Thursday, December 29, 2022

نئی اسرائیلی حکومت ۔۔ انتہا پسندوں کا اتحاد

 

نئی اسرائیلی حکومت ۔۔ انتہا پسندوں کا اتحاد

اسرائیل کے انتہاپسند رہنما بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی حکومت سازی میں کامیاب ہوگئے۔تادمِ تحریر انھوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا، لیکن  13 دسمبر کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) کے اسپیکر کے انتخاب میں حکمراں اتحاد کے امیدوار یاریف لیون Yariv Levinنے 64 ووٹ لے کر میدان مارلیا۔یا یوں کہئے  کہ بی بی نے اپنی اکثریت ثابت کردی۔ ایک سو بیس رکنی ایوان میں حکومت سازی کیلئے 61ووٹوں کی ضرورت ہے۔ اسپیکر کیلئے متحدہ حزب اختلاف کے امیدوار نے  45 ووٹ لئے۔ اس موقع پر  عرب اور مسلمان پارلیمانی وفود حزب اختلاف سے الگ رہے۔عربوں کی جماعت حداش کے امیدوار نے پانچ ووٹ لئے جبکہ اخوانی فکر کی حامل رعم اپنے پانچ ارکان کیساتھ ایوان سے غیر حاضر رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب اورمسلمان جماعتیں اس بار  کنیسہ میں حزب اختلاف سے الگ بیٹھیں گی۔رعم گزشتہ بار حکومت کاحصہ تھی۔

 اور کیا دیکھنے کو باقی ہے

 آپ سے دل لگاکے دیکھ لیا

دائیں بازو کی قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، شاس (پاسبانِ توریت) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے۔ عزمِ یہود اور خوشنودیِ رب پارٹی اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے دینِ صیہون کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ پارٹیوں کے نام سے ظاہر ہے، نئی حکومت انتہاپسند، عرب مخالف و فلسطین کش  جنگجو ٹولے پر مشتمل ہے۔نامزد وزیراعظم اگر 3 جنوری تک اعتماد کو ووٹ لیکر کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے تو  یہ بی بی کا چھٹا عہدِ حکمرانی ہوگا۔اب تک جو تفصیل سامنے آئی ہے اسکے مطابق آنے والی کابینہ میں کوئی خاتون شامل نہیں اور وزرا کی غالب اکثریت دائیں بازو کے انتہاپسندوں پر مشتمل ہے۔

حکومت سازی کو مذہبی رنگ دیتے ہوئے بی بی نے فرمایا کہ یہ کام روشنیو ں کے تہوار یا Hanukkahکی مبارک ساعتوں میں ہورہا ہے۔ شادمانی و شکرکا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمان علیہ السلام سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔عبرانی کیلنڈر کے نویں مہینے کیشلیف (Kislev)کی 26 تاریخ سے دسویں مہینے تویت (Tevet)کی دو یا تین تاریخ کو ایامِ ہنوقہ کہا جاتا ہے۔عبرانی کیلنڈر قمری ہے اسلئے انکے مہینے بھی 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں چنانچہ ہنوقہ کا اختتام ماہ تویت کی روئت پر ہے۔ اس برس  یہ تہوار 18دسمبر کو غروب آفتاب سے  شروع ہو ا ہے اور  26دسمبر کی رات کو اختتام پزیر ہوگا۔ ہنوقہ کے دوران گھرکے ہر فرد کیلئے مختص دیوں کے خوبصورت اسٹینڈ یا منوّرہ پر روزانہ شام کو ایک دیا روشن کیا جاتا ہے اور تہوار کے اختتام پر ہر اسٹینڈ 9 دیوں سے منور ہوجاتا ہے۔ اسی بناپر یہ ہنوقہِ منوّرہ بھی کہلاتا ہے۔ یہودی عقیدے کی رو سے یہ 9 دن حد درجہ مبارک اور قبولیتِ دعا کے ہیں چنانچہ انکے معبدوں میں ہر شام دعائیہ مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شاس پارٹی کے سربراہ اور توریت کے عالم اٰریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri نے 'اہلِ ایمان' کو ایامِ ہنوقہ میں نئی حکومت کی کامیابی اور نفاذِ تلمود (یہودی شریعت) کیلئے دعا کرنے کی ہدائت کی ہے۔

جناب درعی نئی حکومت میں پہلے دوسال وزیر صحت اور وزیرداخلہ ہونگے، جسکے بعد وزارت خزانہ کیساتھ نائب وزارت عظمیٰ کا منصب بھی انھیں عطا ہوگا۔ انکی اخلاقی ساکھ کا یہ عالم کے موصوف  کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا 'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ کے پہلے اجلاس میں ایک قانونی ترمیم کے  ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیاجائیگا۔

اور تو اور خود بی بی پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے۔

کابینہ کے لیے ایک اور بڑا نام عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوو Itamar Ben-Gvir کا ہے۔ چھالیس سال کے اتامر کیلئے قومی سلامتی کا خصوصی قلمدان تراشا گیا ہے۔ پولیس اور ملک کے خفیہ ادارے وزیرِقومی سلامتی کے ماتحت ہونگے۔ نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار اتامار کے خلاف پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔ اتامار علی الاعلان امریکی دہشت گرد باروش گولڈاسٹائین (Baruch Goldstein) کو ہیرو اور اسرائیل کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی شہریت کے حامل گولڈاسٹائین نے فلسطینی شہر ہیبرون کی ایک مسجد میں نماز ادا کرتے  29مسلمانوں کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اتامار کھلے عام کہتے ہیں کہ سلطنتِ اسرائیل کی سرحد دجلہ و فرات تک ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بنی قریظہ کے قتل کو نسل کشی قرار دیا جائے اور سعودی حکومت اس پر معافی مانگے۔ اتامار صاحب مسجدِ اقصیٰ کو  تمام مذاہب والوں  کیلئے کھولنا چاہتے ہیں حالانکہ 1967 میں قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی تھی کہ الحرم الشریف المعروف Temple Mountمسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح یہاں غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہوگا۔اتامارماضی میں انتہاپسندوں کے ان جلوسوں کی قیادت کرچکے ہیں جس نے حرم الشریف میں داخل ہونے کی کوشش کی جسکے نتیجے میں وہاں خونریز تصادم ہوئے۔  پولیس انھیں  مسجد اقصیٰ کے گرد اشتعال انگیز مظاہروں کی سرپرستی پر کئی بار ملزم  نامزد کرچکی ہے۔

انتہا پسندوں کی اس دیگ کا ایک اور چاول دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش  Bezalel Smotrichہیں۔ بیالیس سالہ اسموترش پہلے دوسال وزیرخزانہ ہونگے۔ جسکے بعد یہ منصب جناب درعی کو دیکر ان سے وزارت داخلہ کا قلمدان اپنے نام کرلینگے۔ موصوف پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں زبانی اشتعال انگیزی کیساتھ عملی تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ نامزد وزیرخزانہ کے بارے میں تازہ ترین خبر یہ ہے کہ اسرائیلی اسٹیٹ بینک نے مالیاتی صلاحیت کے ساتھ موصوف کی ساکھ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بی بی سے درخواست کی ہے کہ جناب اسموترش کو خزانے سے دور رکھا جائے۔ چنانچہ اتامر بن گوو کی طرح اِنکے لئے بھی ایک نئی وزارت قائم کی جارہی ہے اور وہ سمندر پار یہودی، اسرائیلی بستیوں اور (مقبوضہ) مغربی کنارے کے وزیرہونگے۔

دلچسپ بات کہ اعلان ہونے  ہی وزارت کے نام پر قدامت پسند سخت مشتعل ہیں۔انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ انکی مذہبی کتابوں میں یہ علاقہ یہودا والسامرہ درج ہے۔ مغربی کنارہ کہنے سے اسکی مقبوضہ حیثیت ظاہر ہوتی ہے، وزارت کا نام کچھ بھی ہو اسموترش کو یہ ذمہ داری دینے کا مطلب مقبوضہ عرب علاقوں کے اسرائیل سے ادغام کی تکمیل ہے۔ بی بی کے سابق عہدِ حکومت میں شامی مقبوضہ علاقے گولان کو اسرائیل کا اٹوٹ انگ بنایا جاچکا ہے اور اب مغربی کنارے کی باری ہے۔ معاملہ صرف ان انتہا پسند مذہبی جماعتوں تک محدود نہیں۔  بزعم خود لبرل و سیکیولر لیکڈ اتحاد کا منشور بھی یہی کہتا ہے۔  لیکڈ کا انگریزی ترجمہ نیشنل لبرل موومنٹ ہےلیکن جس تنظیم کو انتہاپسند منیخم بیگن نے تشکیل دیا اسکے انتہا پسند ہونے میں کیا شک ہے۔ وزیراعظم بیگن نے ستمبر 1982 میں اپنے وزیردفاع ایرل شیرون اور فوج کے سربراہ جنرل رافیل ایتان کی مدد سے مغربی بیروت کے صابرہ اور شاتیلہ مہاجر کیمپوں میں نہتے فلسطینی پناہ گزینوں  کے خون سے جو ہولی کھیلی اس پر سلیم الفطرت یہودی بھی شرمندہ ہیں۔ سولہ سے اٹھارہ ستمبر تک جاری رہنے والے اس کاروائی میں خواتین اور بچوں سمیت 3500 معصوم شہری ذبح کردئے گئے۔ یہی منیخم بیگن، بی بی کے ہیرو ہیں۔

لیکڈ کے منشور میں بہت صراحت سے درج ہے کہ یہودا والسامرہ اور غزہ صیہونی اقدار کی نقیب ہپں۔ ان مقامات پر  بستیوں کی تعمیر  یہودی قوم کا حق ہے۔ یہ بستیاں مملکت کے دفاع کیلئے  ریڑھ کی ہڈی اور کلیدی اثاثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکڈ یہاں نئی بستیوں کی تعیمر اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کیلئے پرعزم ہے تاکہ ماضی کی طرح یہودی قوم دوبارہ کبھی نہ اجڑے۔ ٓمغربی کنارے پر ملکیت کے دعوے کو صاف و غیر مبہم بنانے کیلئے منشور میں یہ بھی لکھدیا گیا کہ 'دریائے اردن مملکتِ اسرائیل کی مشرقی سرحد ہے'

منشور میں بہت دوٹوک انداز میں درج ہے کہ لیکڈ اتحاد  فلسطینی ریاست کے قیام کے امکان کو یکسر مسترد کرتا ہے۔ فلسطینیوں  کو  مملکتِ اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے  آزادنہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہےلیکن آزاد و مختار فلسطین کی اجازت نہیں دی جائیگی۔

خلافِ توقع،  بی بی کی نئی حکومت فلسطینیوں کے خلاف جس جارحانہ عزم کا اظہار کررہی ہے اس سے مقبوضہ عرب علاقوں میں غیر معمولی پریشانی نظر نہیں آتی۔ اسکی وجہ شائد یہ ہے کہ موجودہ اعتدال پسند حکومت میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہی۔ ابھی چند دن پہلے یروشلم میں جنم لینے والے فرانسیسی وکیل صلاح الحموری کو جلاوطن کردیا گیا۔جناب الحموری مارچ سے جیل میں تھے۔ اسرائیلی وزیرداخلہ محترمہ آئلہ شیکڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “دہشت گرد صلاح الحموری کو فرانس واپس بھجوادیا گیا۔ فرانسیسی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں جناب الحموری کی جلاوطنی کو غیر قانونی قراردیتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی اس قدم کی شدید مذمت کی ہے۔

دس دن پہلے فلسطینی علاقے جنین کے ایک محلے میں بچیاں اپنے گھر کی چھتوں پر فلسطینی پرچم لئے مزاحمتی گیت گارہی تھیں کہ فوج کی گولی سولہ سالہ لڑکی جانا ماجدی عاصم ذکرنا کے سر پر لگی اور وہ وہیں دم  توڑگئی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ان پر گلی سے مظاہرین فائرنگ کررہے تھے کہ گولی لگنے سے یہ بچی ماری گئی۔ گویا اس معصوم کو اپنے ہی بھائیوں نے قتل کیا۔ ظلم کی انتہا کہ جانا کی میت اسکے وارثین کو  اب تک نہیں دی گئی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اس واقع پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے  شفاف عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل نے مسترد کردیا۔

اسکے دودن بعد رام اللہ کی ایک شاہراہ سے گزرنے والی فوجی گاڑیوں پر بچوں نے رنگ اور پتھر پھینکے۔جواب میں آنے والی گولی 16سال کے ضیا محمد شفیق کو چاٹ گئی۔ اسرائیلی سپاہی ضیا کی لاش بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اس ایک دن میں چوبیس گھنٹوں کے دوران  فوج کے فائرنگ سے پانچ نوجوان جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔

فلسطینی رہنماوں کا کہنا ہے کہ بی بی اگر فرعون صفت ہیں تو رعم کے اتحادیوں نےہم پر کونسے پھول برسائے ہیں۔ فلسطینی خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ اسی نام نہاد اعتدال پسند حکومت کے دوران نہ صرف قتل  ہوئی بلکہ بیت اللحم جیسے محترم علاقے میں اسکے جنازے پر فوج نے حملہ کیا۔ مسیحیوں کے مطابق بیت اللحم حضرت عیسٰیؑ کی جائے پیدائش ہے اور اسکے قبرستان میں حضرت مسیح کے بہت سے پاکباز حواری آرام فرمارہے ہیں۔

سات دہائیوں سے ظلم سہنے اور اسکا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے فلسطینی تو نئی حکومت سے بہت زیادہ پریشان نہیں لیکن ملک کے آزاد خیال اور لبرل یہودی شہری آزادیوں کے حوالے سے فکر مند نظر آتے ہیں

