Friday, December 23, 2022

تیونس– جمہوریت سے واپسی کا سفر مکمل ؟؟

 

تیونس– جمہوریت سے واپسی کا سفر مکمل ؟؟

تیونس کے حالیہ عام انتخابات میں صرف آٹھ فیصد ووٹ ڈالے گئے۔ شمالی افریقہ کے اس چھوٹے سے ملک نے عوامی سیاست اور جمہویت کے باب میں بہت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سترہ دسمبر کے انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی سے جہاں ملک کا سیاسی و اقتصادی بحران شدت اختیار کرتا نظر آرہا ہے وہیں تیونسی حزبِ اختلاف اسے امید کی کرن قراردے رہی ہے، یعنی عوام کی واضح اکثریت نے 'انتخابی ڈرامے' سے لا تعلق رہ کر جمہوری قوتوں کے بیانئے کی کھل کر حمائت ظاہر کردی ہے۔ یقیناً اِن رہنماوں کو زمینی صورتحال کا زیادہ بہتر اندازہ ہوگا لیکن ہمیں تیونس کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے جسکی تفصیل اس مضمون کے آخر میں بیان کی جائیگی۔گفتگو سے پہلے اس ملک کی سیاسی تاریخ پر چند سطور جس سے قارئین کو صورتحال کے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

سواکروڑ سے بھی کم آبادی والا یہ چھوٹا سا ملک بحرِ روم کے کنارے شمالی افریقہ میں واقع ہے۔ قدیم عرب جغرافیہ داں اس علاقے کو مغرب العربی کہا کرتے تھے جو تیونس، الجزائر، لیبیا، مراکش اور موریطانیہ پر مشتمل ہے۔ ساحلی علاقوں میں بربر عرب آباد  ہیں اور اس مناسبت سے مغرب کا ایک اور نام 'بربری ساحِل'بھی ہے۔ مشہور مسلم  جرنیل طارق بن زیاد بھی بربر نسل کے تھے۔ علمی سطح پر تیونس کی وجہ شہرت مسجد و جامعہ الزيتونہ ہے۔ دوسری صدی ھجری کے آغاز میں قائم ہونے والایہ تعلیمی ادارہ  دینا کے قدیم ترین مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سابق امریکی صدر صدر اوباما کے والد بارک حسین اوباما سینئر  نےبھی جامعہ الزیتونہ سے ابتدائی  تعلیم حاصل کی ہے۔

جنوری 1956 میں فرانس سے آزاد ہونے والے تیونس  نے اپنے پہلے 55 سال میں صرف دو  صدوردیکھے۔پہلے صدر حبیب بورقیبہ تیس سال بر سر اقتدار  بلکہ مسلط رہے تاوقتیکہ معذوری کی بناپر انھیں معزول کرکے 1987 میں وزیراعظم زین العابدین صدربن گئے ۔ تیسری دنیا کی طرح تیونس میں بھی تمام قومی وسائل فوج اور حکمران طبقے کیلئے وقف تھے جبکہ بیروزگاری اور مہنگائی نے تیونس کے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔بد ترین آمریت، اخبارات پر پابندی اور جاسوسی نظام کی وجہ سے سارے ملک میں گھٹن کا ماحول تھا ور عام لوگوں میں سخت ما یوسی تھی۔

چوبیس دسمبر 2010کوبیروزگاری سے تنگ آکر ایک نوجوان محمد بو عزیزی نے تیونس کے صدارتی محل کے سامنے خود کو نذر آتش کر لیا۔ اسکے ساتھ ہی سارے ملک میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نےآزاد میڈیا کی کمی پوری کردی اور سارے تیونس میں طلبہ سڑکوں پر نکل آئے۔ زین العابدین حکومت نے پہلے تو طاقت کا بھر پور استعمال کیا اور پھر معافی تلافی کا ڈول ڈالا گیا۔فوج اورقانون نافذ کرانے والے ادارے آخری وقت تک صدر زین کی پشتیبانی کرتے رہے۔ لیکن طلبہ کے پر امن مظاہروں سے مجبور ہوکر  23 سال تک مطلق العنانیت سے بھرپور لطف اٹھانے کے بعد خودساختہ مردِ آہن اپنے اہل خانہ کے ساتھ 14 جنوری 2011کو بصد سامانِ رسوائی سعودی عرب فرار پر مجبور ہوگئے۔ صدر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں پناہ حاصل کریں مگر انکے مغر بی سرپرستوں نے آنکھیں پھیر لیں۔

فوج نے اخوانی فکر سے متاثر النہضہ کے سربراہ راشد الغنوشی کو قومی حکومت بنانے کی دعوت دی جسے النہضہ نے فوری طور پر مسترد کردیا، جناب غنوشی کا کہنا تھا کہ تیونسی عوام نے چہرے نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی کیلئے قربانیاں دی ہیں اور اس وقت ملک کی ترجیح ایک ایسے دستور کی تدوین ہے جو عوامی امنگوں کا ترجمان ہو۔ چنانچہ پارلیمان کے اسپیکر فواد مبزا کو قائم مقام صدر بناکر انتخابات کی تیاری شروع ہوگئی۔

اُسی سال 23اکتوبر کومتناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات منعقد ہوئے اور آئین ساز اسمبلی تشکیل دی گئی۔ ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات میں جوش و خروش دیدنی اور ووٹ ڈالنے کا تناسب 90 فیصد رہا۔ النہضہ نے 41 فیصد ووٹ لے کر 217 کے ایوان میں 90 نشستیں حاصل کیں جبکہ اسکی مخالف سیکیولر جماعت PDPکو صرف 17 نشستیں مل سکیں۔ کانگریس فار ریپبلک المعروف موتمر 30 کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔

 النہضہ نے جو آئین ترتیب دیا اسکے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ  یہ دستور نہیں بلکہ انسانی اقدار کا منشور ہے جس میں قیدیوں کے حقوق کی بھی ضمانت دی گئی تھی۔ تفتیش کیلئے تشدد کی ہر شکل کو قابل دست اندازیِ پولیس قراردیا گیا۔ ضلعوں کی بنیاد پر سارے ملک میں انسانی حقوق کی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں  جسکے سربراہ حاضر سروس جج تھے ۔ آئین کے مطابق رنگ، نسل، مذہب اور لسانیت کی بنیاد پر امتیاز ایک جرم قرار پایا۔آزادی اظہار کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کیساتھ عدلیہ کو انتظامیہ کے اثر سے کلیتاً آزاد کردیا گیا۔

آئین منظور ہوتے ہی جنوری 2013میں ایک قومی حکومت تشکیل دی گئی جس کی نگرانی میں  26اکتوبر کو  ایوان نمائندگان کے انتخابات منعقد ہوئے۔ان انتخابات میں النہضہ کو شکست ہوگئی۔ فوج کی حامی ندائے تیونس 86 نشستوں کیساتھ پہلے نمبر پر رہی اور  69 سیٹوں کے ساتھ النہضہ نے حزب اختلاف کا کردار سنبھال لیا۔ پانچ سال بعد 2019 میں ایک بار پھر  انتخابات ہوئے جس میں کوئی بھی جماعت اکثریت نہ حاصل کرسکی لیکن 52 نشستوں کے ساتھ النہضہ پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری۔

کچھ دن بعد ہونے والے صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50 ووٹ نہ مل سکے چنانچہ ووٹوں کے اعتبار پہلے  نمبر پر آنے والے قیس سعید اور انکے قریب ترین حریف نبیل قروئی کے درمیان Run-offمقابلہ ہوا۔ النہضہ نے قیس سعیدکی حمائت کی اور وہ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوگئے۔ دوسری طرف راشد الغنوشی کو پارلیمینٹ کا اسپیکر چن لیا گیا۔ یعنی انقلابِ یاسمین کی کامیابی کے  بعد تیونس میں 3 پارلیمانی اور دو صدارتی انتخابات ہوئے اور انتقالِ اقتدار سمیت کسی بھی مرحلے پر کوئی بدمزگی دیکھنے میں نہ آئی۔نظریاتی اختلافات کے باوجود  وزیراعظم، صدر، اسپیکر اور حزب اختلاف کے تعلقات انتہائی شاندار رہے۔

