سوئیڈن میں توہینِ قران کی منظم مہم
رمضان کے آغاز سے سوئیڈن میں قرآن پاک کی بیحرمتی کا سلسلہ جاری ہے۔ رقبے کے اعتبار سے شمالی یورپ کے اس سب سے بڑے ملک میں مسلمانوں کا تناسب 6 فیصدہے۔ ان اعدادو شمار کو حقیر نہ سمجھیں کہ دوتہائی سے زیادہ آبادی خود کو ملحد یا کسی بھی مذہب سے وابستہ نہیں سمجھتی اور 25 فیصد مسیحیوں کے مقابلے میں 6 فیصد بہت چھوٹی تعداد نہیں۔
سوئیڈش معاشرہ پرامن بقائے باہمی اور برداشت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دوسال پہلے جب جنوبی سوئیڈن کے اسکولوں میں بچیوں کے اسکارف اوڑھ کر کلاس میں آنے پر پابندی لگائی گئی تو مقامی عدالت نے از خود نوٹس لے کر پابندی کو غیر آئینی قراردیدیا۔
مسلمانوں کے صدمہ پہنچانے کیلئے قرآن پاک کی بیحرمتی انتہاپسندوں کا خاص ہتھیار ہے۔ امریکی قید سے رہا ہونے والے بعض قیدیوں نے انکشاف کیا ہے کہ عراق کی ابوغریب جیل اور گوانتانامو بے کے عقوبت کدوں میں جب مضبوط اعصاب والا کوئی قیدی بد ترین تشدد سے بھی قابو نہیں آتا تو اسکی لب کشائی کیلئے قرآن کی توہین کا حربہ استعمال کیا جاتا تھا اور یہ "دھمکی " سن کر قیدی کردہ و ناکردہ سارے گناہوں کا اعتراف کرلیتے اور اس خوف سے سارے رازاگل دیتے تھے کہ خاموشی کی صورت میں انکی آنکھوں کے سامنے قرآن کی بیحرمتی کی جائیگی۔ ذہنی تشددکے اس قابل مذمت اور بد ترین ہتھکنڈےکی پتھروں کے دور میں بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔
مغرب میں توہینِ قرآن کا منظم آغاز 2010میں ہوا جب امریکی ریاست فلورڈا کے شہر گینزول کے ایک متعصب پادری ٹیری جونز نے سانحہِ نیویارک کے متاثرین کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اُس سال گیارہ ستمبر کو قران جلانے کا دن قراردیا ۔فیس بک پر اس نے تمام "اہل ایمان" کو قرآن پاک کے نسخوں کے ساتھ اپنے چرچ آنے کی دعوت دی جسکے پارکنگ لاٹ میں قرآن جلانے کی تقریب منعقد ہونی تھیی لیکن شہری دفاع کے مقامی محکمے نے پادری صاحب کو متنبہ کیا کہ عوامی مقامات پر آگ جلانے پر پابندی ہے اور اگر قرآن کو آگ لگائی گئی تو تقریب کے تمام شرکا پر آتش زنی کے مقدمات قائم کئےجائینگے۔ چنانچہ ٹیری جونز نے قران کریم کو جلانے کی تقریب منسوخ کردی۔چند ماہ بعد شیطان صفت انسان پر یہ خبط پھر سوار ہوا ۔اور بیس مارچ 2011کو انھوں نے اپنے چرچ میں عدالت لگائی، قرآن کے نسخےکو ملزم کے کٹہرے میں رکھا اور خود منصف کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔ آٹھ منٹ کی عدالتی کاروائی کے بعد انھوں نے قرآن کو انسانیت دشمن، خواتین کے حقوق کا مخالف اور دہشت گردی کی کتاب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی اور ایک جلاد پادری نے قرآن کے نسخے پر مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادی۔
اب اس فعل قبیح کا بیڑا ڈنمارک نژاد سوئیڈش سیاستدان راسمس پلوڈن Rasmus Paludan) (نے اٹھایا ہے۔ چالیس سالہ پلوڈن ایک انتہا پسند ہارڈ لائن (Hard Line)پارٹی کے سربراہ ہیں۔ اس شخص کے کردار کا یہ عالم کہ اگست 2021 میں ڈنمارک کے ایک موقر جریدے Ekstra Bladetنے انکشاف کیا کہ موصوف سوشل میڈیا پر کمر عمر لڑکوں نے نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ پلوڈن نے خبر کی وضاحت کرتے ہوئے بے شرمی سے کہا کہ ہاں میں لڑکوں نے اس قسم کی باتیں تو کرتا ہوان مگر میرا خیال تھا کہ ان میں سے کوئی بھی بچہ نہیں سب بالغ ہیں۔پلوڈن پر پولیس سے بدتمیزی پر جرمانہ بھی ہوچکا ہے۔
پلوڈن نے اپریل 2019 میں ڈنماک کے شہر تیبور Viborg میں قرآن کے خلاف ایک مظاہرے کا اعلان کیا لیکن صرف100 افراد وہاں آئے جبکہ سورہ اخلاص پڑھتے کئی ہزار مسلمانوں نے اسے ناکام بنادیا۔
ایک سال بعد اگست 2020 میں سوئیڈن کے جنوبی مغربی مالما (Malmö)میں شیطنت کا منصوبہ بنا لیکن حکام نے انھیں گرفتار کرکے انکے ملک ڈنمارک بھیج دیا۔ اپنے رہنما کی گرفتاری پر انتہا پسند برہم ہوئے اور انھوں نے قران کا ایک نسخہ نذرِ اتش کردیا۔ جس پر وہاں فسادات پھوٹ پڑے جو کئی دن جاری رہے۔ کچھ ہی عرصے بعد پلاڈن سوئیڈن واپس آگئے۔ انکے والد سوئڈن کے شہری تھے اور اس بنیاد پر انھیں بھی شہریت مل گئی۔
ادھر کچھ عرصے سے شیطان صفت پلوڈن ڈنمارک اور سوئیڈن کے مختلف شہروں میں ایک بار پھر قران سوزی کی واردات کرتے پھر رہے ہیں۔ کہا جارہی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کی یہ لہر ڈنمارک کے عام انتخابات کیلئے انکی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے۔ پارلیمانی انتخابات ستمبر میں ہونے ہیں۔اس وقت 179 رکنی ڈینش پارلیمان میں انکی پارٹی کے پاس ایک بھی نشست نہیں۔ مسلمانوں کو اشتعال دلانے کیلئے پلوڈن ان شہروں میں قرآن کو نذرِ آتش کرنے کی تقریب منعقد کررہے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے۔اس مذموم مہم کیلئے جان کر رمضان کا انتخاب کیا گیا ہے جب مساجد میں روزانہ رات کو قرآن پڑھا جارہا ہے۔
جمعہ 15 اپریل کو اوریبروُ Orebroشہر کی جامع مسجد کے سامنے قرآن سوزی کی۔ مسلمانوں نے اس پر شدید احتجاج کیا اور پُر تشدد مظاہروں میں پولیس افسران سمیت درجنوں افراد زخمی ہوگئے۔اسی دن دارالحکومت اسٹاک ہوم کے مضافاتی علاقے میں قرآن کریم کا نسخہ نذرِ آتش کیا گیا۔ یہ مذموم کاروائی ہر وز جاری ہے۔
سوئیڈن پولیس کے سربارہ آندرے تھورن برگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں اس نوعیت کے مظاہرے اور کشیدگی نہیں دیکھی۔
مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تارکین وطن اور پناہ گزینوں پر مشتمل ہے اور مقامی قوانین کےمطابق ہر مظاہروں میں گرفتار ہونے والے ہر غیر ملکی کو فوری طور پر ملک بدر کیا جارہاہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والا شخص جسے نفرت پھیلانے کے الزام میں 14 دن جیل بھی ہوچکی ہے، کھلے عام نفرت کا بازار گرم کررہا ہے۔ ستم ظریفی کہ انتظامیہ نے ایک طرف اس وحش کھلی چھٹی دے رکھی ہے تو دوسری جانب دوسری طرف پرامن مسلمان مظاہرین کو گرفتارکرکے ملک سے بیدخل کیا جارہا ہے۔
No comments:
Post a Comment