Wednesday, March 17, 2021

لیبیا میں استحکام کی امیدِ موہوم

لیبیا میں استحکام کی امیدِ موہوم

لیبیا میں متحارب گروہوں کے درمیان معاہدے کے بعد عبوری حکومت نے حلف اٹھالیا۔دسمبر 2010 میں تیونس سے اٹھنے والی  عوامی بیداری کی لہر المعروف  ربیع العربی یا عرب اسپرنگ سے  ساری عرب دنیا کی طرح لیبیا بھی متاثر ہوا اور فروری 2011سے ملک  کے طول و عرض میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ طاقت کے غیر ضروری استعمال  نے جلتی پر تیل کا کام کیا،  جواب میں مظاہرین بھی مسلح ہوگئے  یا کردئے گئے اور 20 اکتوبر 2011 کو کرنل قذافی ایک مسلح جتھے کے ہاتھوں مارےگئے۔

اچھی بات یہ ہوئی کہ  لیبیا کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے سیاسی عمل کی حمائت جاری رکھی۔جولائی 2012میں پارلیمانی انتخابات ہوئے اور جرنیلوں کی عبوری کونسل نے اقتدار جنرل نیشنل کونسل(GNC) کو منتقل کردئے۔ انتخابات کے فوراً بعد ملک میں بم دھماکے اور فرقہ وارانہ فساد شروع ہوگئے اوراسی کے ساتھ سیاسی جوڑ توڑ بلکہ خریدوفروخت کا بازار بھی گرم ہوگیا۔ نامزد وزیراعظم مصطٖفے شکور اعتماد کا ووٹ لینے میں ناکام رہے۔ جسکے بعدعلی زیدان وزیراعظم نامزد ہوئے لیکن ڈیڑھ سال بعد مارچ 2014 میں تیل اسمگلنگ کے اسکینڈل نے انکی بساط لپیٹ دی اور عبداللہ الثانی وزیراعظم منتخب کرلئے گئے۔ عبداللہ الثانی نے سیاسی عدم استحکام اور بدامنی سے پریشان ہوکر جمہوری ڈرامہ  ختم کرکے سنوسی بادشاہت کے قیام کی تجویز دی لیکن انکے موقف کو پزیرائی نہ مل سکی۔

جون 2014 کو پارلیمانی انتخابات ہوئے۔ اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں زبردست ہنگامہ ہوا۔ ارکان کے ایک گروپ نے اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کرکے مخالفین کو نکال دیا۔ یہاں سے نکلے ہوئے ارکان نے مشرق میں مصر کی سرحد پر ساحلی شہر طبرق کو دارالحکومت قراردیکر پارلیمان سجالی ۔ متوازی اسمبلیوں نے قوت کے حصول کیلئے عسکریت پسندوں سےتعلقات استوار کرلئےاور یہیں سے لیبیا کی تباہی کے  نئے دور کا اغاز ہوا۔  

سیاسی خلا اور عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف داعش نے لیبیا میں انٹری ڈالدی تو دوسری جانب ملک کی خدمت کا 'جذبہ' لئے خلیفہ حفتر امریکہ سے واپس آگئے۔ ملک واپس آتے ہی انھوں نے  مصر کی پشت پناہی میں لیبیا نیشنل آرمی (LNA) کے نام سے اپنی ملیشیا بنالی اور آناً فاناً ملیشیا کو جدید ترین اسلحے سے لیس کردیا گیا۔

مارچ 2015کو طرابلس اسمبلی، طبرق اسمبلی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے درمیان وفاق الوطنی یا GNAکے نام سے ایک  وسیع البنیاد حکومت کا معاہدہ طئے پاگیا جسکی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ توثیق کردی۔ بحث مباحثے کے بعد وزیراعظم کیلئے فائز السراج کے نام پر اتفاق ہوگیا اورفائز انتظامیہ نے طرابلس آکر اقتدار سبنھال لیا۔

لیبیا کے  دشمنوں کیلئے امن و استحکام موت کا پیغام تھا چنانچہ حفتر ملیشیا کو GNAکے خلاف کھڑاکیا گیا۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے  ملیشیاکیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئے۔ لیبیا  میں روس کے فوجی اڈے قذافی دور سے تھے ، صدرپوٹن بھی حفتر کی حمائت میں آگئے۔ اسرائیل اور فرانس  پہلے ہی سے حفتر کے پشت پناہ تھے

 وزیراعظم السراج نے صدر ایردوان سے مدد کی درخواست کی ا ور  ترکی کے ڈرون نے پانسہ پلٹ دیا۔ حفتر کی دفاعی لائن تباہ ہو گئی  جسکے بعدLNAکیلئے پسپائی کے سوا اور کوئی  راستہ نہ تھا چنانچہ مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔

مراکش کی کوششوں  سے بات چیت  منطقی انجام کو پہنچی۔ معاہدے کے مطابق دسمبر میں عام انتخابات ہونگے۔ مجلس النواب (قومی اسمبلی) نے ممتاز سفارتکار محمد یونس المنفی کو  صدر اور محمد المہدی و موسیٰ الکونی کو نائب صدرومنتخب کرلیا۔ مجلس نے باسٹھ سالہ تاجر عبدالحمید الدبیبہ پر بطور وزیراعظم اعتماد کااظہار کیا  اور وزیراعظم  فائزالسراج نے کسی ٹال مٹول کے بغیر بہت ہی خندہ پیشانی سے اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کردیا۔

 منگل کوعبوری  وزیراعظم نے 26 رکنی کابینہ کے ہمراہ حلف اٹھالیا۔ لیبیا میں پہلی بار پانچ خواتین کو وزارت کے قلمدان سونپے گئے ہیں۔ ڈاکٹر نجلہ المنقوش وزیرخارجہ اور محترمہ حلیمہ عبدالرحمان وزیرانصاف ہونگی۔

کیا عبوری حکومت ملک کو متحد رکھ کر منصفانہ انتخابات کرواسکے گی؟

وزیراعظم الدیبیہ نے رائے شماری کے دوران اسپیکر عقیلہ صالح عیسیٰ کو صرف پانچ ووٹوں سے شکست دی ہے۔ عقیلہ صاحب (جی ہاں یہ مرد ہیں) نے الدبیبہ کو غیر مشروط حمائت کا یقین دلایا ہے لیکن مغرب میں وزیراعظم عبدالحمید الدبیبہ کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ موصوف حسن البنا کی فکر سے متاثر ہیں اور سید قطب کی کتابیں پڑھتے ہیں۔ لیبیا میں آسٹریا کے سفیر نے سفارتی رکھ رکھاو کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف صاف کہا کہ الدبیبی اخوان کے حامی ہیں جسکی وجہ سے یورپی یونین کو شدید تشویش ہے۔ پریشانی کی ایک اور وجہ الدبیبہ کی  صدر ایردوان سے دوستی اور ترکی سے قریبی تعلقات ہیں

سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے انتخابات کے دوران الدبیبہ کے حریف عقیلہ صالح کی حمائت کی اورانکے لئے ووٹ خریدنے پر خطیر رقم خرچ کی  یعنی ووٹوں کی خرید وفروخت صرف پاکستان ہی  میں نہیں ہوتی اور امریکہ بہادر بھی ایسی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ تاہم امریکہ نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔

اللہ کرے  حالیہ اتفاق لیبیا کے لوگوں کیلئے خیروبرکت کا سبب بنے اور 64 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ ملک بلاتاخیر خوشی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجائے


 

No comments:

Post a Comment