Thursday, July 22, 2021

ڈاکٹر اشرف غنی، قطر مذاکرات ناکام بنانے کیلئے پرعزم

طویل   تعطل کے بعد قطر امن مذاکرات  دوبارہ شروع ہوگئے۔ فروری 2000میں ہونے والے طالبان امریکہ عزمِ امن معاہدے یا  Agreement for Bringing Peace in Afghanistanمیں یہ طئے  کیا گیا تھا کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ مختلف دھڑوں کے درمیان  وسیع البنیاد بات چیت سے کیا جائیگا۔

اس سلسلے میں افغان حکومت  نے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد تشکیل دیا۔دوسری جانب  طالبان  کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی سربراہی میں ملاوں کا وفد سامنے آیا۔طالبان کے وفد میں ملا عبدالسلام ضعیف بھی شامل ہیں جو سقوطِ کابل کے وقت پاکستان میں افغانستا ن کے سفیر تھے۔ ملا ضعیف اورملا برادر کو پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے  مختلف  اوقات میں گرفتار کیا تھا۔ بدترین تشدد کے بعد ملاضعیف پشاور میں امریکہ کے حوالے کئے گئے جسکے بعد انھیں مزید تشدد کیلئے گونتانامو کے عقوبت کدے بھیجدیا گیا جبکہ ملا برادر کو سی آئی اے اور پاکستانی خفیہ ایجنسی کی مشترکہ ٹیم نے کئی سال بدترین تشددکا نشانہ بنایا۔

قطر مذاکرات کا آغاز گزشتہ سال  12 ستمبر کو ہوا لیکن چھ ماہ گزرنے کے باوجود اب تک مذاکرات کے ایجنڈے پر بھی اتفاق نہیں ہوسکاہے۔  بنیادی اختلاف دونوں فریقوں کی حیثیت پر ہے۔

  • کابل انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ افغان عوام کے منتخب نمائندے ہیں جنکے خلاف طالبان نے ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ حکومتی وفد چاہتا ہے کہ اپنے مطالبات پیش کرنے سےپہلے طالبان ہتھیار رکھدیں۔کابل انتطامیہ نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ملاوں کا موقف  کھلے دل سے  سنے گی اور ایک باوقار معاہدے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔
  • دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے کہ 2001میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اسوقت امارات اسلامی افغانستان پر طالبان کی حکو مت تھی۔ امارات نے غیر ملکی جارحیت کیخلاف مادر وطن کا کامیابی سے دفاع کیا جبکہ کابل انتظامیہ وہ کٹھ پتلی ہے جسے حملہ آوروں نے غداری کے انعام میں کابل کا تخت عطا کیا۔طالبان اس غداری کو دل سے معاف کرنے کو تیار ہیں اور انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ غیر ملکی فوج کی واپسی کے بعد نئی انتطامیہ تشکیل دیتے وقت افغان حکومت سمیت ملک کی تمام سیاسی، لسانی اور مذہبی اکائیوں کو مناسب نمائندگی دی جائیگی۔
  • ایک اورنکتہ افغانستان کا آئین ہے۔ افغان حکومت کا اصرار ہے کہ بات چیت اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کے مطابق ہوگی اور نئے بندوبست میں آئین کے تحفظ کو یقینی بنایاجائے۔ طالبان  موجودہ دستور منسوخ کرکے  قرآن و سنت کی روشنی میں ایک نیا آئین ترتیب دیناچاہتے ہیں۔

مذاکرات کے حوالے سے طالبان کو ایک بڑی شکائت کابل وفد کی ہئیت پر تھی جسکی قیادت اس سے پہلے  افغان خفیہ ادارے 'خاد' کے  سابق سربراہ  معصوم  تناکزئی کررہے  تھے جو  ملاوں کے خیال میں بااختیار نہیں۔ اسی بنا پر پئے درپئے نشستوں کا کوئی فائدہ نہ ہوا، تاہم مثبت بات یہ ہے کہ دونوں فریق گزشتہ آٹھ مہینوں سے بات چیت جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ اس دوران اسلام آباد، ماسکو، تہران اور بیجنگ میں بھی بات چیت ہوئی

گزشتہ ہفتے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے طالبان سے مذاکرات کیلئے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی قیادت میں ایک   اعلیٰ سطحی وفد تشکیل  دیا جس  میں حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمتیار، حزب  کے دوسرے دھڑے کے سربراہ استاد عطامحمد نور، ماہر امور شرعیہ مولوی عنائت اللہ بالغ، شیعہ حزب وحدت کے سربراہ  یونس  قانونی،  شیعہ رہنما استاد محقق،  جنرل عبدالرشید دوستم، وزیرمملکت سلام رحیمی، وزیر مملکت سید سعادت منصورنادری، محترمہ فاطمہ گیلانی اور سابق نائب  صدر کریم خلیلی شامل تھے۔جمعہ 16جولائی کوحامد کرزئی نے جس وفد کو کابل سے قطر کیلئے رخصت کیا اس میں گلبدین حکمتیار شامل نہیں تھے جبکہ علالت کی وجہ سے رشید دوستم ترکی میں زیرعلاج ہیں۔

اعلی سطحی اجلاس سے ایک دن پہلے کابل میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے  افغان حکومت کے ترجمان نادرنادری نے  کہا کہ  طالبان نے عیدالاضحٰی سے تین ماہ کیلئے جنگ بندی کی پیشکش کی ہے۔ تاہم ملاوں نے اسکے لئے اپنے 7000 قیدیوں کی رہائی اور طالبان قائدین کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گرد فہرست سے نکالنے کی شرط عائد کی ہے۔

ہفتے کو قطر میں مذاکرات کا پہلا دور شروع ہوا جس میں کابل سے آنے والے وفد کے علاوہ قطر میں پہلے سے موجود  معصوم تناکزئی شریک ہوئے اور عبدالرشید دوستم  کی  نمائندگی انکے صاحبزادے   باتور دوستم نے کی۔

ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بات چیت کے آغاز میں کہا کہ  ملک  کے طول و عرض میں چھڑی جنگ کا ایندھن معصوم  افغان عوام بن رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ  جنگ سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا اور افغان تنازعے کا بھی کوئی عسکری حل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ  مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے فوری جنگ بندی اور دونوں جانب سے لچک اور نرمی ضروری ہے۔  

 جواب میں ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کے باوجود بات چیت پر دونوں فریق کا غیر متزلزل عزم بےحد خوش  آئند ہے۔ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اور قومی وحدت  کیلئے جدوجہد جاری رہنی چاہئے۔ افغانستان کی خوشحالی اور استحکام کیلئے اسلامی نظام  ضروری ہے جسکا قیام اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنے ذاتی منفعت و مفادات کو پس پشت ڈالدیں۔ابتدائی گفتگو کے بعد افتتاحی اجلاس ختم ہوگیا

اتوار کی شام جب دوبارہ نشست جمی تو طالبان نے ایک دن پہلے کابل سے جاری ہونے والے اشتعال انگیز بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ اپنے بیان میں افغان صدر کے ترجمان محمد امیری نے کہا تھا' ہمیں امید ہے کہ بات چیت کے نتیجے میں طالبان افغان عوام کا قتل عام روک کر امن کی راہ اختیار کرینگے'۔ ملاوں کا موقف تھا کہ اس قسم کی زبان اور  الزام تراشی سے اعتماد کی بحالی متاثر ہوگی۔ طالبان وفد کے قائد نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ افغان ملت اپنے لہو سے غسل کررہی ہے اور یہ وقت باہمی شکوے شکائت کا نہیں۔

دوسرے اجلاس میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ملا عبدالغنی برادر کے زیرقیادت دونوں جانب سے سات سات افراد کے ساتھ قطری حکومت کے تین مبصرین و شاہدین بھی نشست میں موجود تھے۔افتتاحی کلمات کے بعد طالبان نے اپنے سات ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی اور طالبان قائدین کے نام اقوام متحدہ کی دہشت گرد فہرست سے نکالنے کے نکات رکھے جبکہ کابل سرکار کا اصرار فوری جنگ بندی پر تھا۔ اجلاس کے اختتام پر سرکاری وفد کے ترجمان فریدون خورزمی نے کہا کہ بات چیت خوش گوار ماحول میں ہوئی اور امن کی کوشش تیز کرنے پر دونوں فریق میں مکمل اتفاق پایا گیا۔ اجلاس میں طالبان کے امیر ملا ہبت اللہ کے عید پیغام کا خیر مقدم کیا گیا جس میں ملا صاحب نے افغانستان کو بحران سے نکالنے کیلئے سیاسی تصفیہ ضروری قرار دیاہے۔  

اتوار کے اجلاس میں طالبان نے قیدیوں کی رہائی اوردہشت گرد فہرست سے نام نکالنے کی بات اٹھاکر افغان حکومت کے ترجمان نادر نادری کے اس انکشاف کی تصدیق کردی کہ بات چیت کو معنی خیز بنانے کیلئے افغان مُلّا تین ماہ کی عبوری جنگ کیلئے تیار ہیں۔اس پیشکش سے غنی سرکار دباو میں آگئی ہے۔ افغانستان کے سیاسی رہنما خاص طورسے سابق صدر حامد کرزئی، حزب کے سربراہ حکمتیار اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے خیال میں 90 دن کی جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی سےاعتماد کی بحالی میں مدد ملے گی اور قطر مذاکرات کا ماحول خوشگوار ہوجائیگا لیکن صدر اشرف غنی کو خوف ہے کہ رہائی سے طالبان کو مزید 7000 تجربہ جنگجو مل جائینگے جس سے میدان میں طاقت کا توازن اور خراب ہوگا۔ دہشت گردوں کی فہرست سے طالبان قیادت کا نام نکالنے کیلئے امریکہ کی حمائت درکار ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ برطانیہ ان شرائط کو تسلیم کرنے پر زور دے رہا ہے تاکہ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جاسکے۔زلمے خلیل زاد بھی جنگ بندی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانے کے حق میں ہیں۔

قطر میں اعلٰی سطحی مذاکرات سے امید کا دیاروشن ہوا ہے لیکن اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کی آندھی اسے بجھانے کیلئے پرعزم نظر آرہی ہے۔افغانستان کے نائب صدر امر اللہ صالح کے ایک ٹویٹ کے مطابق پاکستانی فضائیہ نے دھمکی دی ہے کہ اسپن بولدک (صوبہ قندھار) کو طالبان کے قبضے سے چھڑانے کی کسی بھی کوشش کو پاکستانی طیاروں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا۔انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں پاک فضائیہ طالبان کو فضائی کمک (air support)فراہم کررہی ہے۔اپنے ایک دوسرے ٹویٹ میں صالح صاحب نے کہا کہ افغان وزارت دفاع اس سلسلے میں ثبوت فراہم کریگی ۔انکا کہنا ہےکہ طالبان کے ٹھکانوں کی جانب محو پرواز افغان فضائیہ کے طیاروں کو پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں میزائیلوں سے نشانہ بنانے کی تنبیہ کی جارہی ہے۔

ادھر چند دنوں سے امریکہ میں طالبان کے خلاف فضائی کاروائی کے حق میں مہم تیز ہوگئی ہے۔پاکستانی نسل پرست، امریکہ کے جنگجو قدامت پسندوں کیساتھ مل کر تحریک چلارہے ہیں کہ ملاوں کی پیشقدمی روکنے کیلئے فضائی قوت استعمال کی جائے۔ سابق امریکی صدرجارج بش نے جرمن ذرایع ابلاغ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے غیرملکی فوج کا انخلا غلطی ہے۔جس سے افغان خواتین کو ناقابل بیان نقصان اٹھانا پڑےگا۔انکا کہنا تھا کہ فوج واپس بلا کر افغان عوام کو ان ظالم لوگوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیاگیاہے۔

ڈاکٹر اشرف غنی ہندوستان سے بھی عسکری مداخلت کی درخواست کررہے ہیں۔ دوروز قبل ہندوستان میں کابل سرکارکے سفیر فرید مومند زئی نے NDTVسے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہونے پر صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو ہندوستان سے عسکری مدد کی درخواست کی جائیگی۔ ہندوستان کی مالی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اخراجات کی ادائیگی کوئی مسئلہ نہیں کہ امریکہ نے 2030 تک کابل سرکار کی مدد کیلئے ساڑھے چار ارب ڈالر سالانہ مختص کردئے ہیں۔فاضل سفیر کاکہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد ہندوستان نے بہت ہی فراخدلی سے افغانستان کی مدد کی ہے جسکی وجہ سے دہشت گرد ہندوستان کے بھی دشمن ہیں۔ جناب مومندزئی نے پرعزم لہجے میں کہا کہ بہادر افغان افواج اپنے ملک کا کامیابی سے دفاع کررہی ہیں لیکن اگر ضرورت پڑی تو یقین ہے کہ دِلّی ہمیں مایوس نہیں کریگا۔

جناب مومندزئی کے انٹرویو پر ہندوستانی حکومت کا کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اقوام متحدہ میں ہند کے سابق سفیر سید اکبرالدین نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو اپنی سرحدوں پر کشیدگی کا سامنا ہے چنانچہ فوجی دستے افغانستان بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی نشست میں ہندوستان کے ممتاز دفاعی تجزیہ نگار راہول بیدی  بھی موجود تھے جنھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی کارکردگی کبھی بھی اچھی نہیں رہی اور بھاری جانی و مالی نقصان اٹھاکر وہاں سے پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے اسلئے 'دِلی خواہش' کے باوجود وزیراعظم مودی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ دہلی نے طالبان  سے بات چیت میں دلچسپی ظاہرکی ہے اور رابطہ استوار کرنے کی ذمہ داری سید اکبرالدین کو سونپی گئی ہے۔ اکبرالدین صاحب کو اردو اور عربی کے ساتھ فارسی پر مکمل عبور ہے اور وہ اس سے پہلے بھی طالبان سے علیک سلیک کرچکے ہیں۔

امن بات چیت کی متوازی بلکہ مخالف سرگرمیوں کی بناپر ماہرین قطر مذاکرات کے بارے میں بہت زیادہ امید نہیں۔ امن کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں۔اسلام آباد سے افغان سفیر کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کے مبینہ اغوا نے خاصی بدمزگی پیدا کردی ہے۔اس واردات سے جہاں کابل انتظامیہ اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات مزید تلخ ہوگئے وہیں اسکی بازگشت قطر میں بھی سنائی دے رہی ہے۔

حسب توقع سلسلہ علی خیل  کے مبینہ اغوا کے خلاف کابل میں اتوارکو پاکستانی سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔ ابلاغ عامہ کے غیر جانبدار ذرایع کے مطابق مظاہرے میں صرف چند درجن افراد موجود تھے جنکی اکثریت خواتین حقوق کی کارکنوں اور سرکاری اہلکاروں پر مشتمل تھی۔ مظاہرے میں افغان فوج کے ترجمان جنرل عمر شنواری اور رکن پارلیمان شنکو کاروخیل بھی شریک ہوئے۔ مظاہرے کے دوران خواتین حقوق کیساتھ طالبان کے خلاف  بھی نعرے لگائے گئے۔

افغان امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ڈاکٹر اشرف غنی کا رویہ ہے۔ طالبان سے امریکہ نے براہ مذکرات کئے اور امریکیوں نے معاہدےتک ڈاکٹرصاحب کو اعتماد میں نہیں لیا۔ امن مذاکرات کیلئے امریکہ کی نگرانی میں جو اعلیٰ اختیاراتی قومی مفاہمتی کمیشن یاNational Reconciliation High Commission تشکیل پایا، اسکی سربراہی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو سونپ دی گئی ہے۔ اس کمیشن کو مالی وسائل فراہم کرکے خودمختار و بااختیار بنادیا گیا ہے چنانچہ امن مذاکرات میں صدر اشرف غنی کا کردار علامتی رہ گیا ہے۔

اب جو اعلی سطحی وفد طالبان سے مذاکرات میں مصروف ہے اس میں بھی کابل سرکار کاکوئی اہم اہلکار شامل نہیں اور ڈاکٹر غنی سیاسی محاذ پر خود کو تنہا اور دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ افغان نائب صدر کی جانب سے اشتعال انگیز بیانات اور علاقی ممالک کو اس تنازعے میں ملوث کرنے کی مہم  امن مشن کو ناکام بنانے کی ایک کوشش ہے۔ افغان وفد کی قطر روانگی کے وقت اشرف غنی نے دھمکی دی تھی کہ طالبان کو تین ماہ کے اندر کچل کر رکھ دیا جائیگا۔

ادھر افغان وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ طالبان نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ریڈیو اسٹیشنوں کا انتطام سنبھال لیاہے اور  اب یہ ریڈیو طالبان کے پروپیگنڈے کیلئے استعمال ہورہے ہیں۔ سرکاری ترجمان کے مطابق، ہیرات کا ریڈیو شین ڈنڈ ریڈیو شریعہ بن گیا ہے۔ بغلان کا ریڈیو پیمان، ریڈیو سمنگان، ریڈیونوبہار بلخ اور ریڈیو قندوز نے اب ریڈیو اماراتِ اسلامی کے نام سے نشریات شروع کردی ہیں۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ ریڈیو اسٹیشنوں پر قبضے سے آزادی صحافت کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے جسکا صحافیوں کی عالمی انجمن کو نوٹس لینا چاہئے۔ جبکہ طالبان کا اصرار ہے شرعی اصولوں کے تحت  اماراتِ اسلامی  آزادیِ اظہارِ رائے کے تحفظ کی پابند ہے۔ طالبان اور کابل وفد کی جانب سے مکالمہ جاری رکھنے کاعزم حوصلہ افزا تو ہے لیکن دھمکی، الزام تراشی اور اشتعال انگیز بیانات کے تناظر میں امن کوششوں کا مستقبل مشکوک و مخدوش نظر آرہا ہے۔

 ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 23 جولائی 2021

ہفت روزہ دعوت دہلی 23 جولائی 2021

روزنامہ امت کراچی 24 جولائی 2021

ہفت روزہ رہبر سرینگر 25 جولائی


2021

 

 

1 comment: