بے اختیار رکنیت
وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور اس پر قانونی، سفارتی
و سیاسی ردِعمل دینے کیلئے جو 7 رکنی
کمیٹی بنائی ہے اس میں توسیع کی جارہی ہے اور اخباری اطلاع کے مطابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کو
بھی اس کمیٹی کا رکن بنائے جانے کی تجویز ہے۔ اسوقت وزیرخارجہ، اٹارنی جنرل،
سکریٹری خارجہ، ڈائریکٹر آئی ایس آئی، ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز، ڈائریکٹر آئی ایس
پی آر اور وزیراعظم کے مشیر احمر بلال صوفی اس کمیٹی کے رکن ہیں۔ توسیع کے بعد آزاد کشمیر کے صدرو وزیراعظم اور گلگت و بلتستان کےگورنر اور وفاقی وزیرقانون بھی اس کمیٹی کے رکن بن
جائنگے۔
یہ کہنا قبل از وقت
ہے کہ سراج الحق کمیٹی کی دعوت قبول کرتے
ہیں یا نہیں کہ یہ فیصلہ وہ جماعت کی شوریٰ یا کم از کم اپنے قریبی رفقا کے مشورے
کے بعد کرینگے۔
گزشتہ کئی دنوں سے
جماعت اسلامی نے اس مسئلے پر رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جو مہم شروع کررکھی ہے وہ
قابل ستائش ہے۔ پاکستان کے علاوہ جماعت کی
برادر تنظیموں کی کوششوں سے یورپ اور امریکہ میں بھی مظاہرے ہورہے ہیں بلکہ بنگلہ
دیش میں بھی بھارت کے اس فیصلے کے خلاف زبردست
مہم چلائی جارہی ہے جہاں پابندیوں
کے باجودعظیم الشان ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔
کمیٹی کی رکنیت قبول کرنے یا معذرت کرتے ہوئے جماعت کو اخلاقی پہلوسامنے رکھنا
چاہئے۔ احباب کوشائد ہماری بات بری لگے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ انتخابات میں
عوام نے جماعت اسلامی کو بری طرح مسترد کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں جماعت کی صرف
ایک نشست ہے اور سراج الحق صاحب خود بھی شکست کھاچکے ہیں۔
انکی سینیٹ کی مدت بھی پوری ہونے کو ہے۔
اصولی طور پر اس اہم
کام کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی ترتیب دی جانی چایئے تھی جس میں تمام بری جماعتوں
کی نمائندگی ہوتی لیکن وزیرخارجہ کے علاوہ ایک بھی منتخب نمائندہ اس
کمیٹی میں شامل نہیں۔
اس مرحلے پر تحریک
انصاف کے عمومی ظرف پر بھی نظر رکھنا
ضروری ہے۔ سراج الحق صاحب تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کے نتیجے میں سنیٹر بنے
تھے اوران کے حق میں تحریک انصاف کے 3
ترجیحی ووٹوں کے جواب میں جماعت نے اپنے 8
غیر ترجیحی ووٹ تحریک انصاف کو دئے تھے
لیکن خانصاحب کی جماعت کا ہر رہنما اور
حامی سینیٹ میں سراج صاحب کی رکنیت کو تحریک انصاف کی خیرات قرار دے رہا ہے۔ کمیٹی
کی رکنیت کے بعد جماعت کو اسی قسم کے تحقیر آمیز تبصروں کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
سراج صاحب ایک جرت
مند انسان اور سادہ لوح پٹھان ہیں جو دل کی زبان پر لاتے کوئی ڈر محسوس نہیں کرتے
جبکہ محمود قریشی سمیت کمیٹی کے سارے سویلین ارکان عمران خان کے بارے میں بڑے
فدویانہ جذبات رکھتے ہیں لہٰذا نجمنِ ستائشِ باہمی کے ان اجلاسوں میں سراج الحق
صاحب قابل گردن زدنی گستاخ قرار پائینگے۔
ایک ضمنی سا پہلو یہ
بھی ہے کہ جس کمیٹی میں 3 جرنیل بیٹھے ہوں وہاں بلڈی سویلینز کیلئے دل کی بات کہنا ہی بہت مشکل ہے منشا کے
خلاف کسی تجویز پر اصرار توعاقبت کیلئے
سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ہم تو یہی مشورہ
دینگے کہ جماعت کامل یکسوئی کے ساتھ عوامی
بیداری کی مہم جاری رکھے۔ جب کبھی عوام نے
مینڈیٹ دیا تو ان اعلیٰ اختیاراتی کمیٹیوں کی رکنیت تو کیا سربراہی میں بھی کوئی حرج نہیں۔لیکن استحقاق کے بغیر محض
وزیراعظم کی مہربانی سے کوئی منصب سنبھال
لینا جمہوری اصولوں کے خلاف ہے کہ
اس اہم کمیٹی کی رکنیت عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے۔
No comments:
Post a Comment