بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور اسکی ذیلی دفعہ35-A کیا ہے؟؟
بھارت کے وزیرداخلہ
امیت شاہ نے آج راجیہ سبھا (سینیٹ) کو بتایا کہ بھارتی آئین سے آرٹیکل 370کو اسکی
تمام ذیلی دفعات اور ترمیمات کے ساتھ ختم کیا جارہا ہے۔وہ آج کابینہ کے اجلاس کے
بعد تنسیخ کی قرارداد لوک سبھا (قومی اسمبلی) میں پیش کرینگے۔ اس آرٹیکل کی تفصیل
اور پس منظر:
کشمیر کے معاملے میں
اقوام متحدہ نے جو قرارداد منظور کی اس میں کشمیر کے حل کیلئے 3 مراحل تجویز کئے
گئے تھے۔ یعنی پہلے کشمیر سے 'پاکستانی قبائلیوں' کا انخلا، دوسرے مرحلے میں وادی
سے ہندوستانی فوج کی واپسی جسکے بعد جموں و کشمیر میں سرگرم تمام سیاسی جماعتوں پر
مشتمل ایک نگراں حکومت کا قیام جو ریفرنڈم کے ذریعے یہ معلوم کریگی کہ کشمیری
پاکستان یا ہندوستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
اس قرارداد کی تشریح
ہندوستان نے کچھ انداز میں کی کہ پاکستان پر دراندازی کا الزام لگاکر مزید فوجی دستے کشمیر بھیج دئے اور ریاستی پارلیمان قائم کرکے عبوری
حکومت تشکیل دیدی۔ قیام ہند وپاکستان کے وقت کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے جس دستاویزِ
وابستگی یا Instrument of Accessionپر دستخط کئے تھے اسکے مطابق کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی اور ریاست پر ہندوستان کے قوانین کا اطلاق نہ ہوتا
تھا۔اقوام متحدہ کی قرارداد پر عملدرآمد پر کا تاثر دینے کیلئے دستاویزِ وابستگی
کے حوالے سے ایک صدارتی حکم کے ذریعے
ہندوستانی آئین کے باب 21 میں دفعہ 370 کا اندارج ہوا جسکے تحت ریاست جموں و کشمیر
کو خصوصی حیثیت اور اسکی اسمبلی کو مکمل خودمختاری عطا کی گئی۔
اسی کے ساتھ جموں
کے پنڈتوں نے سارے دیش کے ہندووں کوکشمیر
آنے کی دعوت دی تاکہ ریفرنڈم سے پہلے یہاں ہندووں کے تناسب کو بڑھایا جاسکے۔ اس
مقصد کیلئے باہر سے کشمیر آنے والوں کو ریاستی ملازمتیں اور سیاحتی صنعت میں
سرمایہ کاری کے لئے پرکشش مراعات دی گئیں۔ان اقدامات پر کشمیریوں کی جانب سے شدید
مزاحمت ہوئی اور کئی جگہ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ ہندوستانی فوج نے کشمیریوں کی
مزاحمت کو کچلنے کیلئے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا اور ہزاروں کشمیری مارے گئے۔
لیکن بہیمانہ تشدد کشمیریوں کو دبانے میں ناکام رہاکشمیر کی شناخت برقراررکھنے
کیلئے تحریک نہ صرف جاری رہی بلکہ اس میں مزید شدت آگئی جسکی وجہ سے پنڈتوں نے
کشمیر چلو کی تحریک معطل کردی۔ حالات کا رخ دیکھتے ہوئے وزیراعظم نہرو کی سفارش پر
ہندستان کے صدر راجندرا پرشاد نے 14 مئی 1954 کو ایک صدارتی فرمان
کے ذریعے ہندوستانی آئین کے دفعہ 370 میں ترمیم کرکے ایک ذیلی شق دفعہ 35 اے کے
اندراج کا حکم دیا جسکے تحت ریاست جموں و
کشمیر کی خصوصی حیثیت کو مزید مستحکم
کردیاگیا۔ دفعہ 35اے کی رو سے صرف وہی لوگ ریاست کشمیر میں:
·
سرکاری ملازمت
·
غیر منقولہ جائداد
کی خرید و فروخت
·
مستقل رہائش
·
ریاستی اسمبلیوں
کی رکنیت اور
·
تعلیمی وظائف و
گرانٹ
کے حقدار ٹہرے
جنکی کئی نسلیں یہاں آباد ہیں یا یوں کہئے کہ صرف جدی پشتی کشمیری ہی ریاست کے
قانونی شہری ہیں۔اس ترمیم کے ذریعے 'کشمیر
کشمیریوں کا' مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وادی کی مذہبی، لسانی و عمرانی شناخت کو
محفوظ کردیا گیا۔
آئین سے 35-A ختم کرنے کی تحریک ایک عرصے سے جاری ہے لیکن جب بھی اسےختم کرنے کی کوشش کی گئی کشمیریوں نے اسکی سخت مزاحمت کی ہے لیکن اس
بار انتخابات میں کامیابی کے بعد 'مودی ہے تو ممکن ہے' کے نعرے لگاتے قوم پرست 35-Aکو ختم کرنے کیلئے بے حد پر عزم نظر آرہے ہیں ہیں۔ 35-Aچونکہ ایک صدارتی حکم کے ذریعے آئین کا حصہ بنی ہے لہٰذ
اسکی منسوخی کیلئےپارلیمینٹ سے منظوری کی ضرورت نہیں اور آئین سے نکالنے کیلئے محض
دو سطری صدارتی حکم کافی ہے۔
No comments:
Post a Comment