گیس استعمال کرنے والوں نے گیس کے کنویں خرید لئے
حب پاور کمپنی(حبکو)نے اطالوی کمپنی ای این آئی (eni)کے پیداواری اثاثے خرید نے کا ارادہ ظاہرکیا ہے۔ حبکو پاکستان میں بجلی بنانے والا پہلا اور سب سے بڑا نجی ادارہ یا IPPہے۔حب(بلوچستان) کے علاقے کنڈ اور ناروال (پنجاب) کے کارخانوں میں گیس اور تیل سے چلنے والے پلانٹ(RFO) نصب ہیں۔ اسکے علاوہ جموں و کشمیر کی لاریب انرجی کے 75 فیصد حصص بھی حبکو کی ملکیت ہیں۔ لاریب انرجی منگلا ڈیم کی نہروں میں چھوڑے جانے والی پانی سے بجلی بناتی ہے۔ قابل تجدید یا Renewableتوانائی کے اس بندوبست کو Run-off-river Hydel Based Power Production کہا جاتا ہے۔ادارے کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2920 میگا واٹس ہے۔ایندھن کی فراہمی کیلئے حبکوتھر میں کوئلے کی تلاش و ترقی کاکام بھی کررہی ہے۔ا س مقصد کیلئے تھر انرجی کے نام سے ذیلی ادارہ قائم کیا گیاہے اور کانوں کے دہانوں پر کوئلے سے چلنے والا کارخانہ لگانے کی تیاری تکمیل کے مراحل میں ہے۔
ای این آئی کی پاکستان آمد 2000 کے آخر میں ہوئی جب اس نے برطانوی ادارے London and Scottish Marine Oilیا لاسمو (Lasmo)کو خرید لیا اور لاسمو پاکستان کےاثاثے ای این آئی کے نام ہوگئے۔ ای این آئی نے ضلع دادو میں بھٹ اور بھدرا کے مقام پر گیس کے نئے میدان دریافت کرنے کے علاوہ آسٹرین کمپنی او یم وی (OMV)، بی ایچ پی (BHP)ور دوسرے ملکی اور غیرملکی اداروں سے مشارکے کے ذریعے اپنے اثاثوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ کادنواری، ساون اور زمزمہ گیس میدان ان مشارکوں کی چند مثالیں ہیں۔
گزشتہ برس این آئی کی گیس پیدوار کا تخمینہ 37 ارب مکعب فٹ (bcf)تھا۔ گیس کے ساتھ اکثر کنووں سے تیل کی بھی کچھ مقدار حاصل کی جاتی ہے۔ تیل اور گیس کی مجموعی پیدوار (Hydrocarbon)کا سالانہ حجم 70 لاکھ بیرل (boe)تھا۔ بحر عرب میں کیکڑا کنویں کی کھدائی سے ای این آئی کو سارے ملک میں زبردست شہرت حاصل ہوئی۔ای این آئی قابل تجدید توانائی کے میدان میں بھی سرگرم ہے اور بھٹ کے مقام پر شمسی توانائی کاایک جدید ترین مرکز زیرتعمیر ہے۔ خیال ہے کہ Photovoltaicکے اصول پر یہاں سے فضا کو آلودہ کئے بغیر 20 میگاواٹ برقی توانائی حاصل ہوگی۔
حبکو کی جانب سے سودے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اسکے مطابق ای این ائی کے پیدواری اثاثےاور تلاش و ترقی کے وسائل یعنی Upstream Operarationsخریدے جائنگے۔ صنعت سے غیروابستہ احباب کی وضاحت کیلئے عرض ہے کہ تیل اور گیس کو زمین کی گہرائیوں سے سطح تک لانے کی سرگرمیوں کو Upstreamکہا جاتا ہے۔ جبکہ خام تیل کی صفائی اور تقسیم کو Downstreamکا نام دیا گیا ہے۔بھٹ شمسی توانائی مرکز سمیت قابل تجدید توانائی کے وسائل اور تنصیبات بھی مجوزہ معاہدے کا حصہ ہیں۔
سودے کی سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ ای این آئی کے مقامی ملازمین نئی کمپنی میں برابر کے شریک ہونگے۔کارکنوں نے اپنی تنخواہوں اور مراعات کے عوض ای این آئی کے حصص حاصل کئے ہیں۔ کچھ محنت کشوں نے تنخواہوں اور بعد ازملازمت مراعات کی قربانی کیساتھ ملکیت حاصل کرنے کیلئےنقد رقوم بھی دی ہیں۔ اب نئے ادارے میں حبکو کی ملکیت 50 فیصد ہوگی جبکہ بقیہ نصف کے مالک ملازمین ہونگے۔
کمپنی کے اعلامئے میں سودے کی تفصیلات نہیں بیان کی گئیں لیکن کہا جارہا ہے کہ نئی کمپنی پر واجب الاد قرض اور دوسری مالیاتی ذمہ داریاں حبکو اپنے سر لے گی۔ اس اعتبار سے یہ ای این آئی کے کارکنوں کیلئے ایک پرکشش بندوبست ہے۔
خریداری سے جہاں حبکو کو اپنے بجلی کےکارخانے کیلئے گیس میسر آجائیگی وہیں بھٹ شمسی توانائی کے تجربےاور تنصیبات سے قابلِ تجدیدایندھن کا کام تیز ہوگا۔ ای این آئی کے ملک سے جانے کی بناپر کارکنوں کے روزگار خطرے میں تھے۔ اس سودے کے نتیجے میں نوکریاں محفوظ ہوجائینگی۔
تاہم حبکو کےسرپر لٹکتی ایک مہلک تلوار سوئی سدرن اور ای این آئی کے درمیان گیس فروخت کا معاہدہ (GSA)ہے جسکے تحت ای این آئی اپنی گیس سوئی سدرن کو فروخت کرنے کی پابند ہے۔ کیا تیل اور گیس کی مقتدرہ (OGRA)حبکو کو گیس کی کچھ یا ساری مقدار خود استعمال کرنے کی اجازت دیگی؟؟؟؟
No comments:
Post a Comment