں اسلامی تحریک برائے اسرائیل کے نام سے تنظیم قائم کی۔آزادی فلسطین سے اظہار وابستگی کیلئے اب یہ تحریک Islamic Movement in 48 Palestineکہلاتی ہے یعنی وہ فلسطین جو اسرائیل کے قیام سے پہلے تھا۔ منصور عباس تحریک اسلامی اسرائیل کی مجلس شوری کے رکن اور منطقہ جنوبی کے نائب امیر ہیں۔
عربوں کو اپنے ساتھ ملانے والااسرائیل کا غدار کہلاتا ہے اسلئے بی بی اورانکے مخالفین عربوں کے سائے بھی دور تھے۔لیکن نیتن یاہو کو بدعنوانی و بے ایمانی کے مقدمات کا سامنا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے استثنی نے انھیں ابھی تک عدالتی شکنجے سے دور رکھا ہوا ہے، لہٰذا خود کو اس منصب پربرقرار رکھنا بی بی کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔چانچہ رعم کو اسرائیل دشمن و غدار کہنے والے نیتن یاہو نے کل اپنے خصوصی نمائندے ایوب کارا کو منصور عباس کے پاس بھیجا ۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت Yesh Atidیا مستقبل پارٹی کیلئے یہ دوچارہاتھ جبکہ لبِ بام رہ گیا والا معاملہ ہے۔اتوار کو مستقبل پارٹی کے سربراہ ییر لیپڈ (Yair Lapid)نے منصور عباس اور شہر طیبہ کے Mayor شعاع المصور کو اپنے گھر مدعو کیا۔ شعاع المصور کا تعلق بھی اسلامک موومنٹ سے ہے اور وہ تحریک کے قانونی مشیر ہیں۔
ملاقات کے بعد رعم کے اعلامئے میں کہا گیا ہےکہ گفتگو کے دوران نئی حکومت کی تشکیل پر بات ہوئی اور اس سلسلے میں ایک اور نشست جلد متوقع ہے۔ نعم ذرایع کے مطابق منصور عباس نے حکومت سازی سے تعاون کیلئے شرائط پیش کیں جن میں عرب مکان مالکان کو بلدیات کی جانب سے انہدام کے نوٹسوں کی واپسی، کچی آبادیوں کو مستقل کرنا، عرب بستیوں پر حملہ کرنے والےاسرائیلی دہشت گردوں کی سرکوبی، عربوں کے حق رائے دہی کو قانونی تحفظ کے علاوہ ملاوں نے ہم جنس پرستوں (LGBT)سے امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے بھی قانون سازی پر زور دیا۔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
اسرائیلی سیاستدان اسوقت بڑی آزمائش میں ہیں کہ یاتو جھوٹی انا کی قربانی دیکر عربوں کو حکومت میں حصہ دیں ورنہ پانچویں انتخابات کیلئے تیار ہوجائیں۔ یہ بات بھی خارج ازامکان نہیں کہ بڑی برائی سے بچنے کیلئے ایک قومی حکومت تشکیل دیدی جائے لیکن اس صورت میں نیتن یاہو کو اقتدار کی قربانی کے ساتھ شائد جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے
No comments:
Post a Comment