فوجی انخلا عملاً مکمل ۔۔ بگرام خالی کردیا گیا
امریکی فوج نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کردیا، یا یوں کہئے کہ واشنگٹن نے آشیانہ چمنِ افغاں سے اٹھالیا۔ ہم نے جان کر بلبل کے بجائے واشنگٹن لکھا ہے کہ بلبل محبت و الفت کا استعارہ ہے، اسکے پیار بھرے نغمے باغ وچمن کی رونق کو لازوال بنادیتے ہیں جبکہ بگرام کا امریکی اڈہ اہلِ افغانستان کیلئے قبضے اور دہشت کی علامت تھا۔ اسکے احاطے میں قائم عقوبت گاہ سے مظلوموں کی جو چیخیں بلند ہوتی تھیں، انسانی ضمیر اسکی گونج آج بھی محسوس کررہاہے۔ بگرام کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتاہے۔تین سو سال قبل مسیح آباد ہونے والا یہ شہر گندھارا تہذیب کا مسکن تھا۔ دارالحکومت کابل سے 25 کلومیٹر شمال میں واقع بگرام اب صوبہ پروان کے دارالحکومت چاریکار کا مضافاتی علاقہ اور درہِ پنجشیر کا دہانہ ہے۔ ڈیڑھ سو کلومیٹر طویل وادی پنجشیر جفاکش و دلاورافغان تاجکوں کا علاقہ ہے۔
پنج شیر، 42سال گزرنے جانیکے بعد بھی روسی افواج کے دل و دماغ پر ایک خوفناک خواب کی صورت سوار ہے کہ 1979کے حملے کے بعد سوویت یونین نے ایٹم بم کے سوا اپنے ترکش کا ہر تیر اور تشدد کا ہر حربہ استعمال کرلیا لیکن روسی، پنجشیر فتح کرکے کمک کا راستہ نہ ہموار کرسکے۔ اس زمانے میں وسط ایشیا سوویت یونین کا حصہ تھا۔ماسکو شمالی افغانستان پر قبضہ کرکے سوویت یونین سے زمینی رابطہ بحال کرنا چاہتا تھا۔اسی بنا پر حملے کے بعد روس نے بگرام اڈے کو اپنا مرکز بنایا۔سوویت یونین نے 1950 میں بگرام کا ہوئی اڈہ تعمیر کیا تھا جسے 1980 میں وسعت دی گئی۔
اکتوبر 2001میں حملے کے بعد نیٹو نے اس اڈے کو اپنے ہاتھ میں لیا اور جلد ہی اسکا شمار دنیا کے چند بہت بڑے اڈوں میں ہونے لگا۔یہاں تعمیر کی جانیوالی بیرکوں میں 10 ہزار فوجیوں کے قیام کی گنجائش ہے۔ نو کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے خرچ سے 12ہزار فٹ طویل رن وے تعمیر کیا گیا جس پردیوہیکل مال بردارجہاز اور B52سمیت خوفناک بمبار اتر سکتے ہیں۔اس اڈے پر 110 طیارے کھڑے کئے جاسکتے ہیں جنکی حفاظت کیلئے سیسہ پلائی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔
یہ محض فوجی اڈہ نہیں بلکہ یہ صدیوں پرانے چاریکار شہر کے بطن میں 30 مربع میل رقبے پر محیط ایک جدید ترین شہر ہے، جہاں چند روز پہلے تک تیز رفتار انٹرنیٹ، سیٹلائٹ فون سمیت وہ سہولتیں موجود تھیں جو بہت سے متمول امریکیوں کو اپنے ملک میں حاصل نہیں ۔جدید ترین آپریشن تھیٹر سے آراستہ پچاس بستروں پرمشتمل اسپتال میں دانتوں کا شعبہ بھی تھا جہاں عام علاج کے علاوہ مصنوعی دانت لگانے کے سہولت موجود تھی۔ شطرنج اور دوسرے board gamesکیلئے خصوصی کمروں کیساتھ باسکٹ بال کورٹ اور کسرت کدہ تعمیر کیا گیا تھا۔ آرائشِ گیسو، مساج کدے، میخانے، رقص گاہ اور سنیما گھر سمیت فوجی جوانوں کو عشرت کے تمام اسباب مہیا گئے تھے۔ امریکہ کی مشہور زمانہ Starbucksکافی کیساتھ پیزاہٹ، برگر کنگ اور لوزیانہ کی مشہور Popeyes Chickenنے بھی اپنی دوکانیں سجائی ہوئی تھیں۔
اسی کیساتھ بگرام کے ایک حصے میں وہ قید خانہ بھی ہے، جسکی سرگرمیوں کے بارے میں جب ایک رپورٹ امریکی سینیٹ میں پیش کی گئی تو کیلی فورنیا کی سینیٹر محترمہ ڈائن فینسٹائن اجلاس سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں کہ انکے لئے اسے سننا ممکن نہیں۔ باہر آکرآنسو پونچھتے ہوئے انھوں نے حیرت سے پوچھا 'کیا یہ سب کچھ ہماری سی آئی اے کرتی تھی؟؟'۔ یہاں تشدد کیلئے مصری فوج کے جلاد بلائے گئے تھے۔
بگرام جیل، افغان شہریوں کے لئے اب بھی خوف کی علامت ہے، ایک ضعیف افغان شہری نے امریکی صحافی کو بتایا کہ والدین اپنے روتے ہوئے بچوں کو اس جیل کا نام لے کر ڈراتے ہیں۔ امریکی حملے کے ابتدائی دس سالوں تک پاکستان اور افغانستان سے شہریوں کا لاپتہ ہوجانا عام تھا اور انکا سراغ بگرام کی کسی کوٹھری ہی سے ملتا تھا۔ ایک سیاسی کارکن نے اس جیل میں چھ سال گزارے ہیں۔اس نے VOA سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ بگرام کانام سنتے ہی میرے کانوں میں درد بھری چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ امریکی سی آئی نے فلپائن، تھائی لینڈ اور مشرقی ایشیائی ممالک میں کئی جگہ عقوبت کدے بنارکھے ہیں جنھیں کوچہ سیاہ یا dark sitesکہا جاتا ہے لیکن نائن الیون کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد پر تشدد کیلئے کیوبا کے جزیرے گوانتانامو بے، عراق میں ابوغریب جیل اور بگرام میں خصوصی مرکز قائم کئے گئے۔اِسوقت بھی کئی ہزار قیدی بگرام میں بند ہیں۔
گزشتہ ماہ جب نیٹو افواج نے انخلا شروع کیا تو افغانستان بھر میں پھیلے اڈوں کو تالہ لگاکر تمام سپاہی بگرام منتقل کردئے گئے۔ ہلکے ہتھیار افغان فوج کوعطاہوئے اور بھاری سامان امریکہ و یورپ منتقلی کیلئے بگرام لایا گیا۔ امریکی فوج کی مرکزی کمان کے ایک ترجمان کے مطابق یہاں موجود اسلحہ C-17 المعروف گلوبل ماسٹر طیاروں کی 763 پروازوں کے ذریعے منتقل کیا گیا۔ ان طیاروں کی باربرداری گنجائش 77500 کلوگرام ہے۔ عینی شاہدین نے اڈے سے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں نے حساس نوعیت کا ناقابل استعمال اسلحہ تلف کردیا۔
امریکیوں کے سوا نیٹو کے باقی سپاہی جون کے وسط تک افغانستان چھوڑ چکے تھے اور دوجولائی کو امریکی فوجیوں کا انخلا مکمل ہونے پر بگرام کااڈہ کابل سرکار کے حوالے کردیا گیا۔بگرام میں نیٹو کے 650 سپاہی اب بھی موجود ہیں جو افغانستان میں امریکہ اور یورپی ممالک کے سفارتکاروں اور سفارتی تنصیبات کو تحفظ فراہم کرینگے۔پیچھے رہ جانیوالے دستے میں ترک فوجی بھی شامل ہیں جو کابل ائرپورٹ کا حفاظتی انتظام سنبھالیں گے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ سفارت کاروں کے تحفظ کیلئے نیٹو سپاہیوں کی تعیناتی قطر امن معاہدے کے مطابق ہے۔ اب تک اس بندوبست پر طالبان کی جانب سے کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا بلکہ طالبان کے ترجمان نے بگرام اڈہ خالی کردینے کی خبر پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔بتیس برس پہلے 1989 میں اسی اڈے سے روس کی حملہ آور فوجیں واپس گئی تھیں اور اب بگرام کی تنگ و تاریک گلیاں ایک اور عالمی طاقت کی پسپائی کا مشاہدہ کررہی ہیں۔تازہ ترین اطلاع کے مطابق افغانستان میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل اسکاٹ ملر بھی 4 جولائی کو افغانستان سے چلے گئے۔
اس موقع پر بوجھل دل کیساتھ اس بیس سالہ بے مقصد خونریزی کے افسوسناک اعدادوشمار پیش خدمت ہیں۔ امریکہ کے موقر تعلیمی ادارے جامعہ براون کے مطابق جنگ میں 47 ہزار افغان شہری، 70 ہزار افغان سپاہی، ڈھائی ہزار امریکی، اتحادی افواج کے ساڑھے گیارہ سو سپاہی اور چار ہزار کے قریب امریکی فوج سے وابستہ نجی ٹھیکیدار(contractors)مارے گئے۔ افغان شہریوں کی ہلاکت کے جو اعدادو شمار دئے گئے ہیں وہ امریکی فوج کے جاریکردہ اور حقیقت سے کہیں کم ہیں۔ حکمرانوں کا یہ شیطانی شوقِ کشور کشائی امریکہ کے ٹیکس دہندگان کو سوا دوہزار ارب (20 کھرب 260 ارب) ڈالر کا پڑا۔
جمعہ 2 جولائی کو بگرام فوجی اڈہ خالی ہونے کیساتھ ہی واشنگٹن میں یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ 4 جولائی کو امریکہ کےیوم آزادی پر فوجی انخلا مکمل ہونے کا سرکاری اعلان کردیا جائیگا اور ایک صحافی نے صدر بائیڈن سے سوال بھی پوچھ لیا کہ 'کیا افغانستان سے انخلا کا عمل چند دن میں مکمل ہو رہا ہے؟ اس پرامریکی صدر نےسر کے اشارے سے نہیں کہا۔ نامہ نگار نے جب وضاحت کیلئے سوال دہرایا تو امریکی صدرکے چہرے پر ناگواری کے آثار نمایاں ہوئے اور انھوں نے نسبتاً بلند آواز میں کہا ' یقین کریں، ہم اگلے دودنوں میں انخلامکمل کرنے والے نہیں، تاہم تمام سرگرمیاں منصوبے کے عین مطابق ہیں اور امریکہ (11) ستمبر تک انخلا مکمل کر لےگا'
صدر بائیڈن کی گفتگو سے لگتا ہے کہ سرکاری اعلان گیارہ ستمبر تک ہی ہوگا لیکن افغانستان سے غیر ملکی فوج کا انخلا 2 جولائی کو مکمل ہوچکا اور اب سفارتکاروں کے تحفظ کیلئے امریکی و ترک سپاہیوں کے سوا مزید کوئی غیر ملکی فوجی موجود نہیں۔ اسی کیساتھ بھاری اسلحے کی منتقلی بھی مکمل ہوگئی ہے۔ جمعہ کو امریکہ کے محکمہ دفاع کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ(VOA)کو بتایا کہ امریکہ اور بین الاقوامی فورسز نے بگرام کا فوجی اڈہ خالی کردیاہے۔ اسی کے ساتھ کابل میں افغان وزارت خارجہ کے ترجمان فواد امان نے اپنے ٹویٹ میں کہا’ تمام اتحادی اور امریکی افواج بگرام ایئر بیس سے گزشتہ رات یعنی 2 جولائی کو چلی گئی ہیں اور یہ اڈہ افغان فوج کے حوالے کردیا گیا ہے'
عسکری ذرایع کاکہنا ہے کہ امریکی فضائیہ کے کچھ بمبار اور ڈرون کا بیڑہ بگرام میں موجود ہے جسکے لئے ایک علاقہ مخصوص کردیا گیا ہے۔ یہ نہیں معلوم کہ اس اثاثے کی دیکھ بھال افغان فوج کررہی ہے یا اسکے لئے امریکی ماہرین اب بھی موجود ہیں۔ اس سے پہلے کہا جارہا تھا کہ بگرام سے اڑنے والے ڈرون کو گوادر کے قریب بحر عرب میں تعینات امریکی بحریہ کے طیارہ بردار جہاز آئزن ہاور سے کنٹرول کیا جائیگا یا اس مقصد کیلئے برطانوی بحریہ کا الدّقم (عُمان) اڈہ استعمال ہوگا۔ اس ضمن میں بحرین اور مشرقی ازبکستان کے قرشی خان آباد المعروف کے ٹو اڈے کا نام بھی لیا جارہا تھا۔ کے ٹو کیلئےگزشتہ ہفتے وزیرخارجہ ٹونی بلیکن نے امریکہ کے دورے پر آئے اپنے ازبک ہم منصب سے بات بھی کی لیکن کہا جارہا ہے کہ ازبکستان نے معذرت کرلی ہے۔
دوسری طرف افغانستان کیلئے روسی صدر کے خصوصی نمائندے ضمیر کابولوف نے علاقے میں امریکی اڈوں کے قیام کی شدید مخالفت کی ہے۔ روسی خبررساں ایجنسی RIAسے باتیں کرتے ہوئے روسی سفارتکار نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کو امریکی اڈوں کی دوسرے ملکوں کو منتقلی میں تبدیل کردینا مناسب نہیں۔ انھوں نے افغانستاں میں وسیع البنیاد حکومت کی حمائت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں روس علاقے کے دوسرے ملکوں کیساتھ مل کر کام کررہا ہے لیکن ایک بات بہت واضح ہے کہ بیرونی مداخلت اور طاقت کا استعمال اس مسئلے کا حل نہیں اور ساری دنیا کو افغانوں کی خودمختاری کا احترام کرنا چاہئے۔
بگرام کا انتظام اب کابل سرکار کے پاس ہے۔ طالبان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکیوں کاچھوڑاہوا اسلحہ طالبان کے خلاف استعمال ہوگا چنانچہ یہ اڈہ اب طالبان کا ترجیحی ہدف ہے۔بگرام کے شمال مشرق میں کپیسا کے دارالحکومت محمود راقی سمیت صوبے کے کئی علاقے طالبان کے دباومیں ہیں۔محمود راقی بگرام سے چند کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ اڈے کے جنوب مشرق میں کوہ صافی کے بڑے علاقے پر طالبان کا قبضہ ہے تو جنوب مغرب میں کابل سے بھی شدیدلڑائی کی خبریں آرہی ہیں۔ طالبان نے سارے افغانستان میں سرکاری فوج کو الجھایا ہوا ہے،ا سلئے کابل کیلئے بگرام کی جانب کمک بھیجنا بہت مشکل ہے۔
دوسری طرف ڈاکٹر اشرف غنی کیلئے سقوطِ بگرام کسی طور قابل قبول نہیں کہ اسکے بعد کابل کا دفاع ناممکن ہوجائیگا۔ امریکہ بھی بگرام کو طالبان کے آگے سرنگوں نہیں ہونے دیگا۔ سرکاری فوج اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد تو شائد واشنگٹن کوبگرام پر ملاوں کے قبضے پر اعتراض نہ ہو لیکن انخلا کے ساتھ ہی اس اہم عصبی مرکز پر طالبان کا قبضہ کابل سرکار تو ایک طرف، امریکہ اور نیٹو کو بھی بے دست وپا کردیگا۔
واشنگٹن کو حالات کی نزاکت کا پورااحساس ہے۔ طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے چچا سام کیا کرسکتے ہیں؟؟؟ اسرائیل اور امریکہ، عسکری ہدف کے حصول کیلئے فضائی قوت کے وحشیانہ و بیرحم استعمال پر یقین رکھتے ہیں۔ امریکی صدرکا کلیدی ہتھیار ڈرون ہے اور ڈر ہے کہ 'جوبائیڈرون' طالبان کی پیشقدمی روکنے کیلئے اوباما دور کی یاد تازہ کردینگے
ڈرون کے آسرے پر جہاں کابل انتظامیہ کے باز صفت اہلکار شعلے اگل رہے ہیں وہیں افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ امن کے بارے میں اب بھی پُرامید ہیں۔ بگرام سے نیٹو کے انخلا پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نےکہا 'یہ درست کہ لڑائی کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن دوحہ (قطر) میں اسوقت بھی کابل حکومت اور طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں'
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 9 جولائی 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 9 جولائی 2021
روزنامہ امت کراچی 9 جولائی 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 11 جولائی
2021
No comments:
Post a Comment