Thursday, July 8, 2021

مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کا 54 واں یومِ وفات

  مادرملت  محترمہ فاطمہ جناح کا  54 واں یومِ وفات

محترمہ فاطمہ جناح 31 جولائی 1893 کو وزیر مینشن (کھارادر) کراچی کے ایک فلیٹ میں پیدا ہوئیں۔ مادر ملت اپنے سات بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی اور اپنے بڑے بھائی یعنی قائداعظم کی لاڈلی تھیں۔ انکے دوسرے بھائیوں کے نام احمد علی، رحمت علی اور بندے علی جبکہ محترمہ شیریں جناح اور مریم جناح انکی بڑی بہنیں ہیں۔ فاطمہ جناح نے جامعہ کلکتہ کے ڈاکٹر رفیع الدین احمد ڈینٹل کالج سے بی ڈی ایس کی ڈگری حاصل کی اور کراچی میں مطب شروع کردیا۔ انکی رہائش قائداعظم کے ساتھ تھی۔ 1918 میں قائداعظم کی شادی کے بعد وہ اپنے فلیٹ منتقل ہوگئیں۔ بد قسمتی سے شادی کے صرف 11 سال بعد ہی قائد کی اہلیہ انتقال کرگئیں جسکا قائداعظم کو شدید صدمہ ہوا۔ اپنے بھائی کی دلجوئی کیلئے فاطمہ جناح نے اپنا مطب بند کردیا اور فلیٹ بیچ کر قائداعظم کے گھر منتقل ہوگئیں۔ اسکے بعد سے اپنے بھائی کی آخری سانس تک وہ انکے ساتھ رہیں۔ تحریک پاکستان میں وہ قائد کا دست و بازو تھیں لیکن قائدکی وفات کے بعد وہ عملاً گوشہ نشین ہوگئیں۔

 1958 میں ایوب خان نے ملک میں مارشل لا لگادیا۔ جسکے بعد جماعت اسلامی خلاف قانون قراردیدی گئی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور نظام اسلام پارٹی کے خلاف اقدامات کا آغاز ہوا۔ مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصر اللہ خاں، بلوچ رہنما اورخان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی ایوبی جبر کا نشانہ بنی۔ ان کاروائیوں کے نتیجے میں ملک سیاسی قبرستان بن گیا۔ مولانا مودودی، نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان اور حزب اختلاف کے دوسرے رہنماوں کی درخواست پر 1960 میں مادرملت نے حزب اختلاف کی قیادت سنبھال لی اور ایوب خان کے آمرانہ اقدامات کے خلاف منظم مزاحمت کا آغاز ہوا۔ اس دوران محترمہ کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال ہوئی۔ستم ظریفی کہ جو لوگ آج خواتین کے حقوق کی باتیں کر رہے وہ اسوقت مادر ملت کے خلاف فتوے جاری کر رہے تھے جبکہ فضل الرحمان کے والِدمفتی محمود مرحوم اور انکی جماعت کے علاوہ  باقی تمام  'ملا' مادر ملت کا دست و بازو تھے۔

اسی دوران 1965 میں صدارتی انتخابات کا اعلان ہوا اور حزب اختلاف نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدر ایوب کے خلاف انتخاب  لڑنے پر راضی کرلیا۔مادر ملت کی جانب سے اس اعلان نے فیلڈ مارشل صاحب کی نیندیں اڑادیں اور انتہائی زہریلی مہم کا آغاز ہوا۔ بلاول میاں کے نانا جناب ذوالفقار بھٹو  نے فرمایا کہ سندھ میں جب کڑک مرغی اذان دینے لگے تو ہم اس کو ذبح کردیتے ہیں۔ یہ دراصل فاطمہ جناح کے غیر شادی شدہ ہونے پر طنز تھا۔ دوسری طرف متحدہ حزب اختلاف نے فاطمہ جناح کے حق میں بھرپور مہم چلائی۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰں۔ پروفیسر غلام اعظم، مولانا فرید احمد شانہ نشانہ تھے تو مغربی پاکستان میں نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا عبدالحامد بدایونی، میاں طفیل محمد، ولی خان، غوث بخش بزنجو، محمودعلی قصوری، کراچی کے محمود اعظم فاروقی اور دوسرے رہنما مادرملت کی انتخابی مہم کیلئےمیدان میں آئے۔

 یہ انتخابات بنیادی جمہوریت یاBDنظام کے تحت ہوئے جس میں کونسلرز کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل تھا۔ انتخابات سے پہلے کارکنوں کی گرفتاری،کونسلروں کو دھمکی اور اغوا کے باوجود مادر ملت انتخابات جیت گئیں لیکن ریڈیو سے ایوب خان کی کامیابی کا اعلان کردیاکیا۔اس جعلسازی کا پورا انتظام بھٹو صاحب کے ہاتھ میں تھا جنھوں نے1977 میں بھی ایسی ہی دھاندھلی کے ذریعے دو تہائی نشتیں حاصل کیں جسکے نتیجے میں قوم کو 10 سال تک فوجی آمریت کا عذاب جھیلنا پڑا۔

ایوب خان کی دھاندھلی سے کامیابی کے بعد کراچی کے عوام کو دہشت زدہ کرنے وفاقی وزیر عمرایوب خان کے والد گرامی گوہر ایوب  غندوں کی فوج کے ساتھ لیاقت آباد پر حملہ اور ہوئے اور درجنوں بے  گناہ لوگ مارے گئے اور کراچی پہلی بار لسانی فسادات کا شکار ہوا۔

اس زمانے کے دولطیفے احباب کی دلچسپی کیلئے۔ لاہور میں کسی جگہ (غالباً سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی کے گھر) فاطمہ جناح، مولانا مودودی، ایوب خان، عبدالولی خان اور دوسرے زعما کھانے پر مدعو تھے۔ ہلکی پھلکی گپ شپ کے دوران ایوب خان نے مولانا مودودی سے پوچھا کہ 'مولانا! علما کا سیاست میں کیا کام اور مذہب کا ریاست سے کیا تعلق ہے؟' مولانا نے جنرل صاحب کی بات غور سے سنی ایک لمحہ توقف کیا اور فرمایا 'فیلڈ مارشل صاحب اس سوال کا جواب تو میں دیدیتا ہوں پہلے یہ فرمائیے کہ جرنیلوں کا حکومت میں کیا کام اور فوج کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔ مولانا کے جواب پر باقی تمام لوگ تو صرف مسکرائے لیکن خان عبدالولی خان نے زوردار قہقہ لگایا اور ایوب  خان کو دیکھتے ہوئےبولے مولانا صیب! میں تو سوچ رہا تھا کہ اس سوال کے جواب میں ہم کو آپ کی تقریر سننی پڑیگی لیکن آپ نے تو ایک ہی جملے میں جرنل صاحب کو خاک چٹادی۔

دوسرا لطیفہ: علما فاطمہ جناح کے حامی تھے لیکن روشن خیالوں نے ایک نیا شوشہ یہ اٹھایا کہ فاطمہ جناح شیعہ ہیں اور یہ علما صرف اقتدار کی خاطر ایک 'بدمذہب' کی حمائت کر رہے ہیں۔ لیاقت آباد میں مشہور شیعہ عالم علامہ ابن حسن جارچوی کے گھر پر علما کا اجلاس تھا جس میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا ظفر انصاری، مولانا مودودی اور ہر مکتبہ فکر کے علما موجود تھے۔ سرکاری اخبار کے ایک صحافی نے طنزیہ سوال کیا کہ فاطمہ جناح تو صدر منتخب ہونے کےبعد فقہ جعفریہ نافذ کردینگی کیا سنیوں کیلئے یہ قابل قبول ہے؟ مولانامودودی  نے ترنت جواب دیا کہ یہ فقہ کافریہ سے بہر حال بہت بہتر ہے۔

عوامی امنگوں کی ترجمان اور آمریت کی خلاف یہ توانا آواز 54سال پہلے 9 جولائی 1967 کو ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔ فاطمہ جناح کی موت اب تک ایک معمہ ہے۔ سرکاری اعلامئے کے مطابق مادرملت کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انھیں قتل کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح مزار قائد کے احاطے میں آسودہ خاک ہیں۔

رہنمائی کی درخواست: میرا خیال ہے کہ مادر ملت کا انتقال 9  جولائی 1967کو ہوا تھا لیکن اس کتبے میں 8جولائی درج ہے. کیا درست ہے؟


 

No comments:

Post a Comment