عرب دنیا کی تحریکِ آزادی یا ربیع العربی(Arab Spring) آغاز پرعرب حکمراں، اسرائیل اور انکے مغربی سرپرست لرز کر رہ گئے تھےجب دیکھتے ہی دیکھتے ساری عرب دنیا آمریت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ شیوخ و امرا نے جہاں اس تحریک کو کچلنے پر کروڑوں ڈالر خرچ کئے وہیں اسکی بنیادیں اکھیڑنے پر خلیجیوں کیساتھ انکے سرپرستوں نے بہت عرق ریزی سے کام کیا۔جس میں نصاب کی تبدیلی، اسرائیل سے قریبی تعلقات اور اخوان المسلمون کی بیخ کنی شامل ہے۔

ربیع العربی صرف تیونس ہی میں اپنے اہداف حاصل کرسکی ۔ مصر میں   مغرب و اسرائیل کی ایما پر فوج نے عوامی امنگوں کا گلا گھونٹ دیا۔ الجزائر اور بحرین میں بھی یہ مزاحمت کچل دی گئی جبکہ لیبیا اور یمن میں اٹھنے والی تحریک خانہ جنگی کا شکار ہوگئی۔ یہی حال شام کا ہے جہاں  فرقہ وارانہ محاذ آرائی نے داعش کا روپ اختیار کرلیا ہے۔ مراکش میں بادشاہ نے اپنے کچھ اختیارات پارلیمینٹ کو منتقل کئے لیکن وقتاً فوقتاً جاری ہونے والے شاہی احکامات کے ذریعے یہ تمام اقدامات کالعدم کردئے گئے۔ تیونس کی اس کامیابی کو عالمی و علاقائی قوتوں نے تسلیم نہیں کیا او ر اسکے خلاف ایک منظم مہم دس سال سے جاری ہے۔ سوشل میڈیا پران تجزیاتی مقالوں کی بھرمار ہے جس میں سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرکےاعدادوشمار کی مدد سے یہ ثابت کیا جارہاہے کہ  ملک کو چلانا بے ایمانوں کے بس کی بات نہیں۔ تیونس کا درد وہی سمجھ سکتے ہیں جو ملک کی حفاظت کیلئے وردیوں میں ملبوس سر سے کفن باندھے بیٹھےہیں۔ سیاست دان تو موقع پرست طالع آزما ہیں جنھیں صرف اقتدار عزیز ہے جسکے حصول کیلئے یہ اپنا ضمیر اور ملکی مفاد سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔

مارچ 2020میں وارد ہونے والے نامراد کرونا نے ملکی معیشت کو برباد کرکے رکھدیا اور مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی۔یہ تیونس کے جمہوریت دشمنوں کیلئے نادر موقع تھا۔ الزام تراشی و انگشت نمائی کا سلسلہ شروع ہوااور تیونسی سیاستدانوں کی برداشت اور مل کر کام کرنے کے دس سالہ مخلصانہ کوششوں پر پانی پھرگیا۔صدر قیس نے شکوہ کیا کہ معیشت میں بہتری کیلئےپارلیمان انکے اقدامات کی توثیق میں بہت دیر لگارہی ہے۔ دوسری طرف اسپیکر راشد الغنوشی کا کہنا تھا کہ پارلیمان میں بحث کے بغیر قانون سازی نہیں ہوسکتی تاہم فوری اقدامات کیلئے جاری ہونے والے صدارتی آڈیننس پر وہ اعتراض نہیں کرینگے۔

فوج کی ایماپر حکومت کیخلاف مظاہرے شروع ہوئے اور جلد ہی اسکا رخ پارلیمان اور خاص طور سے النہضہ کی طرف ہوگیا۔  پارلیمان کا گھیراو کرکے حکومت سے استعفٰی کا مطالبہ کیاگیا۔ اس دوران تشدد کے واقعات میں درجنوں افراد زخمی ہوئے، کئی مقامات پر نقاب پوش گروہوں نے النہضہ کے دفاتر پرحملے کئے اور جنوب مغربی تیونس کے شہر توزر میں مقامی دفتر کو آگ لگادی گئی اور مارشل لا کے فلک شگاف نعرےبلند ہوئے۔ صدر قیس نے 25جولائی 2021 کو  پارلیمان معطل کرکے  وزیراعظم ہشام المشیشی  کو کابینہ سمیت گھر بھیج دیا۔قوم سے اپنے خطاب میں صدر قیس نے  حکومت پر کرپشن اور  بے حسی کے سنگین الزام لگائے اور ساتھ ہی دھمکی بھی دے گئے کہ اگر کسی نے صدارتی حکم کے خلاف ورزی کی  تو انھوں نے مسلح افواج کو روائتی تنبیہ کے بغیر گولی چلانے کاحکم دیدیا ہے۔

ابتدا میں جناب راشد الغنوشی نے صدر کے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا لیکن جب النہضہ کی شوریٰ نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو غنوشی صاحب نے مظاہرہ منسوخ کرکے صدر قیس کو بات چیت کی پیشکش کردی۔معزول وزیراعظم نے بھی صدر کافیصلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ وہ نامزد وزیراعظم کو فوری طور پراقتدار منتقل کردینگے۔ لیکن اس پیشکش کے جواب میں فوج نے پکڑ دھکڑ شروع کردی۔کرونا کے نام پر رات کا کرفیو بھی لگادیاکیا۔ ساتھ ہی جناب قیس نے  منتخب قانون ساز اسمبلی سے منظور کیا جانیوالا  دستور  بیک جنبشِ قلم منسوخ کردیا اور  نئے  آئین کی تدوین کیلئے 'قانونی ماہرین' کی ایک کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ دوسری طرف معیشت کی تعمیر نو کیلئے  ایک عظیم الشان  منصوبے کا اعلان ہوا جسکے مطابق   حکومت کے زیرانتظام تمام اداروں کوفروخت کردیا جائیگااور انھیں کو  فروخت کیلئے پرکشش بنانے کی غرض سے ان میں بڑے پیمانے  پر چھانٹی ہوگی۔ سرکاری اعلا مئے میں یہ بھی کہا گیا کہ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے سیاستدانوں نے  سماجی بہبود کے جو پروگرام شروع کئے ہیں انکو ختم یا انکے لئے مختص رقم میں بھاری کٹوتی کیا جائیگی اور اس اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ مستقبل کے سیاسی طالع آزما لوٹ مار کا نیا کھانچہ نہ شروع کھول سکیں، نئے دستور میں ان سب کا احاطہ کیا جائیگا۔

نئے دستور کا مسودہ سامنے  آتے ہی تیونسی مزدوروں کی وفاقی انجمن الاتحاد العام التونسي للشغل یا UGTTنے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بڑی طاقتوں کی ایما پر تحریر کی جانیوالی یہ دستاویزِ  غلامی کسی قیمت پر قبول نہیں کی جائیگی ۔ عوام کی منتخب پارلیمان نے 2011 میں جو آئین بنایا وہ تیونسیوں کی امنگوں کا ترجمان ہے اور اسکی  منسوخی   کا تصور  بھی نہیں کیا جاسکتا۔اسکے باوجود حکومت نے  اس سال 26 جولائی کو  'عوامی ریفرنڈم' کے ذریعے نیا دستور منظور کرلیا۔ طلبہ و مزدور یونینوں اور سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ کی وجہ سے ریفرنڈم میں ووٹ ٖڈالنے کا تناسب صرف 30 فیصد رہا ۔

نئے دستور کی بنیاد پر اس ہفتے عام انتخا بات اس شان سے ہوئے کہ سیاسی جماعتوں کو براہ راست حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ جماعتی کارکنوں کے امیدوار بننے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوا لیکن  مہم کے دوران کسی سیاسی جماعت کا نام، پرچم یا نشان کے  استعمال پر پابندی تھی۔ یہی وجہ کہ تقریباً 25 فیصد نشستوں پر صرف ایک امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کی نوبت ہی نہ آئی۔الیکشن کمیشن کے سربراہ جسٹس فاروق بوسکار نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 90 لاکھ رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 8 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ النہضہ سمیت پانچ جماعتی محاذِ نجات (Salvation Front)نے دعویٰ کیا کہ  انتخابی ڈرامے کا بائیکاٹ کرکے صدر قیس سعید، نئے دستور اور پارلیمان کی تحلیل پر عوام نے  اپنے ردعمل کا اظہار کردیا ہے۔محاذ کے سربراہ احمد نجیب الشابی نے کہا کہ تیونسی صدر کے پاس اب استعفیٰ اور دستور و پارلیمان کی بحالی کے سوا کوئی اور راستہ نہیں۔ النہضہ نے پیشکش کی ہے کہ اگر  صدر قیس عوامی امنگوں کے مطابق چلنے پر آمادہ ہوں تو بقیہ مدت کیلئے انھیں صدر برقرار رکھاجاسکتا ہے۔

تیونسی صدر کے قریبی احباب بھی انکے سخت روئے اور طاقت کے استعمال کی دھمکی پر حیرت زدہ ہیں۔ قیس صاحب قانون کے پروفیسر اور بارایسوسی ایشن کے سابق سربرہ ہیں ۔انکی ساری زندگی قانون پڑھانے اور قانون کی بالادستی پر لیکچر دینے میں گزری ہے۔ موصوف اپنے نرم لہجے اور سیاسی معاملات پر مفاہمانہ روئے کیلئے مشہور ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیت راشد الغنوشی کی بھی ہے۔ صدر قیس نے عبوری وزیراعظم کیلئے جس خاتون کا انتخاب کیا وہ بھی ٹھنڈے مزاج کی معاملہ فہم شخصیت ہیں۔  المدرسہ الوطنیہ للمہندسين تیونس (National School of Engineers)میں ارضیات کی پروفیسر محترمہ نجلہ ابومحی الدین رمضان  صاحبہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ جامعہ کے ساتھ اعلٰی تعلیم اور سائینسی تحقیق و جستجو کی وزارت میں عالمی بینک کے تعلیم سے متعلق شعبہ کی نگرانی فرما رہی ہیں۔ نجلہ رمضان کا کوئی سیاسی و نظریاتی پسِ منظر نہیں لیکن النہضہ نے اپنے دور حکومت میں انھیں تعلیمی معیار کمیشن کی سربراہ بنایا تھا اور وہ اس عہدے پر 2011سے فائز ہیں

مشرق وسطٰی کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانیوالے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں، اسکے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بہت واضح ہے۔ پارلیمینٹ کی معطلی پر 'مثبت' رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے کہا کہ 'برادر ملک تیونس میں استحکام کی ہر کوشش قابل تحسین ہے جسکی UAEبھرپور حمائت کرتا ہے'۔ کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار سعودی عر ب کی جانب سے ہوا۔کرونا لہر کے باوجود صدر قیس سےاظہار یکجہتی کیلئے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بنفس نفیس تیونس تشریف لائے اور صدر قیس سے  تین گھنٹہ طویل بات چیت کے دوران انتہاپسندی کو کچل دینے کے اقدامات پر غور کیا گیا۔سعودی شہزادے کا کہنا تھا انکی حکومت خاص طور سے ولی عہد محمد بن سلمان آزمائش کی اس گھڑی میں صدر قیس کیساتھ کھڑے ہیں اور تیونس کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کا دونوں ملک مل کر مقابلہ کرینگے۔   

اس حوالے سے مصری وزیرخارجہ سامع شُکری اور تیونسی صدر کی ملاقات بہت معنی خیز تھی۔ مذاکرات کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےصدر  قیس سعید نے کہا کہ تیونس اور مصر کی صورتحال میں 'مماثلت' پائی جاتی ہے جس پر جناب شکری ترنت بولے  'تیونس کے استحکام کیلئے صدر قیس جو بھی قدم اٹھائیں گے انھیں جنرل السیسی کی مکمل حمائت حاصل ہوگی' مصری وزیرخارجہ نے کہا کہ صدر قیس کے اقدامات سے نہ صرف تیونس بلکہ سارے شمالی افریقہ اور عرب دنیا پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔

اس حوالے سے ایک 'خاموش کردار' کا نام بھی لیا جارہا ہے۔ حزب اختلاف کا خیال ہے کہ اس منصوبے کے مصنف  تیونس میں امریکہ کے سابق سفیر ڈانڈ بلوم ہیں۔  جناب بلوم، تیونس  سے لیبیا میں امریکہ کے سیاسی و سفارتی مفادات کی نگہبانی  بھی کررہےتھے کیونکہ بد امنی کی وجہ سے امریکہ نے لیبیا میں اپنا سفارتخانہ بند کردیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے سیاسی و صحافتی  ذرایع کا خیال  ہے کہ  تیونس میں النہضہ کے خلاف  'صدارتی مارشل لا' کے نفاذ اور نئے دستور کی تصنیف میں موصوف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔  وہ 2015 سے 2018 تک یروشلم کے امریکی قونصل خانے میں تعینات تھے۔ وہ  ایک سال کابل   اور 2009 سے 2012تک قاہرہ کے امریکی سفارتخانے میں قونصلر برائے سیاسی امور رہ چکے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب مصر کی تاریخ کے پہلے آزادانہ انتخابات ہوئے جس میں اخوان المسلمون نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی لیکن سی آئی اے اور اسرائیلی موساد کی مدد سے جنرل السیسی نے  منتخب صدر کا تختہ الٹ دیا۔ جناب بلوم عراق  اور کوئت  کے امریکی سفارتخانوں میں بھی   اہم  ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ انھیں عرب اسرائیلی امور کا ماہر سمجھا  جاتا ہے۔اسی کیساتھ وہ  امریکہ کی بدنام زمانہ Regime Changeحکمت عملی کے ماہر بھی ہیں اور عالمی  تحریک اسلامی کے سیاسی و سفارتی استیصال کے باب میں انھوں نے 'گرانقدر خدمات' سرانجام دیں ہیں۔  جناب بلوم  امریکہ کی سینئر فارن سروس (SFC) سے وابستہ اور  منسٹر کونسلر Minister Counselorکے منصب پر فائز ہیں یعنی سفارتی بیوروکریسی میں انکا مرتبہ نائب وزیرخارجہ سے ایک درجہ نیچے ہے۔ آجکل جناب بلوم اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر ہیں۔

زمینی حقائق کے سرسری جائزے سے تیونس کا حالیہ تنازعہ اس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013 میں کھیلا گیا۔ اسوقت مصر کے سیکیولر و 'جمہوریت' پسند عناصر نے صدر مورسی کی انتہاپسندی اور 'کرپشن' کے خلاف تحریک چلائی۔تحریک کے روح رواں مایہ ناز جوہری سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔مصر کے سلفی مُلّا بھی انکے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کئے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کیلئے سجیلے جوان آگے آئیں۔ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مورسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائیگا۔ آئین پر ریفرنڈم اور اسکے بعد عام انتخابات میں عوام کی عدم شرکت سے جناب قیس سعیداپنے 'لانے والوں' کا اعتماد کھوتے نظر آرہے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جناب قیس سعید تیونس کے ڈاکٹر البرادعی ہیں جو اپنے لئے  تو کچھ نہ حاصل کرسکے لیکن ایک ہنستے بستے جمہوری معاشرے کو انتشار کا شکار کرکے طالع آزماوں کیلئے نرم چارہ بنادیا۔الجزائر، مصر اور فلسطین کے بعد تیونس میں عوامی امنگوں پر شب  خون سے  یہ حقیقت ایک بار پھر واضح ہوگئی کہ مغرب کیلئے وہی جمہوریت قابل قبول ہے جسکا قبلہ واشنگٹن یا برسلز ہو۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 23 دسمبر 202

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 دسمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment