غزہ اور انسانی ضمیر ۔۔ Too little, too late
غزہ پر
اسرائیلی یلغار ساتویں ہفتے میں داخل ہوچکی ہے اور اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنگ میں 'طویل وقفے' کی قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لایا ۔ گزشتہ ہفتے مالٹا نے یہ قرار
داد پیش کی تھی جس میں دونوں
فریق سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری،
اور شہریوں
خاص طور پر بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ قرارداد میں تمام
فریقوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ غزہ میں شہریوں کو ضروری اشیا اور خدمات کی
فراہمی میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور انسانی امداد کی تقسیم کیلئے لڑائی میں طویل وقفہ
کردیں۔ بحث کے دوران روس نے ایک ترمیم پیش کی جس میں طویل وقفے کے بجائے مکمل جنگ
بندی تجویز کی گئی، لیکن امریکہ اور
برطانیہ نے ترمیم کو ویٹو کردیااور یہ قرارداد روسی ترمیم کے بغیر صفر کے مقابلے میں 12 سے منظور ہوگئی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس نے
رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اصولی طور پر سلامتی کے کونسل
کے مستقل نمائندے اور اسرائیل کے سرپرست کی حٰثیت سے امریکہ کو اس قرارداد پر
عملدرآمد یعنی طویل وقفے کی عارضی فائربندی کیلئے تل ابیب پر دباو ڈالنا چاہئے تھا
لیکن اسکے برعکس جناب جو بائیڈن نے فرمایا'غزہ
میں جنگ اس وقت بند ہوگی جب حماس کی اسرائیلیوں کو قتل کرنے، دھمکیاں دینے اور
ہولناک سلوک کرنے کی صلاحیت ختم ہوجائیگی'۔ ساتھ ہی مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے گلوگیر لہجے میں بولے 'غزہ سے آنے والی تصویروں اور بچوں سمیت ہزاروں شہریوں کی
ہلاکت نے مجھے افسردہ کردیا ہے '۔ امریکی صدر کے اس اعلان کو اسرائیلی جنگووں نے خونریزی جاری رکھنے کا اشارہ
بلکہ حوصلہ افزائی سمجھا اور اسی رات غز ہ
کے الاہلی المعروف Baptistہسپتال کے قریب شدید بمباری کر کے وہاں کھلے آسمان تلے پناہ گزین
لوگوں کو راکھ بنادیا۔ سوختہ اور کٹی پھٹی
میتوں کی شناخت ناممکن تھی چنانچہ ہسپتال کے پارکنگ لاٹ میں ایک بڑا گڑھا کھود پر
ان معصوموں کی اجتماعی قبر بنادی گئی۔ تدفین کے دوران بھی نچلی پرواز کرتے نشانچی
ڈرونوں نے انسانوں کا شکار جاری رکھا۔
اس وحشت میں 300 سے زیادہ
افراد مارے گئے لیکن ایک بچی ملیسا کی کہانی نے پتھر دلوں کو بھی رلادیا۔ اس حملے
میں ملیسا کے ماں باپ بھائی بہن، خالہ، پھوپھیاں اور دادی مارے گئے۔ بس اسکی غمزدہ
خالہ یا سمیں بچ گئی کہ وہ اسوقت وہ اپنے سسرال میں تھی۔ یا سمین نے کہا کہ 16ماہ
کی ملیسیا صرف ایک ہفتہ قبل پہلی بار اپنے پیروں پر چلی تھی اور ننھی پوتی کو
پیروں پر چلتا دیکھ کر دادی اماں خوشی سے نہال تھیں۔ پھوپھو نے بھتیجی کا نیا جوڑا
سلوایا۔ امریکی ساختہ بم کا ایک نوکیلا ٹکڑا ملیسا کی کمر میں پیوسٹ ہوگیا۔کیا یہ
ننھی سی جان اور کیا اسکے ریڑھ کی ہڈی اور کہاں بم کا بھیانک ٹکرا۔ ملیسا مکمل طور
پر اپاہج ہوگئی ہے۔ اچھا ہے پیر پر چلتا دیکھ کر خوش ہونے والی اسکی ضعیف دادی اور
پھوپھو اپنی گڑیا کو اپاہج دیکھنے کیلئے زندہ نہیں۔سچ پوچھیں تو ملیسا نہیں بلکہ
اس زمین پر بوجھ بنے سات ارب اندھے، گونگے اور بہرے انسان اپاہج ہوگئے ہیں۔
دوسرے روز کئی بار پامال کی جانیوالی
جبالیہ خیمہ بستی کے الفخورہ پرائمری اسکول اور تل الزعتر اسکول پر بمباری کی گئی
جس سے سینکڑوں بچے اور اساتذہ جاں بحق
ہوگئے۔ آگ و بارود کی بارش میں بھی فلسطینی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف سے غافل
نہیں اور پوری پٹی پر جہاں موقع میسر ہو درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے۔چھوٹی جماعت
کے طلبہ کو اسلے بھی اسکول بھیجا جارہا ہے کہ ہم جماعتوں کی صحبت میں شوخی و شرارت
کا موقع ملے، انکا دھیان جنگ کی طرف سے ہٹے
اور دہشت زدہ ذہنوں کو چند گھنٹے سکون نصیب ہو۔
اسی دوران الشفا ہسپتال ایک
گھنٹے میں خالی کرنے کا نادرشاہی حکم جارہ ہوا۔ ڈاکٹر بہت سے مریضوں کو اپنےکندھوں
پراٹھاکر باہر لے گئے۔ کٹے پھٹے اور
لخت لخت 120مریض اب بھی اس تاریک ہسپتال میں موجود ہیں، جنکی نگہداشت پر مامور ایک
ڈاکٹر نے کہا کہ اسپرین کی گولی تو دور کی بات مجھے سارے دن کیلئے پانی کی ایک
درجن بوتلیں ملتی ہیں جن سے میں 120 مریضوں کی پیاس بجھاتا ہوں۔ میرے بعض مریض اشاروں
سے مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے مرجانے کی دعا کرو لیکن ایک مسیحا یہ کیسے کرسکتا ہے میں
آج بھی اپنے مریضوں کی شفا کیلئے پرامید اور دعا گو ہوں۔
غزہ کے لوگ جس بے جگری سے
ظلم و جبر کے آگے کھڑے ہیں اس میں وہاں موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے کا بہت بڑا
ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں جوانسال ڈاکٹر حمام اللہ نے عزم و ایثار کی ایک تاریخ رقم
کی ہے۔ الشفا میں تعینات ڈاکٹر صاحب امریکی
تعلیم یافتہ ماہر امراض گردہ (Nephrologist)تھے۔ اس
ماہ کے آغاز پر اسرائیلی طیاروں نے پمفلٹ گرائے جس میں کہا گیا تھا کہ الشفا ہسپتال دہشت گردوں کا
مرکز ہے۔ تمام غیر متعلقہ افراد یہاں سے نکل جائیں ورنہ اپنے نقصان کے وہ خود ذمہ
دار ہونگے۔ جب ٖڈاکٹر حمام سے ایک خاتون صحافی
نے کہا کہ اب جبکہ دوائیں ختم ہوچکی ہیں اور کسی قسم کا علاج ممکن نہیں تو آپ ہسپتال
میں رہ کر اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ یہ سن کر ڈاکٹر حمام نے بہت ہی
پرسکون لہجے میں کہا کہ میں نے طب کی تعلیم پر 14 سال خرچ کئے ہیں اور میڈیکل کالج
میں داخلے کے وقت حلف اٹھایا تھا کہ میں علاج کیلئے ہمیشہ کمر بستہ رہونگا۔ کیا میں
اپنے اس عہد کو توڑدوں؟ میرے پاس دوا نہیں لیکن میں اپنے مریضوں کی پیشانیاں سہلا
کر دلاسہ تو دے سکتا ہوں۔ مرہم پٹی میں نرسوں کی مدد کرسکتا۔ معذور مریضوں کے بول
و براز صاف کرسکتا ہوں۔ میں اپنے مریضوں کو تنہا نہیں چھوڑونگا کہ یہ وعدہ خلافی
ہوگی۔ یہ زندگی تو ایک دن ختم ہونی ہی ہے۔
میں گناہگار ہوں لیکن وعدہ شکن بن کر اپنے رب سے نہیں ملونگا
کہ میں نے اسے حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھایا تھا۔ ہمارے رب نے اس
نوجوان ڈاکٹر کے عہد کی لاج کچھ اسطرح رکھی کہ اسی رات وہ ہسپتال سے متصل اپنے گھر
میں والد، سسر اور برادر نسبتی کے ساتھ اسرائیلی بمباری کا شکار ہوگئے۔انکے احباب
کا خیال ہے ڈاکٹر حمام ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے۔ اسلئے کہ اس سے ایک دن پہلے بھی انکے
گھر پر بمباری ہوئی جس سے گھر کا آدھا حصہ تباہ ہوگیا لیکن کوئی جانی نقصان نہ
ہوا۔ اسکے بعد بعد ڈاکٹر حمام کی والدہ، اہلیہ اور بچے اسی گھر کے بچے ہوئے حصے
میں سمٹ آئے جبکہ ڈاکٹر صاحب قریب ہی اپنے سسرال منتقل ہوگئے جہاں انھیں نشانہ
بنایا گیا۔ ڈاکٹر حمام نے پسماندگان میں جوانسال
بیوی، ضعیف ماں اور دو بچے چھوڑے ہیں۔ ان نونہالوں کی عمر چار اور پانچ سال ہے۔
اسی عزم کا نتیجہ ہے کہ غزہ پر
حملہ ، علاقے کی طویل ترین دورانئے کی جنگ بن چکا ہے۔جون 1967 کی جنگ میں کیل کانٹوں سے
لیس مصر، اردن، شام، عراق اور اردن کی 1000
ٹینکوں سے مسلح ڈھائی لاکھ سپاہ اسرائیلی
فوج کے مقابلے میں صرف چھ دن کھڑی رہ سکی اور بڑا رقبہ گنواکر تاًگٹھنے ٹیک دئے۔
اسکے چھ سال بعد 1973 کی جنگِ رمضان میں مصر و شام کی افواج جنھیں، اردن، عراق، لیبیا، کوئت، تیونس، مراکش،
کیوبا اور شمالی کوریا کی عسکری مددحاصل تھیں، 19 دن بعد ہمت ہارگئیں، جبکہ فاقہ
زدہ و بے سروسامان اہل غزہ 43ویں دن بھی اس
شان سے ڈٹے ہیں کہ 'ہم نہ باز آئینگے محبت سے ۔۔ جان جائیگی اور کیا ہوگا'
اسی کیساتھ رائے عامہ کے محاذپر
بھی اسرائیل انتہائی سرگرم ہے۔ ڈاکٹر حمام
اللہ کی دریدہ دہنی پر انکی سر کشیدگی بلکہ
بدن دریدگی کی روداد آپ نے سن لی۔ اب جبر
کی ایک اور کہانی پیش خدمت ہے۔ ایڈمنٹن (کینیڈا) کی جامعہ البرٹا (University of Alberta)نے شعبہ جنسی تشدد ( Sexual Assault Center) کی
سربراہ ڈاکٹر سمینتھا پئرسن (Samatha
Pearson) کو برطرف کردیا۔ڈاکٹر صاحبہ پر الزام ہے کہ انھوں نے کینیڈین
سیاستدانوں کے نام ایک کھلے خط پر دستخط کئے تھے۔مذکورہ خط میں نیشنل ڈیموکریٹک
پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ
'فلسطینیوں پر جنسی تشدد کے مجرم ہونے کے غیر مصدقہ الزامات' کو دہرا رہے ہیں۔ اس
خط میں 7 اکتوبر کے حماس حملے کے دوران اسرائیلی خواتین پر مجرمانہ حملوں اور عصمت
دری کے الزام کو جھوٹا اور من گھڑت قراردیا گیا ہے،
اس سے
پہلے نیویارک کی تین سیئر صحافیات قلم کی عصمت وآبرو پر اپنا ذریعہ معاش قربان کرچکی پیں۔ امریکہ کے
موقر اخبار کی میگزین مدیرات محترمہ جیزمین ہیوز (Jazmine Hughes) اور جیمی لارن کائلز (Jamie Lauren Keiles)نے انتظامیہ کے نام
ایک کھلے خط میں اسرائیل کو "نسلی امتیاز اور نسل کشی" کا مجرم قرار دیا۔
خط کی اشاعتِ عام پر ان خواتین کو نیویارک ٹائمز کی جانب سے انتباہی مراسلے لکھے
گئے۔ اس وارننگ کو دونوں
خواتین نے اظہارِ رائے پر دباو گردانتے ہوئے استعفیٰی دیدیا۔ گزشتہ ہفتے اسی اخبار
کی مدیرِ شاعری محترمہ این بوئیر
(Ann Boyer)نے بھی اخبار کی انتظا میہ کو
ایک خط بھیج دیا جسمیں بوئیر صاحبہ 'نے لکھا کہ 'اہلِ غزہ کے خلاف امریکی
حمایت یافتہ اسرائیلی جنگ کسی کی جنگ نہیں ہے، نہ اس سے کسی کو کوئی تحفظ ملے گا۔
یہ نہ اسرائیل کےمفاد میں ہے نہ امریکہ و یورپ یا یہودیوں کے۔ اس سے یہودیوں کو
محض بدنامی حاصل ہوگی جنکے نام پر یہ کچھ ہورہا ہے۔ جنگ کا واحد مقصد تیل کمپنیوں
اوراسلحہ ساز اداروں کے مہلک نفع میں اضافہ ہے۔بوئر صاحبہ نے کہا کہ فلسطینیوں نے
دہائیوں کے قبضے، جبری نقل مکانی، محرومی، تحقیر آمیز نگرانی، محاصرے، قید اور
تشدد کی مزاحمت کی ہے' بوئیر صاحبہ نے اپنی
دونوں ساتھیوں کی طرح انتباہی خط کا انتظار کئے بغیر تین سطری استعفیٰ بھیج کر اخبار سے تعلق توڑلیا۔
لاطینی امریکہ میں اسرائیلی
جبر کے خلاف ردعمل شدید ہوتا جارہا ہے۔ چلی اور ہونڈراس اسرائیل سے اپنے
سفیرو کو بلاچکے ہیں، بولیویا نے اسرائیل
سے تعلقات ہی ختم کرلیئے اور اب ساڑٖھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل وسطی امریکہ کے
ننھے سے ملک بلیز (Belize)نے بھی اسرائیل سے سفارتی
تعلقات توڑ لئے۔
فرانسیسی حکومت اسرائیل کی
پشتیانی جاری رکھے ہوئے ہے لیکن فرانس بار کونسل کے سینئر رکن Gilles Devers نے غزہ میں اسرائیلی اقدامات
کو نسل کشی قراردیتے ہوئے عالمی فوجداری عدالت
ICCمیں مقدمہ دائر کردیا۔فاضل وکیل نے اپنی
درخواست میں عزت ماب بینچ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'ان اقدامات کو نسل کشی قراردینا محض میری رائے نہیں بلکہ یہ ایک
قانونی حقیقت ہے'
شدید ترین سینسر، ابلاغ عامہ
پر مغربی دنیا کا ریاستی دباو اور ضمیر کی بات کہنے والوں کو نشانِ عبرت بنادینے کے باوجود، اسرائیلی فوج کی غیرانسانی
بربریت دھیرے دھیرے بے نقاب ہورہی ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی
ٹیلی ویژن NBCنے رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے جسکے مطابق صرف 40 فیصد
امریکی صدر بائیڈن کے حامی ہیں۔ اس غیر مقبولیت کی بنیادی وجہ اسرائیل کی غیر
مشروط حمائت ہے، 70 فیصد امریکی اس جنگ
میں بائیڈن کے کردار کو امریکی اقدار کا آئینہ دار اور امنگوں کا ترجمان نہیں
سمجھتے۔اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکی حماس کے حامی ہیں۔ عوام کی اکثریت اب بھی
اسرائیل کی پشت پر ہے لیکن انھیں اس معاملے میں جناب بائیڈن سے جس قائدانہ کردار
کی توقع تھی امریکی صدر اس پر پورا نہیں اتر سکے۔ نوجوانوں یعنی 18 سے 34 سال کے
لوگوں میں جناب بائیڈن کی مقبولیت31 فیصد رہ گئی ہے۔ ایک حیرت انگیز بات کہ 18 سے 29
سال کے 50 فیصد امریکی حماس کو دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ حوالہ: یروشلم پوسٹ
رائے عامہ میں تبدیلی کی بڑی
وجہ فسلطینیوں کے حق میں امریکی مسلمانوں کی منظم تحریک ہے۔ یہاں بائیکاٹ کے اثرات بھی محسوس
ہورہے ہیں۔ سان فرانسسکو میں ایک میکڈانلڈ بند ہوگیا اور سارے امریکہ میں Starbucksکافی کی بِکری میں واضح کمی
آگئی ہے۔ تاہم انسانی ضمیر کی یہ سست انگڑائی اہل غزہ کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی
ہے کہ انگریزی اصطلاح میں معاملہ too little too lateکی حدود کو چھورہا ہے۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 نومبر 2023
ہفت
روزہ دعوت دہلی 24 نومبر 2023
روزنامہ
امت کراچی 24 نومبر 2023
ہفت روزہ
رہبر سرینگر 26 نومبر 2023
روزنامہ قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment