Thursday, April 14, 2022

امریکہ کی سفارتی تنہائی ۔۔۔ نیا عالمی نظام؟؟؟

امریکہ کی سفارتی تنہائی ۔۔۔ نیا عالمی نظام؟؟؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں امریکہ کو اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا سامناکرنا پڑ جب انسانی حقوق کونسل UNHRCسے روس کو نکالے جانیکی قرارداد پر ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے زیادہ تر ملک یا تو غیرجانبدار رہے یا امریکی موقف کے خلاف ہاتھ اٹھادئے۔ یوکرین اور واشنگٹن کے اتحادیوں کا کہنا تھا کہ روسی فوج یوکرین میں سنگین جنگی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔

انسانی حقوق کی کونسل 2006میں قائم کی گئی تھی  جسکا مقصد دنیا بھر میں انسانی حقوق کو یقینی بنانا ہے۔ جنیوا اس ادارے کا صدر مقام ہے اور اسکے 47ارکان  افریقہ، ایشیا وبحرالکاہل، مشرقی یورپ، لاطینی امریکہ  و غرب الہند (Caribbean),مغربی یورپ و شمال امریکہ  کیلئے مختص نشستوں پر  منتخب ہوتے ہیں جنکی مدت تین سال ہے۔ ایشیا و بحرالکاہل کیلئے مختص 13 نشتوں میں سے چار پر 2023تک چین، نیپال، پاکستان اور ازبکستان براجمان ہیں جبکہ ہندوستان کی مدت 2024 میں ختم ہورہی ہے۔

بد قسمتی سے اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں کے طرح انسانی حقوق کونسل بھی بس “گپ شپ” کی ایک آرام دہ جگہ ہے۔ کشمیر اورفلسطین میں انسانی حقوق  کی پامالی، امریکہ میں سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک، مغرب کے منظور نظر آمروں کی جانب سے اپنے مخالفین پر بدترین تشدد، برمی اور ویغوروں کی نسل کشی جیسے معاملات پر UNHRCبیانات اور 'تشویش' سے آگے نہیں بڑھی۔ روسی  تاتاروں اور اہل شیشان پر ہونے والے مظالم کا  UNHRCنے کبھی کوئی ذکر تک نہیں کیا۔

تکنیکی اعتبار سے تو یہ قراداد دو تہائی اکثریت سے منظور ہوگئی کہ 24  مقابلے  میں93 ممالک نے اسکے حق میں رائے دی اور ادارے سے  روسی رکنیت کی معطلی اب دنوں کی بات ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے اسے ایک  بڑی سفارتی کامیابی قرار دیتے ہوئے روس کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھے۔ لیکن  بین الاقوامی سیاست کے علما ایک دوسری تصویر پیش کررہے ہیں۔

یہ درست کہ رائے شماری میں حصہ لینے والے دوتہائی ممالک نے قرارداد کی حمائت کی اور اس پر واشنگٹن کو مبارک سلامت کے ڈونگرے برسانے کا حق حاصل ہے۔لیکن اگر اسے مجلس کے کل 193ارکان کے تناسب سے دیکھا جائے تو جنرل اسمبلی کے نصف سے بھی کم ارکان نے قرارداد کی حمائت میں ہاتھ بلند کئے۔اٹھارہ ممالک اجلاس سے غیر حاضر رہے اور وہاں موجود 58 ارکان رائے شماری کے دوران غیر جانبدار رہے۔

مسلم دنیا یعنی OICکے 57ملکوں میں سے صرف ترکی،چاڈ، لیبیا اور البانیہ نے حمائت کی۔الجزائر، ایران  اور شام سمیت 10مسلم ممالک نے مخالفت میں ووٹ ڈالےاور باقی تمام مسلم اکثریتی ممالک غیر حاضر یا غیر جانبدار رہے

سارے براعظم افریقہ سے صرف چاڈ اور لیبیا نے حمائت کی، چھ ممالک مخالفت میں کھڑے ہوئے اور باقیوں نے غیر جانبداری کا علم بلند کیا۔حال ہی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا مراکش، اجلاس میں سرے سے شریک ہی نہیں ہوا۔ اسرائیل کا دوسرا نیا افریقی دوست سوڈان غیر جانبدار رہا اور مغرب کی کوششوں سے سوڈان کو دوٹکڑے کرکے جنوبی سوڈان کے نام سے جو ملک تراشہ گیا ہے اس نے بھی امریکہ کی حمائت کے بجائے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی۔

