Thursday, December 29, 2022

گوادر کو دیوار سے نہ لگاو۔۔۔۔

 

گوادر  کو دیوار سے نہ لگاو۔۔۔۔

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کا دوسرا نام مچھیروں کی بستی ہے کہ یہاں کے لوگوں کا رزق ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ قدرت نے گوادر سے متصل بحر عرب کو مچھلیوں سے آباد کررکھا ہے جہاں چھوٹی بڑی سینکڑوں قسم کی مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔ گوادر میں آباد مکرانی بلوچوں کی اکثریت کئی صدیوں سے مچھلی پکڑنے کا کام کررہی ہے اور اس مقصد کیلئے کیلئے چھوٹی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں ۔

یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ گوادر ،سلطنت عُمان کا حصہ تھا جسے 1958 میں وزیراعظم فیروزخان نون نے ساڑھے پانچ ارب روپئے کے عوض پاکستان میں شامل کیا تھا۔

سی پیک منصوبے کے آغاز سے گوادر میں غیر مقامی لوگوں کی آمد ورفت بہت بڑھ گئی ہے۔ حفاظت کیلئے ہرنُکّڑ پر حفاظتی چوکیا ں بھی ہیں جہاں تعنیات افراد کے رویئے کے بارے میں عام بلوچوں کو شکایات ہیں۔کئی جگہ دیواریں اور باڑھ بھی کھڑی کی گئی ہیں جس پر مقامی لوگوں کو شدید اعتراض ہے۔ ترقی کے نام پر گوادر کی زمینیں باہر کے لوگوں کو فروخت کی جارہی ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کی تقریباً ہر بڑی تقریب اور اجتماع میں مختلف ادارے رہائشی اور تجارتی مقاصد کیلئے گوادر کی زمین فروخت کرتے نظر آتے ہیں۔

ادھر کچھ عرصے سے سیکیورٹی کے نام پر ماہی گیروں کی سرگرمیاں پرمحدود کردی گئی ہیں۔ بلوچ مچھیرے سویرے کشتیاں لے کر نکلتے ہیں اور شام تک آبی رزق کی تلاش جاری رہتی ہے۔ لیکن اب ماہی گیری کے اوقات متعین کردئے گئے ہیں۔ انھیں ماہی گیری لائسنس بنانے کیلئے کہا جارہا ہے۔ جس پر ان لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں لیکن کشتیوں کی جانچ پڑتال اور دوسری گنجلک کاروائی کی وجہ سے لائسنس حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اور اس تمام عرصے میں وہ ماہی گیری نہیں کرسکتے جبکہ ان لوگوں کے لئے ماہی گیری کے علاوہ تلاشِ رزقِ حلال کااور کوئی ذریعہ نہیں۔

یہ تمام اقدامات سی پیک اور چینیوں کی حفاظت کے نام پرکئے جارے ہیں

ایک طرف مقامی ماہی گیروں پر پابندی تو دوسری جانب جدید ترین جال بردار کشتیاں یا Fishing Trawlersساحل کے بہت قریب ماہی گیری میں مصروف ہیں۔ یہ ٹرالر باریک جال استعمال کررہے ہیں جسکے نتیجے میں یہ بڑی اور چھوٹی تمام مچھلیاں پکڑ لیتےہیں۔جب تک یہ ٹرالر سمندر میں موجود ہوں مقامی مچھیروں کو ماہی گیری کی اجازت نہیں۔ انکے جانے کے بعد بلوچ مچھیرے پرانی کشتیوں پر جاتے ہیں تو بوسیدہ جال خالی رہتے ہیں کہ تمام مچھلیاں پکڑی جاچکیں اور بچا کھچے مال المعروف catchسے کشتی کے ڈیزل کا خرچ بھی نہیں نکلتا۔سرکار کا موقف ہے کہ یہ ٹرالر چینی حکومت کے ہیں اور انکے تحفظ کیلئے مقامی ماہی گیروں کو 'ضابطے' کاپابند بنایا جارہا ہے

اس امتیازی سلوک کے خلاف جماعت اسلامی کے صوبائی قیم مولاناہدایت الرحمان بلوچ کی قیادت میں گزشتہ دو سال سے زبردست مہم چل رہی ہے۔ جلسے، جلوسوں اور دھرنوں کے ذریعے یہ مچھیرے اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں۔ اب ان مچھیروں نے گوادر کی بندرگاہ اور سی پیک شاہراہ سمیت گوادر آنے اور جانیوالے تمام شاہراہوں پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

گوادر میں بے چینی پر چینیوں کو سخت تشویش ہے ۔ گزشتہ سال کے اختتام پر بیجنگ میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لیجیان ژاو Lijian Zhaoنے بہت ہی غیر مبہم الفاظ میں کہا تھا کہ گوادر کا ساحل تو دور کی بات، گہرے سمندروں میں بھی کوئی چینی ٹرالر موجود نہیں اور چین مقامی مچھیروں کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ انکا کہنا تھا کہ سی پیک اور گوادر منصوبے کا واحد ہدف پاکستانی عوام کی خوشحالی ہے اور چین کو پاکستان میں ماہی گیری سے کوئی دلچسپی نہیں۔چینیوں کی جانب سے اس وضاحت کے بعد مکرانیوں نے کچھ سوالات اٹھائے تھے:

گوادر کے ساحل کے قریب بلوچ ماہی گیروں کے رزق پر ڈاکہ مارنے والے یہ ٹرالر کس کے ہیں؟

انھیں چینی ٹرالر کہہ کر انکی حفاظت کے نام پر مقامی مچھیروں کو کس کے ایما پر تنگ کیا جارہاہے؟

صاف نظر آرہا ہے کہ مفادات پرستوں نے چینیوں کے تحفظ کے نام پر مقامی ماہی گیروں کو سمندر سے دور کردیا ہے اور اب وہ اطمینان سے قیمتی آبی وسائل لوٹ رہے ہیں۔ یہی بات مولانا ہدایت الرحمان نے بھی کی ہے کہ 'چین کے انکارکے بعد کیا ہم یہ سمجھیں کہ یہ ٹرالر مافیا صوبائی اور وفاقی حکومت کا حصہ ہیں یا مافیاحکومت سے زیادہ طاقتور ہے؟

برادرملک ایران کا آبی اور زمینی راستہ گوادر سے ملتا ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کی وجہ ہمارا گوادر آنا جانا رہا۔ وہاں ایرانی مصنوعات کم قیمت پر میسر ہیں۔ معلوم نہیں اب وہ ہے یا نہیں لیکن 2000 میں گوادر کا مرکزی ملادشتی بازا ر ایرانی مصنوعات سے بھرا پڑا تھا۔ عام استعمال کی چیزوں سے لے کر ریفریجریٹر اور ائر کنڈیشنر ہر چیز ہی ساختہ ایران تھی اور یہ درآمدات محصولات دیکر وہاں لائی جاتی ہیں۔

اب بظاہر انسدادِ دہشت گردی لیکن در حقیقت 'چچا سام ' کے دباو پر سرحدی تجارت یا border tradeمحدود بلکہ ختم کردی گئی ہے۔جس سے مہنگائی کے دور میں اہل گوادر کو مزید پریشانی کا سامنا ہے۔

سمندر تک رسائی بند کرکے مچھیروں کا معاشی قتل عام، تلاشی کے نام پر مقامی لوگوں کی تذلیل،پانی، بجلی میسر نہیں۔ پوری ساحلی پٹی پر صرف ایک ڈگری کالج جہاں کے اساتذہ کے ہاسٹل جانے کاہمیں اتفاق ہوا۔دوسری 'سہولیات' کا کیا ذکر کہ اس ہاسٹل کا بیت الخلا ناقابل استعمال ہےاور معزز اساتذہ حاجت پو ری کرنے میدان کا رخ کرتے ہیں۔ معلوم نہیں خواتین اساتذہ کی رہائش کیسی ہے۔

ان ساری مہربانیوں کے ساتھ، ایران سے سرحدی تجارت بند کرکے اہل گوادر کو بھوکا مارنے کا عزم کرلیا گیا ہے۔

ان سب سے دل نہ بھرا تو اب احتجاج کرنے والوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنادئے گئے ہیں۔ سینکڑوں گرفتار بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

حکمرانو اور مقتدرہ سے خیر کی کوئی توقع نہیں۔ اب پاکستانیوں کو اہل گوادر کی پشتیبانی کیلئے کھڑا ہونا پڑیگا ۔لیکن وقت کم ہے اور دشمن کی چال بہت کاری ۔۔۔ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی


No comments:

Post a Comment