ہانگ گانگ ! ایک نیا سنکیانگ؟؟؟؟
صدر ٹرمپ نے ہانگ کانگ سے ملحقہ چینی علاقے شینزن Shenzhenمیں غیر معمولی عسکری نقل و حرکت کا انکشاف کیا ہے۔ ہانگ
کانگ میں سیاسی کشیدگی گزشتہ 10ہفتوں سے جاری ہے۔ موجودہ صورتحال پر تبصرے سے پہلے
ہانگ کانگ کہ تاریخ اور مختصر تعارف:
ہانگ کانگ بحر جنوبی چین (South China
Sea)کے مشرقی حصے میں دریائے پرل کے کنارے واقع ہے۔ اسکا کل
رقبہ صرف 426 مربع میل ہے جس پر 74 لاکھ
سے زیادہ لوگ آباد ہیں. یعنی ایک مربع کلومیٹر پر
ساڑھے چھ ہزار افراد رہتے ہیں۔اس اعتبار سے یہ دنیا کا چوتھا گنجان ترین علاقہ ہے۔
ہانگ کانگ ہے تو چین کا حصہ لیکن اسے خاص خودمختار حیثیت دی گئی ہے اور اسے Special
Administrative Regionکہا جاتا ہے۔واضٖح رہے کہ یغور مسلمانوں
کے صوبہ سنکیانگ کو بھی خودمختای عطا کی گئی ہے اسی بنا پر یہ سنکیانگ یغور
خودمختار علاقہ Xinjiang
Uygur Autonomous Region کہلاتا ہے
ہانگ کانگ 1842 میں برطانیہ کی نوآبادی یا کالونی بنا جب
برطانیہ نے اسے چینی شہنشاہ سے چھین لیا۔
دلچسپ بات کہ انگریز ہندوستان گرم مصالحے کی تلاش میں گئے جبکہ ہانگ کانگ کا رخ
انھوں نے افیون کیلئے کیا۔اسی بنا پر یہ جنگ جنگِ افیون کہلاتی ہے۔1898 میں
برطانیہ نے ہانگ کانگ کو 99 سالہ لیز پر لیکر سلطنتِ برطانیہ کا حصہ بنالیا۔لیز
ختم ہونے پر 1997میں ہانگ کانگ کو اس
ضمانت کے بعد چین کے حوالے کیا گیاکہ اسکی آزاد حیثیت برقرار رہیگی۔اسی بنا پر یہ اسپیشل
ایڈمنسٹریٹیو ریجن قرارپایا.اسکے لئے ONE COUNTRY TWO
SYSTEMکی اصطلاح وضع کی گئی۔یعنی چین کا حصہ ہونے کے باوجود ہانگ
کی شہری آزادی اور عدلیہ برقرار رہیگی۔
ہانگ کانگ فی کس آمدنی کے اعتبار سے نویں نمبر پر ہے لیکن
اسکے ملک کے 90 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔بلندوبالا عمارتوں کے
اعتبار سے ہانگ کانگ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ہانگ کانگ ہے تو جمہوریت کہ سربراہ کو لوگ منتخب کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کیا
منتخب ہوتی ہے اور عدلیہ آزاد ہے لیکن یہاں بیوروکریسی آزاد ہونے کیساتھ خاصی
مضبوط ہے اس پر منتخب نمائندوں کا کنٹرول
نہیں۔ہانگ کانگ کا ویزا حاصل کرنا بہت آسان ہے اسلئے یہاں دنیا کی ہر قومیت آباد
ہے۔جسکی وجہ سے یہ شکائت ہے کہ ہانگ کانگ دنیا بھر کے مفرور مجرموں کی آماجگاہ ہےاور لوگ جرائم کے بعد بھاگ کر یہاں آجاتے ہیں۔
تنازعہ کا آغاز:
اس سال فروری میں تائیوان
کا ایک آدمی اپنی حاملہ گرل فرینڈ کو قتل
کرکے ہانگ کانگ آگیا۔ تائیوان نے اس شخص
کی حوالگی کی درخواست کی تو معلوم ہوا کا حوالگی مجرمان کا قانون صرف 20 ملکوں کیلئے ہے جن میں تائیوان شامل
نہیں۔چنانچہ ملک کی چیف ایکزیکیٹیو کیری
لام (Carrie Lam) نے اس قانون
میں ترمیم کرکے چین سمیت دوسرے کئی ملکوں کو شامل کرنے کی درخواست کی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید اعتراض کیا۔انکا کہنا
تھا کہ چین اس قانون کا فائد اٹھاتے ہوئے
ان تمام افراد کو چین منتقل کرنے کی درخواست کریگا جو سوشل میڈیا
کے ذریعے چین کی مخالفت کررہے ہیں۔بحث مباحثے کے بعد سب کیلئے قابل قبول بنانے تک معاملہ موخر کردیا
کیاگیا۔جون کے آغاز میں چیف ایکزیکیٹیو نے
ترمیم شدہ مسودہ منظوری کیلئے پارلیمنٹ کو
بھیج دیا۔نئے بل میں انسانی حقوق کو تحفظ دیتے ہوئے صرف بڑے جرائم میں ملوث افراد
قابل تحویل قرار دئے گئے اور صرف ایسے ملزمان
کے معاملے پر غور ہوگا جو ایسی واردات میں ملوث ہیں جس میں کم ازکم 7 سال
کی سزا دئ جاسکتی ہے۔لیکن ہانگ کانگ کے لوگوں کو یہ بھی قابل قبول نہیں اور انھیں
ڈر ہے کہ چین سیاسی مخالفین پر قتل یا
مالی فراڈ کے جھوٹے مقدمات بنالیگا۔اس مسودے پر 12 جون کو رائے شماری ہونی تھی
لیکن ہنگامے شروع ہونے کے بعد ووٹنگ عین وقت پر غیر معینہ مدت کیلئے موخر کردی گئی۔
مظاہرین کیلئے رائے شماری کی معطلی کافی نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ شہری حقوق کے
منافی یہ بل ردی کی ٹوکری میں ڈالدیاجائے ۔ چین کیلئے یہ قابل قبول نہیں۔ بل منظور کروانے کیلئے چینی
حکومت اپنی CEOپر دباو ڈال رہی ہے۔
چین سے فرار ہونے والے بہت سے یغور بھی ہانگ کانگ میں آباد ہیں جو اظہار رائے کی
آزادی اور تیز رفتار انٹرنیٹ سے فایدہ اٹھاتے ہوئے سنکیانک کی حالت زار سے دنیا کو
آگاہ کررہے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کو ڈر ہے کہ اگر یہ قانون منظور
ہوگیا تو چین ہانگ کانگ میں موجود اپنے تمام مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے
اپنے یہاں بلالے گا جہاں انھیں تشدد کے بعد سزائے موت دیدی جائیگی۔ چین منتقل ہونے
کے خوف سے اظہار رائے اور شہری آزادیاں
بھی متاثر ہونگی۔چین کا عدالتی دنیا کا بدترین نظام سمجھا جاتا ہے۔اعتراف کے لئے
انسانیت سوز تشدد عام ہے اور غیر شفاف عدالتی
کاروائی کے بعد حکومتی منشا کے مطابق سخت سزائیں سنا دی جاتی ہیں۔
گزشتہ کئی دنوں سے مظاہرین نے ہانگ ائرپورٹ پر قبضہ کررکھا
ہے جسکی وجہ دنیا کا یہ مصروف ترین ائرپورٹ مفلوج ہے۔ چین نے ائرپورٹ پر قبضے کو دہشت گردی کی ایک
شکل قراردیا ہے۔اس سخت بیان جے بعد کچھ
لوگ ہانگ کانگ میں چین کی فوجی مداخلت کا خدشہ ظاہر کرہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ
ٹویٹ میں چین کی جس عسکری نقل و حرکت کا ذکر کیا ہے وہ اسی خطرے کی طرف ایک اشارہ
ہے۔
No comments:
Post a Comment