تیونس ۔۔۔ سیاسی عدم استحکام کا خطرہ
تیونس کی جانب سے پارلیمان کو معطل کرنے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت النہضہ نے احتجاج کی اپیل واپس لینے کا جو فیصلہ کیا تھا اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ شائد یہ سیاسی بحران پرامن طور پر حل ہوجائے۔ لیکن آج فوج نے دوارکانِ پارلیمان کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار کرلیا۔
مشہور بلاگر اور آزادرکن پارلیمان یٰس العیاری پر الزام ہے کہ انھوں نے 26 جولائی کو ایوان صدر پر مظاہرے میں اپنے ساتھیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔ فوجی عدالت کاکہنا کہ موصوف تین سال پہلے بھی فوج پر 'الزام تراشی' کے الزام میں گرفتار کئے گئے تھے لیکن صدر قیس سعید نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر انکی رہائی کا حکم دے دیا تھا جو آج واپس لے لیا گیا
اسی کیساتھ قدامت پسند کرامہ پارٹی کے رکنِ پارلیمینٹ مہر زید بھی دھر لئے گئے۔مہر زید کو 2018 میں سوشل میڈیا پر اسوقت کے صدر باجی قائد السبسی پر تنقید کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جنھیں صدر قیس نے پارلیمانی استثنیٰ دیکر رہا کردیا تھا۔ اب جان زید کا استثنیٰ بھی واپس لے لیا گیا ہے۔
تیونس کے نئے آئین کے تحت فوجی عدالتیں صرف اپنے اہلکاروں کا کورٹ مارشل کرسکتی ہیں لیکن وردی والوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بلڈی سویلین فوج کی توہین یا 'اداروں' کیخلاف زبان درازی کا مرتکب ہو تو فوج اسکی گوش مالی کرسکتی ہے اِلّا یہ کہ وہ صدارتی استثنا کی چھتری تلے آجائے۔
آج ہی ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے ایک بیان میں کہا کہ اشتعال انگیز نعرے لگانے اور عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں النہضہ کے چار رہنماوں کے خلاف نقصِ امن کے پرچے کاٹے جارے ہیں۔ اعلامئے میں ان افراد کے نام بیان نہیں ہوئے لیکن خدشہ ہے کہ النہضہ کے سربراہ راشدالغنوشی اور انکی صاحبزادی یسریٰ الغنوشی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔
پکڑ دھکڑ کے خلاف آج النہضہ نے پارلیمان کی عمارت پر دھرنا دیا۔ اس دوران النہضہ اور صدر کے حامیوں نے ایک دوسرے پر پتھر اور بوتلیں پھینکیں۔دوسری طرف کرونا کے پیش نظر رات 10 بجے سے نافذ کرفیو اب سات بجے شروع کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ غیر ملکی مبصرین کا خیال ہے کہ النہضہ کی جانب سے بڑھائے جانیوالے مفاہمت کے ہاتھ کو صدر قیس جس حقارت سے جھٹک رہے ہیں اسکے پیچھے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور مغرب کا اشارہ بڑا واضح ہے۔ اسلئے کہ اکسٹھ سالہ صدر قیس سعید سلجھے ہوئے متوازن ذہن کے مالک اور النہضہ کے ہمخیال ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں النہضہ نے جناب قیس کی مکمل حمائت کی تھی۔ النہضہ کے امیر راشدالغنوشی بھی انتہائی ٹھنڈے مزاج کے دانشور قسم کے آدمی ہیں جنکی صدر قیس سے بڑی دوستی ہے۔
تیونس کا حالیہ تنازعہ اس مصری ڈرامے کی شرطیہ نئی کاپی نظر آرہا ہے جو 2013 میں کھیلا گیا۔ اسوقت مصر کے سیکیولر و 'جمہوریت' پسند عناصر نے صدر مورسی کی انتہاپسندی اور 'کرپشن' کے خلاف تحریک چلائی۔تحریک کے روح رواں مایہ ناز جوہری سائنسدان اور دانشور ڈاکٹر محمد البرادعی تھے۔مصر کے سلفی ملا بھی انکے ساتھ مل گئے۔ مظاہروں کے دوران اخوان کے دفاتر پر حملے کئے گئے اور جناب البرادعی نے فوج سے درخواست کی کہ ملک کو بچانے کیلئے سجیلے جوان آگے آئیں۔ستم ظریفی کہ گوشہ نشیں البرادعی کو اب بہت دکھ ہے کہ انھوں نے جنرل السیسی پر اعتماد کرلیا جنھوں نے وعدہ کیا تھا کہ صدر مورسی کو معزول کرتے ہی نئے انتخابات کا اعلان کردیا جائیگا جس میں اخوان کے علاوہ تمام جماعتوں کو شرکت کی اجازت ہوگی اور فوج بالکل غیر جانبدار رہیگی۔
کچھ ایسی ہی صورتحال ترکی میں بھی پیش آئی تھی جب معروف اسکالر ، مبلغ اور امام فتح اللہ گولن اور صدر ایردوان کے اختلافات اتنے بڑھے کہ گولن صاحب نے مبینہ طور ہر 2016 میں ایردواں کے خلاف فوجی بغاوت کی حمائت کی۔ گولن سعید الزماں المعروف بدیع الزماں نورسی کے شاگرد ہیں۔کردستان کے علاقے نورس میں جنم لینے والےسعید الزماں نورسی کو ترکی کا ابولاعلیٰ مودودی سمجھا جاتا ہے۔ فتح اللہ گولن، پروفیسر نجم الدین اربکان کے ساتھی تھے اور جب وزیراعظم ایردوان نے انصاف و ترقی پارٹی قائم کی تو گولن صاحب ایردوان کا دست و بازو بن گئے۔ گولن اور ایردوان کے درمیان اختلافات اسوقت سامنے آئے جب 2013 میں گولن کے حامیوں نے اردوان پر مالی کرپشن اور اقربا پروری کے الزام لگاکر انکے خلاف عوامی مظاہرے کئے۔ سیکیولر طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور کئی ہفتوں تک حکومت مخالف مظاہرے جاری رہے۔ ایردوان کے ساتھیوں نے الزام لگایا کہ ان مظاہروں کیلئے گولن نے مالی مدد فراہم کی تھی۔
بدترین آزمائشوں سے گزرنے کے باوجود اسلامی تحریکوں نے اختلافی مسائل پر اعتدال و برداشت کے گر نہیں سیکھے۔ ایسے ہی فروعی اختلاف نے مصر میں اخوان اور سلفیوں کو ایکدوسرے کے خلاف صف آرا کیا اور یہ اختلافات اس حد تک بڑھ گئے کہ سلفی تحریک نے اخوانیوں کے خلاف قصابِ قاہرہ جنرل السیسی کا ساتھ دیا۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اب تیونس میں ہے۔
No comments:
Post a Comment