ہندوستان اور سعودی عرب سمیت امریکہ کے غیر یورپی اتحادیوں میں سےکسی ایک نے بھی قرارداد کی حمائت نہیں  کی اورسب کے سب خود کو غیر  جانبداری کے گھونگھٹ میں چھپائے رہے

وسط ایشیا سے قرارداد کو ایک بھی ووٹ نہ ملا، قازقستان، کر غستان، تاجکستان اور ازبکستان نے مخالفت کی جبکہ آذربائیجان  اور ترکمانستان ممالک اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ افغانستان کی رکنیت عملاً معطل ہے

برصغیر کے تینوں ممالک یعنی پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش رائے شماری کے دوران غیر جانبدار رہے۔ ایشیا میں ترکی، فلپائن، جنوبی کوریا، جاپان اور برما کے سوا تمام ایشیائی ممالک مخالف یا غیر جانبدار رہے۔

مشرق وسطی میں صرف اسرائیل نے دوستی کا حق ادا کیا۔ واشنگٹن کے تمام خلیجی اتحادی اور مصر غیر جانبدار ہے۔

اس سے پہلے 26 فروری کو سلامتی کونسل میں رائے شماری کے دوران بھی ہندوستان اور متحدہ عرب امارات غیر جابندار رہے تھے۔ یوکرین میں فوری جنگ بندی کی اس قرارداد کو روس نے ویٹو کرکے  غیر موثر کردیا تھا۔اس موقع پر چین نے مخالفت کے بجائے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی تھی جسے واشنگٹن میں ایک بڑی سفارتی کامیابی قراردیا گیا۔

میدانِ سفارت کے ساتھ امریکہ کو مالیاتی محاذ پر بھی شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ واشنگٹن نے روس پر جو اقتصادی پابندیاں عائد کی ہیں ان میں سب سے اہم امریکہ، جاپان، برطانیہ اور یورپی یونین کے بینک ہائے دولت (State Banks)کی وہ ہدائت ہے جسکے تحت امریکی ڈالر، برطانوی پونڈ، یورو اور جاپانی ین میں کوئی رقم روسی بینکوں کو منتقل نہیں کی جاسکتی۔  عالمی نیٹ ورک سے تعلق مسدود کرنے کیلئے رابطے کا محفوظ نظام SWFITیا BIC Codeسے روس کا رابطہ ختم کردیا گیا ہے۔ جسکے نتیجے میں روسی بینکوں کیلئے نہ صرف غیر ملکی مالیاتی اداروں سے لین دین مشکل ہوگیا ہے بلکہ اب روسی صافین اپنے ملک میں اعتباری (Credit)کارڈ بھی استعمال نہیں کرسکتے۔

ان پابندیوں کی وجہ سے یورپ کو فروخت کی جانے والی گیس کی ادائیگی معطل ہے یعنی  صارفین روسی توانائی سے تو مستفید ہورہے ہیں لیکن روس کو قیمت کی ادائیگی نہیں ہورہی۔لطف یہ کہ گیس فراہم کرنے والےروسی ادارےGazprom  اور یورپی تقسیم کنندگان کے درمیان جو معاہدے ہیں انکی رو سے 'عدم ادائیگی' کا اطلاق بھی قانونی طور پر ممکن نہیں  کہ ادائیگی کیلئے خریداروں کی صلاحیت اور نیت دونوں بہت واضح ہیں۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ ہم نے بِل کی رقم آپکے کھاتے میں جمع کرادی ہے۔ رقم کی منتقلی کیلئےآپ کے دئے ہوئے SWIFTکوڈ کی ہمارا بینک تصدیق نہیں کرپارہا جسکی وجہ سے رقم کی منتقلی میں خلل پڑرہا ہے۔

امریکی حالیہ پابندیوں کا ہدف روس ہے لیکن وینیزویلا، ایران اور شمالی کوریا ان پابندیوں کو کافی پہلے سے بھگت رہے ہیں۔ چین بھی امریکہ کے اس ہتھیار یعنی ڈالر کی اجارہ داری سے خوفزدہ ہے۔ اسی بناپر بیجنگ درآمد و برآمد کیلئے ڈالر کے بجائے اپنی کرنسی، یووان (Yuan)میں لین دین کرنا چاہتا ہے اور چین اپنی ان کوششوں میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوتا نظر رہاہے۔  روس اور چین باہمی تجارت  روسی روبل (ruble)اور چینی یووان میں کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔  شنید ہے کہ سعودی عرب، چین سے اپنے تیل کی قیمت یووان میں وصول کرنے پر آمادہ ہے۔ کچھ ایسی ہی خبریں متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی آرہی ہیں۔ روبل، یووان اور مقامی کرنسیوں میں لین دین سے جہاں ایشیائی ممالک کا ٖڈالر پر انحصار کم ہوگا وہیں روس پر لگائی جانے والی پابندیاں بھی قدرے غیر موثر ہوجائیں گی۔

ہندوستان نے سرکاری طور پر اب تک روبل میں لین دین کا اعلان نہیں کیا لیکن خبر گرم کے کہ بھارت کی قومی توانائی کمپنی ONGCکا ذیلی دارہ او این جی سی ودیش لمیٹیڈ(OVL)اپنی بیرونِ ہند شاخوں کے ذریعے روسی تیل روبل میں خرید کر ہندوستان بھیجنے پر غور کررہا ہے۔ او وی یل کے اثاثے برازیل، قازقستاں، ویت نام، شام، بنگلہ دیش، لیبیا اور عراق سمیت دنیا بھر کے 37 سے زیادہ ممالک میں ہیں۔ روس میں سائیبریا کے علاوہ  جزیرہ سخالن (Sakhalin)پر او وی ایل کئی  پیداواری اثاثوں کا مالک ہے جن میں سخالن ایک (Sakhalin-1)میدان میں اووی ایل کا حصہ  20 فیصد ہے۔ اس میدان سے تیل کی پیدوار کا تخمینہ سوادولاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ ہے۔ تیل کے علاوہ یہاں سے گزشتہ سال 12 ارب مکعب میٹر گیس بھی حاصل کی گئی۔ اس مشارکے میں امریکی تیل کمپنی ایکسون Exxonکا حصہ 30 فیصد ہے۔ پابندیوں کی بنا پر ایکسون یہاں سے نکلنا چاہتی ہے اور بہت ممکن ہے کہ  مشارکے میں ایکسون کے حصص اووی ایل خرید لے۔

بھارت معاہدہ اربعہ (QUAD)کا سرگرم رکن ہے۔ بحرالکاہل سے بحر ہند کو نکلنے والے راستوں کی نگرانی کیلئے یہ اتحاد، ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ امریکہ کے دفاعی ماہرین کواڈ کو بحرہند کا نیٹو کہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت روسی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اسکے ماسکو سے مراسم خاصے گہرے ہیں، چنانچہ  یوکرین کے معاملے پر دہلی کی غیرجانبداری بلکہ کسی حد تک روس کی طرف جھکاو واشنگٹن کیلئے  حیرت کا باعث نہیں۔

مارچ کے آخر میں کریملن نے جوصدارتی فرمان جاری کیا ہے اسکے بارے میں ہم گزشتہ نشست میں تفصیل سے بتا چکے ہیں۔ اس حکم میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ یکم اپریل سے یورپ کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمت روبل میں وصول کی جائے گی۔صدارتی فرمان کے بعد Gazpromقانونی طور پر قیمتیں روبل میں لینے کی پابند ہوگئی ہے۔ حسب توقع  مغربی حکومتوں نے اس مطالبے کو یہ کہہ کر ترنت مسترد کردیا کہ خرید و فروخت کے معاہدوں میں ان کرنسیوں کا تعین کیا جاچکا ہے جس میں یکطرفہ تبدیلی معاہدے کی خلاف وزری ہوگی۔

لیکن 5 اپریل کو آسڑیا کی توانائی کمپنی OMVنے روسی ادارےGazprom سے ایک معاہدے پر رضامندی ظاہر کردی جسکے تحت او ایم وی روسی گیس کی قیمت روبل (ruble)میں ادا کریگی۔ دوسرے دن دارالحکومت بڈاپیسٹ (Budapest) میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربن نے بھی روسی گیس کی قیمت روبل میں اداکرنےکا عندیہ دیدیا۔ جب ایک صحافی نے ان سے یورپی یونین کی جانب سے روس کے معاشی بائیکاٹ کا ذکر کیا تو جناب اوربن نے کہا یہ روس اور ہنگری کا باہمی معاہدہ ہے جسکا یونین یا نیٹو سے کوئی تعلق نہیں

کچھ ایسی ہی خبریں سلاواکیہ Slovakiaسے بھی آرہی ہیں۔ سلاوک وزیر اقتصادیات رچرڈ سولک نے سرکاری ٹیلیویژن کو بتایا کہ سلاواکیہ روسی تیل اور گیس کی قیمت روبل میں ادا کرنے کو تیار ہے۔تاہم پولینڈ کی سرکاری تیل کمپنی PGNiG کے سربراہ پال میجیسکی نے کہا کہ انکا ادارہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے یورو میں ادائیگی جاری رکھے گا۔

غیر یورپی اتحادیوں کی سردمہری اور لین دین کیلئے روبل پر رضامندی سے امریکہ بہادر  سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔امریکی مرکز ہائے دانش (Think Tanks)میں اس معاملے پر تفصیلی بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ دوسری طرف امریکی جرنیلوں کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ جلد ختم ہونے والی نہیں۔ گزشتہ دنوں ایوان نمائندگان(قومی اسمبلی) کی مجلس قائمہ برائے دفاع  کے سامنے بیان دیتے ہوئے امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نےکہا کہ اثرورسوخ بڑھانے کیلئے عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اور اسلحے کی دوڑ میں تیزی آرہی ہے اور اس خطرے کے سدباب کیلئے مالیاتی، عسکری اور سفارتی ہرسطح پر مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

روس نے نیٹو کی متوقع رکنیت کو یوکرین پر حملے کا جواز بنایا ہے۔اسکے  باوجود نیٹو میں توسیع کی مہم جاری ہے۔ گزشتہ دنوں نیٹو کے سکریٹری جنرل  جینس اسٹولٹن برگ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر فن لینڈ اور سویڈن نیٹو کی رکنیت اختیار کرنا چاہیں تو انھیں خوش آمدید کہا جائیگا۔ فن لینڈ کی 1340کلو میٹر طویل سرحد روس سے ملی ہوئی ہے۔ نیٹو کی اس پیشکش پر تبصرہ کرتے ہوئے فن لینڈ کی وزیراعظم محترمہ ثنا میرن نے فرمایا کہ نیٹو کی چھتری کے نیچے آنے میں فائدے کیساتھ  نقصان اور خطرات بھی ہیں۔ انکی حکومت متوقع امکانات، مواقع اور مضمرات کا جائزہ لے رہی ہے۔

امریکی اثرورسوخ میں کمی سے جہاں امریکی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے بابووں کو شدید تشویش ہے وہیں صدر بائیڈن اپنی صدارت کے بارے میں بھی اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہیں۔ اس سال نومبر میں یہاں پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں جب ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی)کی تمام کی تمام 435 اور سینیٹ کی 100میں سے 34 نشتوں پر چناو ہوگا۔ سینیٹ میں صدر بائیڈن اور حزب اختلاف کی ریبپلکن پارٹی 50:50سے برابر ہیں جبکہ مہنگائی کی وجہ سے رائے عامہ کے جائزے برسراقتدار جماعت کیلئے بہت زیادہ حوصلہ افزانہیں۔ دورسرے معاملات کے علاوہ امریکہ کے قدامت پسندوں نے عالمی مالیاتی نظام میں ڈالر کی کمزور ہوتی گرفت کا الزام صدر بائیڈن پر لگانا شروع کردیا ہے۔انکاکہنا ہے کہ ڈیموکریٹ صدر قائدانہ صلاحیت سے محروم ہیں جسکی وجہ سے عالمی اسٹیج پر امریکہ اپنے اتحادی اور اثرورسوخ کھورہا ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں خود کو دبنگ ثابت کرنے کے ہونکے میں امریکی صدر کوئی ایسا قدم نہ اٹھالیں جس سے عالمی امن خطرہ میں پڑ جائے ۔   

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 15 اپریل 2022

ہفت روزہ دعوت 15 اپریل 2022

روزنامہ امت کراچی 15 اپریل 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 اپریل 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


 

No comments:

Post a Comment