اسرائیل میں ہم جنس پرستی بہت تیزی سے مقبول ہورہی اور ساری دنیا کی طرح ہر سال مارچ میں ہزاروں ہم جنس  یروشلم کی سڑکوں پر جلوس نکالتے ہیں جسے LGBT پرائڈ مارچ کہا جاتا ہے۔  ماضی میں اس جلوس پر چھروں سے حملے ہوچکے ہیں۔ دینِ صیہون کے جناب اسمترش کا کہنا ہے کہ  پرائڈ مارچ  اللہ کے غضب کی دعوت دینے کے مترادف ہے اسے ہر قیمت پر بند ہونا چاہئے۔ خوشنودیِ رب یا Naomپارٹی کے سربراہ ایوی معوذ  Avi Maoz خود کو ہم جنس پرستی سے خوفزدہ یا homophobeکہتے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اگر وہ پرائڈ مارچ نہ رکواسکے تو حکومت سے الگ ہوجائینگے۔ انکی جماعت کے پاس  صرف ایک نشست ہے لیکن جب برتری صرف تین کی ہو تو ایک ووٹ بھی بہت بھاری ہے۔

ایوی معوذ صاحب وزارت تعلیم کا قلمدا ن لینا چاہتے ہیں اور وہ صاف  صاف کہہ چکے ہیں وہ وزارت،  پرچم یا چوب و دربان کیلئے نہیں بلکہ نصاب میں نظریاتی تبدیلی کیلئے لینا چاہتے ہیں۔ انکا خیال ہے کہ لبرل ماہرینِ تعلیم اسرائیلی بچوں کو سیکیولر بنارہے ہیں اور اگر  نئی نسل صیہونی اقدار کے ناآشنا ہوگئی تو اسرائیل کا  وجود مٹ جائیگا۔

شاس کو معبدوں،  خاص طور سے دیوارِ گریہ کے قریب اختلاط مردوزن پر بڑی تشویش ہے۔ شاس کو یہ شکائت بھی ہے کہ ہسپتالوں،  تعلیمی اداروں اور سرکاری ریستورانوں میں کوشر (یہودی حلال) کا خیال نہیں کیا جاتا اور دھڑلے سے غیر کوشر خوراک پیش کی جارہی ہے۔ شائد قارئین کو کوشر و غیر کوشر کی بات مضحکہ خیز لگ رہی ہو،  لیکن سابق حکومت صرف اسی وجہ سے اکثریت کھو بیٹھی تھی کہ 'عبورِ عظیم یا Passoverتہوار کے موقع پر مریضوں میں بطور تبرک جو حمص (Chametz) تقسیم کیا گیا وہ کوشر نہ تھا اور اس میں خمیر اٹھ چکا تھا۔ خمیری حمص  یہودیوں کے یہاں حرام ہے۔ برسراقتدار جماعت یمینیہ (دایاں) کی رکن پارلیمان ایدت سلیمان  اس 'جسارت' پر برہم ہوکر حکومتی بنچوں سے اُٹھ آئیں اور ایک ووٹ کی برتری سے قائم وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کی حکومت ڈگمگا گئی۔

نئی حکومت کی ہئیت دیکھ کر  فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں  بھی چینی نظر آرہی ہے۔ گرشتہ دنوں یہ خبر آئی کہ جناب استیمرش وزیردفاع ہونگے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جانے لگا کہ  اسمیترچ صاحب  فوج کا نیا سربراہ خود نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات پر فوج کے سپہ سالار جنرل عفیف کوہاوی Aviv Kohaviنے صاف صاف کہدیا کہ وہ عسکری امور میں جناب اسمیترچ کی مداخلت برادشت نہیں کرینگے اور نہ عسکری قیادت کی تقرری میں وزیرموصوف کو اپنی مرضی مسلط کرنے دی جائیگی۔ نئے سربراہ کیلئے فوج نے جنرل ہرزی حلاوی کو نامزد کیا ہے۔ یہ تقرری جنوری میں ہونی ہے۔ اپنے باس کی شہہ پر جنرل حلاوی بھی بول اٹھے کہ فوج میں تقرری میرٹ، ضابطے اور اصولوں پر ہوگی۔ وزارت دفاع کو ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

دوسری طرف خواتین کو ڈر ہے کہ قدامت پسند حکومت ان کی شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائے گی۔ حکومتی بنچوں میں سے نصف پر ربائی (یہودی علما) اور انکے نیاز مند  براجمان ہیں۔ دائیں بازو کے انتہا پسند تو اس سے پہلے بھی حکومت میں آتے رہے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں ربائیوں نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے اور یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منشور کو آگے بڑھانے کی کوشش کرینگے۔ جیسا کہ ہم نے اس پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھاکہ بی بی کے لئے اتنے سارے ملاوں (ربائیوں) کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہ ہو گا اور  گزشتہ پانچ حکومتوں کی طرح یہ بندوبست بھی  بہت دن چلنے والا نہیں لگتا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 30 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 30 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 30 دسمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر یکم جنوری 2023


No comments:

Post a Comment