Thursday, November 2, 2023

غزہ!! لرزتا دہکتا آگ کا گولا۔۔ فلسطینی 'نکبہ' دوم کا حصہ بننے کو تیار نہیں ۔۔۔ ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائینگے

 

غزہ!! لرزتا دہکتا آگ کا گولا

فلسطینی 'نکبہ' دوم کا حصہ بننے کو تیار نہیں

ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے یہیں خاک اپنی ملائینگے

جمعہ 27 اکتوبر کی شام سے اسرائیل نے غزہ پر خوفناک بری حملے کا آغاز کردیا۔ اس سے پہلے بدھ اور جمعرات کو داخلے کی محدود  کاروائی کی گئی جسے اہل غزہ نے پسپا کردیا۔ اس شب خون میں اسرائیل کے کئی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ایک فوجی مارا گیا۔ بری حملے سے پہلے یہودی علما نے ہنگامی صورتحال کا حیلہ اختیار کرتے ہوئے سبت کی پابندیا معطل کردیں۔

حملے کا آغاز غزہ کی پوری پٹی پر فاسفورس بموں  کی بارش سے ہوا۔ سفید فاسفورس سے پھوٹنے والی چنگاریوں کی حدت 800 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہوتی ہے چنانچہ چند ہی گھنٹوں میں سارا غزہ دہک اٹھا۔ اقوام متحدہ نے سفید فاسفورس کو ممنوعہ ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ تاہم امریکہ نے اسے افغانستان میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا

اسی کیساتھ بمباروں اور ڈرونوں نے پٹی کے ایک ایک انچ کو نشانے پر رکھ لیا۔ تینوں جانب سے توپخانے اور ٹینکوں نے مہلک ترین گولے برسائے اور بحر روم سے اسرائیلی بحریہ نے خشکی پر مار کرنے والے  میزائیل داغے۔ یہ کاروائی تادم تحریر (30 اکتوبر) جاری ہے۔ غزہ کی سرحد پر کھڑے فاکس نیوز کے ایک صحافی نے کہا  'ایسا لگ رہا ہے کہ گویا سارا غزہ شعلوں اور زمین زلزلے کی لپیٹ میں ہے'۔ غزہ میں پھٹنے والے بم و میزائیل اور بارودی گولوں  کے دھماکوں سے  شام، صحرائے سینائی اور لبنان  کے بڑے علاقے گونج رہے ہیں لیکن مسلم اکثریتی ممالک سمیت 'مہذب' دنیا کے کانوں میں خوف و مفادات کا سیسہ اسقدر گہرائی تک اترچکا ہے کہ انھیں کچھ سنائی نہیں  دے رہا بلکہ امریکی شعبہ قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے اسرائیل کی بری مہم کیلئے مکمل تعاون کا عزم اور کامیابی کیلئے نیک تمناوں کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے واشنگٹن میں آسٹریلوی وزیراعظم کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا 'غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں مجھے یقین نہیں ہے کہ فلسطینی سچ بول رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ (غزہ میں) بے گناہ مارے گئے ہیں اور یہ جنگ چھیڑنے کی قیمت ہے'

بری حملے کا اعلان اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو  المعروف بی بی نے کیا۔ قومی یکجہتی کیلئے انکی اخباری کانفرنس میں حزب اختلاف کے رہنما اور اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز (Benny Gantz)بھی موجود تھے۔اس موقع پر وزیردفاع یاوو گیلینٹ (Yoav Gallant) نے تکبر سے چور لہجے میں کہا 'ہم نے سرزمینِ غزہ پر لرزہ طاری کردیا ہے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بی بی نے کہا کہ ہم حماس کیخلاف نہیں بلکہ وحشت و بربریت کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں جس سے جدید تہذیب کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ انھوں نے حماس کے خلاف جنگ کو  'جنگ آزادی' سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ بری جنگ طویل، تکلیف دہ اور مشکل ہوسکتی ہے۔ یہ جنگ ہم یقیناً جیتں گے لیکن  قوم کو قربانی کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

بری حملے کے  48گھنٹے مکمل ہونے پر معروف عسکری تجزیہ نگار زوران کوسووچ (Zoran Kosovac)  نے کہا Israel’s ground attacks yield lots of bang, little success یعنی 'اسرائیلی زمینی حملہ: دھماکہ زوردار لیکن کامیابی کا نام و نشان نہیں'  حوالہ: الجزیرہ

حملوں کے آغاز ہی سے جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اسے اگر بی بی کے اعلان کردہ 'جنگ آزادی' کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ  فلسطین کے مکمل خاتمے کا منصوبہ نظر آرہا ہے۔ 1948 میں اسرائیلی  ریاست کے قیام کے بعد سے فلسطین، اقوام متحدہ کی قرادادوں اور پناہ گزیں کیمپوں تک محدود ہے لیکن  اسرائیلی قیادت اس  رسمی اور نامی حیثیت کو بھی ختم کردینے پرتُلی نظر آرہی ہے۔

7اکتوبر کو فضائی حملے کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوبی سمت  نقل مکانی کیلئے اسرائیلی وزیردفاع نے اقوام متحدہ کو دودن کی مہلت دی تھی لیکن ہل غزہ نے یہ حکم ماننے سے صاف انکار کردیا۔ شمالی غزہ کی ایک زخمی خاتون ام  محتشم  العلامی نے امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا'  میرے پاس کھونے کیلئے اب جان کے سوا کچھ نہیں بچا۔ ہم ایک انچ اِدھر اُدھر نہیں جائینگے۔اگر ہمارے سارے مرد مارے گئے تو ہم عورتیں لڑ ینگی ۔ میں زخمی ہوں لیکن خوفزدہ نہیں۔ اگر کچھ نہ رہا تو ہم اپنے ناخن چبھوکر دشمن کو مار بھگائینگے'۔

 اسرائیل کی خواہش ہے کہ جنوب کی جانب دھکیلتے ہوئے تمام کی تمام فلسطینی آبادی کو مصر کے زیرانتظام صحرائے سینائی کی طرف ہنکا دیا جائے۔ برما میں کچھ ایسا ہی ہوا تھاکہ قتل عام کے بعد جو سخت اراکان زندہ رہ گئے انھیں رگیدکر  بنگلہ د یش پہنچادیا گیا۔

غزہ والوں  کی جنوب کی جانب منتقلی کے خلاف شدید مزاحمت کا ایک تاریخی پس منظر ہے۔ النکبہ یا قومی سانحہ نامی یہ ڈکیتئ اتنی مشہور ہے کہ اہلِ غزہ ہرسال 15 مئی کو 'ذکری النکبہ' (آفت کی یاد) مناتے ہیں۔ اس عظیم سانحے پر چند سطور سے قارئین کو یہ معاملہ سمجھنے میں مدد ملے گی۔ظلم عظیم کی داستان پرانی ہے۔ اختصار کیلئے ہم یہ ذکر ارض مقدس پر تاج برطانیہ کے دورِ نامسعود سے شروع کرتے ہیں۔ 

انتیس (29) ستمبر 1947کو اقوام متحدہ نے فلسطین پر تاجِ برطانیہ کے قبضے کو ملکیتی حقوق عطاکردئے۔ جسکے بعد برطانیہ نے دوقومی نظرئے کے مطابق فلسطین کو عرب اور یہودی علاقوں میں بانٹ دیا۔تقسیم میں ویسا ہی 'انصاف' کیا گیا جو تاجِ  برطانیہ کا طرہ امتیاز ہے۔یعنی آبادی کے لحاظ سے 32 فیصد یہودیوں کو فلسطین کا 56 فیصد علاقہ بخش دیا گیا جس پر اسرائیلی ریاست قائم ہوئی۔ فلسطینیوں کو اپنی ہی ر یاست کی  42 فیصد زمین عطا ہوئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت سارا بیت المقدس مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumقرارپایا۔ نوزائیدہ اسرائیلی ریاست کے یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عرب آبادی 4لاکھ 38ہزار تھی، دوسری طرف فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔ ایک لاکھ آبادی والے بیت المقدس میں مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی تعداد تقریباً برابر تھی۔

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی اسرائیلیوں نے جشن آزادی کے جلوس نکالے اور ان مسلح مظاہرین نے عرب علاقوں پر حملے کئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں تقسیم پر عملدرآمد اور اسکے بعد اسرائیل و فلسطین کے درمیان امن قائم رکھنے کی ذمہ داری برطانیہ پر عائد کی گئی تھی۔  یہ ذمہ داری برطانیہ نے کچھ اسطرح اداکی کہ فلسطینی آبادیوں کے گرد فوجی چوکیاں قائم کرکے انھیں محصور کردیا جبکہ اسرائیلی دہشت گرد برطانوی چوکیوں کی آڑ لے کر بہت اطمینان سے فلسطینی بستیوں کو نشانہ بناتے رہے۔ ان حملوں میں ہرہفتے 100 کے قریب افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قراردادکے مطابق برطانوی فوج کو مئی 1948تک علاقے کی نگرانی کرنی تھی لیکن برطانوی فوجیوں نے مارچ سے ہی اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کردیا۔ عرب حلقوں کئ مطابق، جاتے ہوئے برطانوی فوج  نے اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیاتھا۔

عربوں کے شبہے کو اس بات سے تقویت ملتی ہے کہ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج یروشلم میں داخل ہوگئی حالانکہ معاہدے کے تحت مشترکہ اثاثہ ہونے کی بنا پر بیت المقدس میں فوج تو دور کی بات کسی شخص کو چھری بھی لے کر جانے کی اجازت نہ تھی۔ فلسطینیوں نے بیت المقدس میں مسلح اسرائیلیوں کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن جدید اسلحے سے لیس اسرائیلیوں نے اس مزاحمت کو کچل دیا۔ تصادم میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے جن میں انکے کمانڈر اور مفتی اعظم فلسطین امین الدین حسینی کے بھتیجے عبدالقادر حسینی شامل تھے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا لیکن برطانیہ کی واپسی کے ساتھ ہی یہودی رہنماڈیوڈ بن گوریان نے Eretz Yisrael(ارضِ اسرائیل یا ریاست اسرائیل) کے نام سے ایک ملک کے قیام کا اعلان کردیا جسے امریکہ اور روس نے فوری طور پر تسلیم کرلیا۔اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

ریاست کے اعلان سے فلسطینیوں میں شدید اشتعال پھیلا اور جگہ جگہ خونریز تصادم ہوئے۔ اس دوران جدید اسلحے سے لیس اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کو بھون کر رکھدیا۔مظاہروں کو کچل دینے کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیااور 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل دیا گیااور وہ بھی اسطرح کے بحرروم کی ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا۔ گویا کھلی چھت (Open Air) کے اس  عظیم الشان جیل خانے میں  12 لاکھ فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔ اس وقت غزہ پر  مصر کی عملداری تھی۔

قبضے کی اس مہم میں فلسطینیوں  سےمجموعی طور پر 2000 ہیکٹرز Hectaresاراضی  چھینی گئی۔ ایک ہیکٹر 10000 مربع میٹر کے برابر ہے یعنی 2 کروڑ مربع میٹر۔ فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔فلسطینیوں کی انکے گھروں سے جبری بے دخلی کے بعد 1967 اور 1973کی عرب اسرائیل جنگوں میں اسرائیل نے  مزید عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا۔

ارضِ فلسطیں سے عربوں کو اردن،  مصر ، شام اور لبنان کی جانب دھکیلنا ہی اسرائیلی جدوجہد آزادی کا ہدف تھا۔ اب 7 اکتوبر کو فضائی حملوں  کے آغاز پر شہری آبادی کی جنوب منتقلی پر اصرار اور غزہ میں ٹینک داخل کرتے وقت  اس وحشت کی جدوجہدِ آزادی سے تشبیہ کے بعد اہل غزہ کو یقین ہوگیا ہے کہ موجودہ جنگی کاروائی  نکبہ دوم کا نقطہ آغاز ہے۔

بلاشبہہ اسرائیل اور مغرب کی مشترکہ قوت قاہرہ کا مقابلہ  نہتے فلسطینیوں کے بس کی بات نہیں لگتی لیکن اہل غزہ کے حوصلے اب تک بلند نظر آرہے ہیں۔ ایک خاتون کا ذکر ہم نے اوپر کیا۔ ایک ہفتہ پہلے غزہ سے ایک بصری تراشہ جاری ہوا جس میں آٹھ نو سال کی بچیاں ایک دوسرے کے  ہاتھ اور پیروں پر انمٹ سیاہی سے انکے نام لکھ رہے تھیں، جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا جارہا ہے تو ایک دس سالہ لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا 'تاکہ بمباری کے بعد ملبے سے بازیاب ہونے والے  ہمارے جسم کے ٹکروں کی  شناخت ہوسکے' یہ منظر دیکھ کر آنکھ بھر آنی چاہئے تھی لیکن کسی اور کا کیا ذکر ، خود ہماری آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نہ ٹپکا کہ ہم بھی اسی بے حس  مسلم بے برادری کا حصہ ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 نومبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 3 نومبر 2023

روزنامہ امت کراچی 3 نومبر 2023

ہفت روزہ رہبر 5 نومبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment