روسی تیل اور امریکہ ہند رازونیاز
امریکہ اور ہندوستان کےبعد درمیان 11 اپریل کو ہونے والی مجازی (virtual)چوٹی ملاقات امریکی دفتر خارجہ کے مطابق بہت خوشگورار رہی۔ اسی کیساتھ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کی سالانہ کانفرنس بھی واشنگٹن میں ہوئی۔ جسکے لئے ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر اور وزیردفاع رج ناتھ سنگھ ایک دن پہلے یہاں پہنچے تھے۔ سالانہ کانفرنس کا سلسلہ 2018 سے شروع ہوا ہے جسے 2+2کا نام دیا گیا۔دو جمع دو سالانہ بیٹھک کا مقصد ہند امریکہ تعاون کو نتیجہ خیز بنانا ہے۔
چوٹی کانفرنس میں معاہدہ اربع (QUAD)سمیت تمام امور پر گفتگو ہوئی لیکن قصرِ مرمریں نے ایک دن پہلے جاری ہونے والے اعلامئے میں بڑی صراحت سے کہا تھا کہ ملاقات کے دوران یوکرین کے خلاف روسی جارحیت سے پیداہونے والا عدم استحکام ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ ہوگا۔امریکہ کو شکائت ہے کہ یوکرین کے معاملے میں دلی، واشنگٹن کا اس گرمجوشی سے ساتھ نہیں دے رہا جسکی ایک مخلص اتحادی سے توقع ہے۔ بھارت نے روسی حملے کی مذمت تو کی لیکن سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی دونوں جگہ روسی کے خلاف قرارداد پر امریکہ کا ساتھ دینے کے بجائے مودی انتظامیہ غیر جانبدار رہی۔
صدر بائیڈن روسی معیشت کو ضرب لگانے کیلئے اسکی تیل اور گیس برآمدات کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں۔ بھارت اپنی ضرورت کیلئے ہر روز 45 لاکھ بیرل تیل درآمد کرتا ہے۔اس حجم کا بڑا حصہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک سے حاصل کیا جاتس ہے لیکن اب روس نے ہندوستان کو رعائتی قیمتوں پر تیل فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ حال ہی میں دہلی نے روس سے 30 لاکھ بیرل تیل انتہائی سستے داموں خریدا ہے ۔
سرکاری طور پر ہندوستان نے روس سے روبل میں اب تک کوئی خریدرای نہیں لیکن خبر گرم کے کہ بھارت کی قومی توانائی کمپنی ONGCکا ذیلی دارہ او این جی سی ودیش لمیٹیڈ(OVL)اپنی بیرونِ ہند شاخوں کے ذریعے روسی تیل روبل میں خرید کر ہندوستان بھیجنے پر غور کررہا ہے۔ او وی یل کے اثاثے برازیل، قازقستاں، ویت نام، شام، بنگلہ دیش، لیبیا اور عراق سمیت دنیا بھر کے 37 سے زیادہ ممالک میں ہیں۔ روس میں سائیبریا کے علاوہ جزیرہ سخالن (Sakhalin)پر او وی ایل کئی پیداواری اثاثوں کا مالک ہے جن میں سخالن ایک (Sakhalin-1)میدان میں اووی ایل کا حصہ 20 فیصد ہے۔ اس میدان سے تیل کی پیدوار کا تخمینہ سوادولاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ ہے۔ تیل کے علاوہ یہاں سے گزشتہ سال 12 ارب مکعب میٹر گیس بھی حاصل کی گئی۔ اس مشارکے میں امریکی تیل کمپنی ایکسون Exxonکا حصہ 30 فیصد ہے۔ پابندیوں کی بنا پر ایکسون یہاں سے نکلنا چاہتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ مشارکے میں ایکسون کے حصص اووی ایل خرید لے۔
بھارت معاہدہ اربعہ (QUAD)کا سرگرم رکن ہے۔ بحرالکاہل سے بحر ہند کو نکلنے والے راستوں کی نگرانی کیلئے یہ اتحاد، ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے دفاعی ماہرین کواڈ کو بحرہند کا نیٹو کہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اسکے ماسکو سے مراسم خاصے گہرے ہیں، چنانچہ یوکرین کے معاملے پر دہلی کی غیرجانبداری بلکہ کسی حد تک روس کی طرف جھکاو واشنگٹن کیلئے حیرت کا باعث نہیں۔
ملاقات کے بعد صدارتی ترجمان محترمہ جین ساکی نے بات چیت کی تفصیلات بتانے سے سے گریز کرتے ہوئے بس اتناکہا کہ امریکہ تیل کیلئے ہندوستان کی ضروریات کو اچھی طرح سمجھتا ہے لیکن صدر بائیڈن نے وزیراعظم نریندرا مودی کو باور کروادیا کہ روس سے تیل خریدنا ہندوستان کے مفاد میں نہیں۔
اسی ضمن میں ایک تازہ خبر یہ ہے کہ گروپ سیون (G-7)چوٹی اجلاس میں ہندوستان کی شرکت پر جرمنی اور فرانس نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی اس کانفرنس کا میزبان ہے جو 26 سے 28 جون تک جنوب مشرقی جرمنی کے علاقے بئین (Bavaria) میں منعقد ہوگی۔ تنظیم کے سات ارکان کے علاوہ سینیگال، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا کو بطورِ خصوصی مہمان مدعو کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن کی خواہش ہے کہ مہمانوں کی فہرست میں ہندوستان کا بھی شامل کیا جائے۔ جرمن قیادت کا خیال ہےکہ یوکرین کی جنگ میں ہندوستان کا رویہ جمہوری دنیا کی توقعات کے مطابق نہیں۔
No comments:
Post a Comment