امریکہ اور افغانستان
رومانیہ کے صدر کلاوس جوہانس (Klaus Iohannis)آجکل امریکہ کے دورے پر ہیں۔ انکے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے بہت سارے موضوعات پر صحافیوں کے سوالات کے تفصیلی جواب دئے۔ان موضوعات میں:
ارکانِ کانگریس الحان عمر اور رشیدہ طالب کی جانب سے اسرائیل کی مالی امداد پر پابندی کا مطالبہ، امریکہ میں کساد بازاری کا خوف، چین سے تجارتی جنگ، روس کی G-7 میں شرکت کے ساتھ کشمیر کی صورتحال، پاک بھارت کشیدگی اور افغانستان کے مسئلے پر بھی امریکی صدر نے تفصیلی گفتگو کی۔ افغانستان سے متعلق مختلف سوالوں کا جواب دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا:
· طالبان اور افغان حکومت سے بات چیت میں پیشرفت ہورہی ہے تاہم اب تک کوئی بات طئے نہیں ہوئی۔ امریکہ کو ڈر ہے کہیں انخلاکے بعد افغانستان دہشت گردی کی تربیت گاہ (یونیورسٹی) نہ بن جائے۔ طالبان نے یقین دلایا ہے کہ وہ داعش اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کو افغانستان میں قدم نہیں جمانے دینگے۔ ہمارے خیال میں طالبان ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
· افغان بڑی لڑاکا قوم ہیں ۔ ان پر حملہ کرکے سوویت یونین کی عظیم الشان ریاست سکڑ کر روس تک محدود ہوگئی۔
· افغانستان میں ہمارے سینکڑوں سپاہی مارے گئے اور ہزاروں معذور ہیں۔ اس غیر ضروری جنگ کو کافی عرصہ پہلے ختم ہوجانا چاہئے تھا
· ہم یہاں 35 سے 70 ارب ڈالر سالانہ پھونک رہے ہیں امریکی ٹیکس دہندگان کے خون پسینے کی کمائی کا یہ درست استعمال نہیں۔
· امریکہ یہ جنگ ایک ہفتے میں جیت سکتاہے لیکن اسکے نتیجے ایک کروڑ افغان مارے جائینگے جو میرے لئے قابل قبول نہیں
· ہم افغانستان سے نکلتے ہوئے اپنے قومی مفادات کے تحفظ و نگرانی کیلئے سراغرسانی اک ایک موثر نظام چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
· اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے؟
آج صبح امریکی وزیرخارجہ جناب مائک پومپیو نے CNBCکو بتایا کہ بات چیت
جاری ہے لیکن حتمی فیصلہ نہیں ہوا اور جب تک تمام معاملات طئے نہ ہوجائیں امن
مذاکرات کے نتائج کے بارے میں کوئی پیشنگوئی قبل ازوقت ہوگی۔ کچھ دن پہلے تک ایسا
محسوس ہورہا ہے کہ گویاامن معاہدے پر دستخط دنوں کی بات ہے۔ طالبان کے ترجمان ملا
شاہین نے کہا تھا کہ معاہدے کے مسودے پر
اتفاق ہوچکا ہے اور اب دونوں طرف کے 'بڑے'
اس پر آخری نظر ڈال رہے ہیں۔
تاہم گزشتہ چند دنوں سے امریکی قیادت کی گفتگو شکوک و شبہات کا سبب بن رہی ہے۔ لگتا ہے کہ چچا سا م ٹال مٹول سے کام لے کر طالبان کے
اعصاب کا امتحان لے رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment